Dunya Mujh Par Rashk Kaare Gi - Article No. 2515

Dunya Mujh Par Rashk Kaare Gi

دنیا مجھ پر رشک کرے گی - تحریر نمبر 2515

پڑوس سے میری ایرینا آگئی اور پیانو کے پاس کھڑی ہو کر گانے لگی

جمعرات 15 اپریل 2021

شفیق الرحمن
سانتا کلارا سڑک پر میکالے کنبے کے گھر سے گانے کی آواز آرہی تھی۔مسز میکالے اور بیس مشہور گیت”دنیا مجھ پر رشک کرے گی“گا رہی تھیں۔یہ گیت مارکس کے لئے تھا جو کہیں دور تھا۔اسے یہ گیت بہت پسند تھا۔پڑوس سے میری ایرینا آگئی اور پیانو کے پاس کھڑی ہو کر گانے لگی۔وہ بھی یہ گیت مارکس کے لئے گا رہی تھی جو اسے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز تھا۔
چھوٹا بچہ یولی سیز چُپ چاپ سُن رہا تھا۔اسے یقین ہو چلا تھا کہ ضرور کوئی بات ہے جو اس سے چھپائی جا رہی ہے۔وہ یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ وہ بات کیا ہے حالانکہ وہ تقریباً اونگھ رہا تھا۔
گیت ختم ہوا تو اس نے اپنی ماں سے پوچھا۔”بھائی مارکس کہاں ہیں؟“
مسز میکالے بولی”بیٹے کچھ خود بھی سمجھ لیا کرو۔

(جاری ہے)


یولی سیز نے سمجھنے کی کوشش کی‘لیکن سوچنے لگا کہ کیا سمجھے۔


”کیا سمجھوں؟“
”یہی کہ مارکس یہاں سے جا چکا۔“
”کہاں؟“
”وہ فوج میں ہے۔“
”تو وہ گھر کب آئیں گے؟“
”جب جنگ ختم ہو گی۔“
”کل؟“
”نہیں کل نہیں۔“
”تو پھر کب؟“
”یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔ہم سب انتظار کر رہے ہیں۔“
”ابا جان کہاں ہیں؟ہم انتظار کریں تو کیا وہ بھی آسکتے ہیں‘مارکس کی طرح؟“
”نہیں وہ اس طرح نہیں آئیں گے جیسے سیڑھیاں اور دالان طے کرکے کبھی آیا کرتے تھے۔

بچے کے لئے اتنی بات سمجھنا بہت مشکل تھا۔فقط ایک لفظ رہ گیا تھا جس کا استعمال کچھ مدد دے سکتا تھا۔اس نے یہی لفظ بول دیا۔
”کیوں؟“
مسز میکالے نے بیس اور میری کی طرف دیکھا اور کہا۔”موت ایسی چیز نہیں جسے ہر ایک سمجھ سکے‘خصوصاً ایک چھوٹا بچہ۔لیکن ہر جاندار شے ایک دن فنا ہو جائے گی۔“
وہ یولی سیز سے مخاطب ہوئی۔
“وہ دن تمہارے ابا کے لئے دو سال پہلے آیا تھا۔مگر جب تک ہم زندہ ہیں اور اکٹھے ہیں‘خواہ ہم میں سے صرف دو افراد ہی رہ جائیں جو انہیں یاد رکھتے ہوں اس وقت تک دنیا کی کوئی طاقت انہیں ہم سے نہیں چھین سکتی۔ان کا جسم فنا ہو سکتا ہے لیکن وہ خود فنا نہیں ہو سکتے۔جوں جوں تم بڑے ہو گے اپنے ابا کو زیادہ اچھی طرح جاننے لگو گے۔وہ مرے نہیں‘اس لئے کہ تم زندہ ہو۔
وقت‘حادثہ‘بیماری اور تھکاوٹ۔ان سب نے ان کا جسد خاکی ہم سے چھین لیا لیکن پھر انہیں تمہارے روپ میں واپس لوٹا دیا‘اب روپ میں جو کہیں نو عمر ہے۔شاید تم یہ باتیں نہ سمجھ سکو‘لیکن یہ یاد رکھنا کہ کوئی اچھی چیز کبھی فنا نہیں ہوتی۔اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں انسان نہ رہتے‘ زندگی نابود ہو چکی ہوتی۔مگر دنیا میں آبادی بھی ہے اور زندگی بھی۔

