Akeli Larki - Article No. 2523

Akeli Larki

اکیلی لڑکی - تحریر نمبر 2523

لڑکی کی اداسی نے اسے متوجہ کر لیا

منگل 27 اپریل 2021

شفیق الرحمن
سپنگلر باہر نکلنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ مشین کھٹ کھٹ کرنے لگی۔پیغام خود بخود ٹائپ ہونے لگا۔اس نے الفاظ پڑھے۔”بڑے تار گھر والے بلا رہے ہیں۔ہومر واپس آئے تو اسے بیٹھا لینا‘دوسرے تار گھر سے بھی اطلاع آئے گی۔ہومر چاہے تو ویسٹرن یونین کے ہرکارے کو آج پھر ہرا سکتا ہے۔کل کتنے تار ملے تھے؟“
”سڑسٹھ“گروگن نے بتایا۔


”اڑسٹھ میں سے سڑسٹھ ہمیں ملے کیوں کہ ہومر پہلے پہنچا۔جو ہرکارہ دیر میں پہنچے اسے صرف ایک تار ملتا ہے۔میں ذرا کاربٹ کی دکان تک ہو آؤں۔“
مشین پھر کھڑکنے لگی۔یہ دوسرے تار گھر والے تھے۔
”آج میں پہلے پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔“
سپنگلر سرپٹ بھاگا۔اتنی تیزی سے جیسے سنٹر فارورڈ گیند لیے گول کرنے جا رہا ہو۔

(جاری ہے)

نکڑ پر ایک لڑکی نظر آئی۔

حسین‘پژمردہ اور خاموش۔اکیلی لڑکی غالباً بس کا انتظار کر رہی تھی۔سپنگلر کا دھیان کسی اور طرف تھا۔لیکن لڑکی کی اداسی نے اسے متوجہ کر لیا۔ایک انجانی کشش سے مغلوب ہو کر وہ اس کے پاس جا کھڑا ہوا۔اور بڑی بے ساختگی سے لڑکی کو چوم لیا۔”تم سی حسین لڑکی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔“یہ کہہ کر وہ بگٹٹ بھاگا۔جب تار گھر کی سیڑھیاں پھلانگتا ہوا اوپر چڑھ رہا تھا تو دوسرا ہرکارہ سڑک پر اپنی سائیکل رکھ رہا تھا۔
سپنگلر دفتر میں داخل ہوا تو دوسرا ہرکارہ بجلی کی لفٹ کا انتظار کر رہا تھا۔
”میں محکمہ ڈاک کے تار گھر سے آیا ہوں۔“سپنگلر نے کھڑکی سے جھانک کر کہا۔
”ٹام تم پھر ہرکارے بن گئے ہو؟“اندر سے بوڑھی عورت نے پوچھا۔
”جو ایک مرتبہ ہرکارہ بن جائے‘عمر بھر ہرکارہ رہتا ہے۔لیکن دراصل میں تو تمہیں ملنے آیا کرتا ہوں مسز بروکنگٹن۔

