Agar Payam Aaye - Article No. 2520

Agar Payam Aaye

اگر پیام آئے - تحریر نمبر 2520

اگر کسی دن مجھے وہ پیغام ملا جو آج میکسیکی خاتون کو ملا تھا تو میں اس کا ایک ایک حرف سچ مان لوں گی

جمعہ 23 اپریل 2021

شفیق الرحمن
مسز میکالے بیٹے کا انتظار کر رہی تھی۔ہومر گھر پہنچا تو رات کے بارہ بج چکے تھے۔اس کی پلکیں نیند سے بوجھل تھیں۔وہ بے حد تھکا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر اس کی ماں بھانپ گئی کہ آج وہ متوحش اور بے چین ہے۔وہ کچھ دیر اندھیرے میں کھڑا رہا۔پھر اندر جا کر دن بھر کی اہم خبریں بتانے کی بجائے کہنے لگا۔”امی سب ٹھیک ہے۔
بس آپ اتنی دیر تک میرا انتظار نہ کیا کریں۔“
”مجھے معلوم ہے۔آؤ یہاں بیٹھ جاؤ۔“
وہ پرانی کرسی پر دھم سے گر پڑا۔
”کیا بات ہے بیٹا؟تم پریشان سے ہو۔“
”سوچ رہا ہوں کہ کس طرح آپ کو بتاؤں۔آج ایک میکسیکی خاتون کے ہاں مجھے تار لے جانا پڑا۔تار شعبہ جنگ سے آیا تھا۔ان کا لڑکا لڑائی میں مارا گیا۔

(جاری ہے)

لیکن انہیں یقین ہی نہ آتا تھا۔

آج تک میں نے کسی کو اس قدر دل شکستہ نہیں دیکھا۔انہوں نے مجھے مٹھائی کھلائی‘بہت سا پیار کیا اور کہا کہ میں ان کا بیٹا ہوں۔وہ مجھے اس طرح دیکھ رہی تھیں کہ مجھے خود یہ محسوس ہوا جیسے میں ان کا بیٹا ہوں۔میرا جی بہت خراب ہوا۔دفتر پہنچا تو تار بابو نشے میں دھت تھا۔
اس کی ہدایت کے مطابق پہلے اس کے منہ پر پانی چھڑکا‘پھر سیاہ کافی پلائی۔
اگر اس نے ٹھیک طرح کام نہ کیا تو اسے پنشن دے دی جائے گی۔پنشن کے نام سے اسے گھبراہٹ ہوتی ہے۔خیر آج تو وہ ہوش میں آگیا تھا۔اپنے متعلق باتیں سناتا رہا۔پھر ہم دونوں نے مل کر گانا گایا۔لیکن میں اداس سا ہو گیا۔“
وہ کمرے میں ٹہلنے لگا۔پھر دروازے میں جا کھڑا ہوا اور باہر دیکھنے لگا۔”نہ جانے میں آج کیوں اپنے آپ کو اس قدر تنہا محسوس کر رہا ہوں۔
جب والد کا انتقال ہوا تھا تب بھی ایسے خیالات نہیں آئے تھے‘کیونکہ ان کی جدائی پر آپ ہمارا آسرا بن گئی تھیں۔آپ نے کبھی ہمیں یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ کوئی تغیر آیا ہے۔سب کچھ پہلے کی طرح رہا۔لیکن آج معلوم نہیں کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بہت کچھ بدل چکا ہے۔“
وہ مڑا اور اپنی والدہ سے مخاطب ہوا۔”امی!فقط دو ہی دن میں اتنا تغیر کیسے آگیا۔
میں اداس ہوں‘دل برداشتہ ہوں۔لیکن وجہ نہیں جانتا۔“
اس کی ماں خاموش تھی۔وہ چاہتی تھی کہ لڑکا باتیں کرتا رہے۔
”میں نہیں جانتا کہ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔اور کس لئے ہو رہا ہے۔میں تو یہ چاہتا ہوں کہ آپ کو کبھی صدمہ نہ پہنچے۔ہر شعبے میں تغیر آجائے‘لیکن آپ اس گھر میں کوئی تغیر نہ آنے دیں۔“
اس کی ماں مسکرانے لگی۔
جب لڑکا خاموش ہوا تو بولی۔”بیٹے یہ تغیر جو تمہیں محسوس ہو رہا ہے۔ہے بھی اور نہیں بھی۔یہ احساس تنہائی اس لئے ہے کہ تم اب بچے نہیں رہے۔لیکن تنہائی کہاں نہیں؟یہ تو ازل سے دنیا میں ہے۔لڑائی سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔یہ جنگ کی تخلیق نہیں‘ بلکہ یہ خود انسان کو جنگ لڑنے پر اکساتی ہے۔جب ہر چیز سے برکت اُٹھ جاتی ہے اور انسان کا عقیدہ ڈگمگانے لگتا ہے۔
لیکن ہم ہمیشہ اکٹھے رہیں گے۔ہم نہیں بدلیں گے۔“
وہ سوچ رہی تھی کہ اگر کسی روز کوئی ایسی ویسی خبر آگئی تو پھر کیا ہو گا۔”اگر کسی دن مجھے وہ پیغام ملا جو آج میکسیکی خاتون کو ملا تھا تو میں اس کا ایک ایک حرف سچ مان لوں گی۔میں روؤں گی بھی نہیں۔کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میرے بیٹے کو کوئی فنا نہیں کر سکتا۔اچھا یہ بتاؤ کہ تم نے آج کیا کھایا تھا؟“
”سموسے کھائے تھے۔
سیب‘ناریل اور بالائی کے مزے دار سموسے۔منیجر صاحب نے لے کر دئیے تھے۔امی وہ بڑے اچھے آدمی ہیں۔“
”کل بیس کے ہاتھ دوپہر کا کھانا بھجواؤں گی۔“
”نہیں،امی مجھے دوپہر کا کھانا نہیں چاہیے۔آپ تکلیف نہ کیجیے۔ہم اکٹھے مل کر کہیں نکل جاتے ہیں اور کھانا کھا لیتے ہیں‘خوب لطف آتا ہے۔یہ ملازمت بہت اچھی ہے۔اب مجھے سکول اتنا اچھا نہیں لگتا۔

”بیٹا سکول اس لئے ہیں کہ بچوں کو گلیوں کی آوارگی سے بچائیں۔لیکن ایک نہ ایک دن طوعاً و کرہاً سب کو گلیوں میں نکلنا ہی پڑتا ہے۔ والدین بچوں کو اتنی بڑی دنیا میں بھیجنے سے ڈرتے ہیں۔ان کا یہ ڈر فطری ہے لیکن بچوں کو کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے۔دنیا ڈرے ہوئے بچوں سے پہلے ہی بھری پڑی ہے۔خود خوفزدہ ہیں‘اس لئے دوسروں کو بھی خوفزدہ کر دیتے ہیں۔
بیٹے تم کسی سے مت ڈرنا۔جو ملے اس سے محبت سے پیش آنا۔میں ہر رات اس کمرے میں تمہارا انتظار کروں گی۔لیکن جب تمہارا جی باتیں کرنے کو نہ چاہیے تو سیدھے جا کر سو جایا کرو۔ میں برا نہیں مانوں گی۔میں جانتی ہوں کہ بعض اوقات زبان ان جذبات کا اظہار نہیں کرتی جو دل میں ہوتے ہیں۔تم تھکے ہوئے ہو‘سو جاؤ“”بہت اچھا‘امی“ہومر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

Browse More Urdu Literature Articles