بچہ کچھ دیر سوچتا رہا۔پھر اچانک اسے صبح کی بات یاد آگئی۔
”امی‘گلہریاں کیا ہوتی ہیں؟“اس نے پوچھا۔
اس سوال پر امی کو ذرا بھی تعجب نہ ہوا۔وہ جانتی تھی کہ لڑکے میں تجسس کا مادہ ہے۔یہ جذبہ اس کی آنکھوں سے جھلکتا ہے۔اس کے دل میں ولولے ہیں۔محبت ہے۔کسی ایک چیز کے لئے نہیں بلکہ ہر چیز کے لئے۔
”زمین کی گلہریاں‘آسمان کے پرندے اور سمندر کی مچھلیاں‘کائنات کے اجزاء ہیں۔
ہماری زندگی کے حصے ہیں۔ہر چیز جو سانس لیتی ہے وہ ہمارا ایک جزو ہے۔بہت سی ایسی چیزیں جو ہماری طرح متحرک نہیں وہ بھی ہمارا جزو ہیں۔سورج‘زمین‘آسمان‘تارے‘دریا اور سمندر یہ سب ہمارے شریک ہیں۔ہمیں دنیا میں بھیجا گیا ہے تاکہ ہم ان سے لطف اندوز ہوں اور خدا کا شکر بجا لائیں۔“
بچے نے اثبات میں سر ہلایا۔”اچھا یہ تو بتایئے کہ ہومر کہاں ہے؟“
”تمہارا بھائی ہومر کام پر گیا ہے۔
کل سے اس نے ملازمت کر لی ہے۔سکول کے بعد وہ نوکری پر چلا جاتا ہے اور آدھی رات کو آتا ہے۔تم اس وقت بستر میں ہوتے ہو۔“
بچے کی سمجھ میں نہ آیا کہ کام کیا ہوتا ہے‘اس کا بھائی ملازمت کیوں کر رہا ہے‘ملازمت سے انسان کو کیا لطف حاصل ہو سکتا ہے؟
”ہومر نوکری کیوں کر رہا ہے؟“
دونوں لڑکیاں بھی خاموشی سے ماں بیٹے کی گفتگو سن رہی تھیں۔

مسز میکالے بولی۔”ہومر اس لئے ملازم ہوا کہ تمہارا بڑا بھائی مارکس فوج میں ہے۔ہمیں رقم کی ضرورت ہے۔کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑے خریدنے کے لئے مکان کا کرایہ ادا کرنے کے لئے اور دوسروں کو دینے کے لئے جن کی ضروریات زیادہ اہم ہیں۔“
”وہ کون ہیں؟“
”بہت سے لوگ’جو غریب ہیں‘ضرورت مند ہیں۔“
”غریب کون ہوتے ہیں؟“
”ہر ایک غریب ہے۔
“مسز میکالے مسکرانے لگی۔
یولی سیز اب بالکل اونگھ رہا تھا۔اس نے ماں کی طرف متوجہ رہنے کی کوشش کی مگر نہ رہ سکا۔
”بیٹے‘دوسروں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔دوسروں کو اپنی توفیق سے زیادہ دینا چاہیے۔اس نیک کام میں فضول خرچی بھی جائز ہے۔جو شخص تمہاری زندگی میں آئے اس کی مدد کرو۔کوئی تمہیں دھوکہ نہیں دے سکے گا۔اگر تم نے چور کو کچھ دے دیا تو وہ تمہاری چوری نہیں کرے گا۔
جتنا تم نے دوسروں کو دیا ہے اس سے کہیں زیادہ تمہیں مل جائے گا۔“
مسز میکالے نے بچے کی طرف دیکھا اور بیس سے کہا۔”اسے بسر میں لٹا دو۔“
بیس اور میری اسے اٹھا کر لے گئیں۔مسز میکالے تنہا بیٹھی تھی۔یکا یک قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔اُس نے مڑ کر دیکھا۔اسے ایسا معلوم ہوا جیسے میتھیو میکالے کو جیتا جاگتا دیکھ رہی ہو۔
”میں سو گیا تھا۔مجھے نیند آرہی تھی۔کیٹی مجھے معاف کرنا۔“
یہ کہہ کر وہ ہنسا۔یہ ہنسی بالکل یولی سیز کی ہنسی کی طرح تھی۔بیس واپس آگئی اور بولی۔
”بستر میں لٹانے سے پہلے ننھا ہنسا تھا؟“

Browse More Urdu Literature Articles