دوسرے ہرکارے نے صدا لگائی۔”ویسٹرن یونین۔“
”ہیری آج تم پھر دیر سے پہنچے۔“عورت نے صرف ایک تار اسے دیا۔
ہرکارہ سوچنے لگا کہ حرفیوں نے آج پھر ہرا دیا۔لیکن یہ اطمینان تھا کہ اس مرتبہ ہومر نے نہیں خود منیجر نے ہرا دیا ہے۔اس نے مسز بروکنگٹن کو سلام کیا اور چلا گیا۔
عورت نے کاغذوں کا بنڈل سپنگلر کے حوالے کیا۔
”لوٹام پورے ایک سو انتیس پیغام ہیں۔ایک بھی بیرنگ نہیں۔“
”ایک سو انتیس اچھی خاصی آمدنی ہو جائے گی۔“سپنگلر نے آگے بڑھ کر عورت کو چوم لیا۔
”ٹام کیا کرتے ہو؟“عورت نے خوش ہو کر کہا۔
”بیس سال ہوئے میں نے تمہیں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔یاد ہے جب میں پہلی مرتبہ ہرکارہ بن کر آیا تب سے یہ خواہش تھی کہ تمہیں چوم لوں۔
اتنے طویل عرصے میں تمہاری خوبصورتی میں کوئی فرق نہیں آیا۔“
”ٹام‘بوڑھوں کو نہیں چھیڑا کرتے۔“
”کون کہتا ہے کہ تمہارے حسن میں تغیر آگیا ہے۔“
”تم بڑے اچھے ہو‘تمہارا نیا ہرکارہ بھی اچھا ہے۔آج وہ نہیں آیا؟“
ہومر؟آج اس کا بھائی کسی پھندے میں پھنس گیا تھا۔اسے دیر ہو گئی۔اب وہ ہر روز آیا کرے گا اور سب سے پہلے پہنچے گا۔
خدا حافظ ایملی۔“
”تمہیں میرا پہلا نام بھی یاد ہے؟“
سپنگلر واپس آتے وقت بے حد مسرور تھا۔ہومر نے اپنے بھائی کو پھندے سے چھڑا لیا۔گروگن ضعیفی کے باوجود کام کرتا ہے۔آگی ہرکارہ بننے کے لئے بڑی پھرتی سے بڑا ہو رہا ہے۔ڈائنا سٹیڈ مجھے چاہتی ہے ۔اور وہ غمگین سی حسینہ جو اکیلی کھڑی تھی۔
اسے یاد آیا یہی جگہ تو تھی جہاں وہ بس کا انتظار کر رہی تھی۔
پتا نہیں وہ پھر بھی ملے گی یا نہیں۔اگر ملی بھی تو کیا اتنی دلکش معلوم ہو گی؟
وہ سیٹی بجاتا ہوا کاربٹ کی دکان میں داخل ہوا۔اندر پرانا والز ”تمہارے سوا مجھے کچھ نہیں چاہیے۔“بج رہا تھا۔
بار پر کاربٹ کھڑا تھا۔اس نے دیکھتے ہی سکاچ وہسکی انڈیلی‘اور پانی ڈال کر گلاس سامنے رکھ دیا۔
”ہلور الف کیا حال ہے؟“
”نہ اچھا ہے نہ برا ان دنوں سپاہی بہت آتے ہیں۔
ان کے پاس فرصت زیادہ ہوتی ہے۔اور رقم کم۔میں ان سے خاص رعایت برتتا ہوں۔ ان کی جیب خالی ہو تو کبھی کبھار اپنے پاس سے کچھ دے دیتا ہوں۔“
”اس طرح نقصان نہیں ہوتا۔“
”ہوتا تو ہے لیکن جنگ کے بعد شاید نفع کما سکوں۔دراصل مجھے کاروبار چلانا نہیں آتا۔میں دکاندار ہر گز نہیں ہوں۔ینگ کاربٹ ہوں جو کبھی مُکہ باز تھا۔“
وہ خاموش ہو گیا۔
کچھ پریشان سا تھا‘چہرے پر تفکر کے آثار نمایاں تھے۔
”ٹام یہ کل کی بات ہے۔شام کو میں کام میں مصروف تھا۔یکایک ایک آدمی چالایا۔”ابے اور بہروپیئے شراب دے‘وہ سپاہی نہیں تھا بلکہ مقامی باشندہ تھا۔میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا کہ شاید کسی اور سے مخاطب ہے۔لیکن بار پر میرے سوا اور کوئی نہیں تھا۔“
”بہروپیئے!کیا تو نے مجھ سے کلام کیا ہے؟“میں نے پوچھا۔

”ہاں ہاں بہروپیئے تجھ ہی سے تو مخاطب ہوں۔شراب لا جلدی سے۔“
”اور میرا خون کھولنے لگا۔اب ایسے مریل بسے ہوئے آدمی سے میں کیا کہتا۔اسے پیٹنا بھی نہیں چاہتا تھا کیونکہ میں مُکہ باز رہ چکا ہوں۔میں اس کے پاس گیا اور اسے یوں اٹھا لیا۔“
کاربٹ نے سپنگلر کو کوٹ کے کالروں سے پکڑ کر ہوا میں لٹکا دیا۔
”یوں اٹھا کر میں نے اسے کہا۔
تو ینگ کاربٹ سے باتیں کر رہا ہے۔اگر میں نے ایک مُکہ لگا دیا تو تیرا یہیں انتقال ہو جائے گا۔میں نہیں چاہتا کہ تجھ جیسے ہونق میری دکان میں آآکر مریں۔اسی وقت یہاں سے نکل جا اور خدا کا شکر ادا کر کہ میں نے تجھے زندہ چھوڑ دیا ہے۔“
کاربٹ نے سپنگلر کا کوٹ چھوڑا تو وہ کانپ رہا تھا۔
”رات بھر میں غصے سے تلملایا۔اور یہ واقعہ پہلی بار نہیں ہوا۔
ہر رات کوئی نہ کوئی لڑنے آجاتا ہے۔میں بہت ڈرتا ہوں۔کبھی زیادہ غصہ آگیا تو کسی کو جان سے مار بیٹھوں گا۔یہ کاروبار مجھ سے نہیں چلتا‘یہ کام چھوڑنا پڑے گا۔“
دونوں کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔سپنگلر نے واپس جاتے وقت دیکھا کہ سپاہی خوب مزے میں ہیں۔باجے پر مشہور دھن”سفید کلیاں“بج رہی تھی۔سپاہی گا رہے تھے۔گانا تو یونہی سا تھا لیکن لے بُری نہیں تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles