Ee Khuda Hamare Qareeb Reh - Article No. 2522

Ee Khuda Hamare Qareeb Reh

اے خدا ہمارے قریب رہ - تحریر نمبر 2522

اس کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے نزدیک رہ۔ہر وقت ہمارے ساتھ رہ۔یعنی ہمیں اچھی شے سے محبت کرنے کی صلاحیت عطا فرما

پیر 26 اپریل 2021

شفیق الرحمن
صبح سات بجے الارم بجا۔ہومر نے جلدی سے اسے بند کرکے کتاب نکالی جس میں ورزش کی ہدایتیں تھیں۔اس کا چھوٹا بھائی بھی گھنٹی کے شور سے جاگ اٹھا تھا۔ہومر ساتویں ورزش کرنے لگا۔یولی سیز اس کے پاس کھڑا بڑے غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔ہومر نے اچھل کود کی۔ لمبے لمبے سانس لے کر فرش پر لیٹ گیا اور آہستہ آہستہ پاؤں اوپر اٹھانے لگا۔

”یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟“
”ورزش۔“
”ورزش کس لئے کرتے ہیں؟“
”پٹھوں کو مضبوط بنانے کے لئے۔“
”آپ دنیا میں سب سے طاقتور انسان بننا چاہتے ہیں؟“
”نہیں تو۔“
”تو پھر کیا بننا چاہتے ہیں؟“
“تم چپ چاپ سو رہو۔“
یولی سیز فرمانبردار بچے کی طرح لیٹ گیا۔

(جاری ہے)

مگر ذرا سی دیر میں پھر اٹھ کر بیٹھ گیا۔

ہومر کپڑے بدل رہا تھا۔
”آپ کہاں جا رہے ہیں؟“
”سکول۔“
”پڑھنے جا رہے ہیں؟“
”آج دو سو بیس گز کی دوڑ میں حصہ لوں گا۔“
”یہ دوڑ کس طرح دوڑتے ہیں؟“
”دس دس گز کے فاصلے پر لکڑی کے چوکھٹے ہوتے ہیں۔بھاگتے میں ان پر سے بھی کودنا پڑتا ہے۔“
”کیوں؟“
”اس لئے کہ یہ ضروری ہے۔
سب کو کودنا پڑتا ہے۔جو اس قصبے میں پیدا ہوتا ہے اسے دوڑ میں شریک ہونا پڑتا ہے۔اتھیکا کی یہ دوڑ بڑی مشہور ہے۔ہمارے دفتر کے منیجر صاحب نے سکول میں یہ دوڑ جیتی تھی۔وہ اس علاقے کے چیمپئن تھے۔“
”علاقے کا چیمپئن کیا ہوتا ہے؟“
”جو سب کو ہرا دے وہ چیمپئن کہلاتا ہے۔“
”آپ بھی سب کو ہرا دیں گے؟“
”معلوم نہیں‘میں کوشش کروں گا۔
تم سو کیوں نہیں جاتے؟“
یولی سیز بستر میں دبک گیا اور آہستہ سے بولا:”کل میں نے مال گاڑی دیکھی تھی۔“
ہومر کو معلوم تھا کہ چھوٹا بھائی کیا بتانا چاہتا ہے۔خود اس نے بھی جب ٹرین دیکھی تھی تو بڑی کشش محسوس کی تھی۔وہ مسکرانے لگا۔”کیسی تھی مال گاڑی؟“
”اس میں ایک حبشی تھا جس نے میرے سلام کا جواب دیا۔“
”پہل کس نے کی تھی؟“
”پہلے میں نے سلام کیا‘اس نے جواب دیا۔
پھر میں نے ہاتھ ہلائے تو اس نے بھی ہاتھ ہلائے۔وہ کنٹکی کا گیت گا رہا تھا۔“
”اچھا؟“
”اس نے یہ بھی کہا تھا۔میں وطن جا رہا ہوں۔بھائی جان ہم وطن کب جائیں گے؟“
”ہم تو وطن میں ہیں۔“
”تو وہ یہاں آجاتا۔“
”ہر ایک کا اپنا اپنا الگ وطن ہوتا ہے۔کسی کا وطن مشرق میں ہے‘کسی کا مغرب میں‘کسی کا شمال میں‘کسی کا جنوب میں۔
ہمارا مغرب میں ہے!“
”کیا مغرب سب سے اچھا ہے؟“
”معلوم نہیں۔میں اور کہیں تو گیا نہیں۔“
”جائیں گے؟“
”ضرور جاؤں گا۔“
”کہاں؟“
”نیویارک۔“
”وہ کہاں ہے؟“
”مشرق میں ہے۔نیویارک سے لندن‘وہاں سے پیرس۔پھر برلن‘وی آنا‘روم‘ماسکو‘سٹاک ہوم‘کبھی یہ سب بڑے شہر دیکھوں گا۔

”آپ واپس تو آجائیں گے نا؟“
”ہاں۔“
”واپس آکر آپ کو خوشی ہو گی؟“
”ہاں۔“
”کیوں؟“
”اس لئے کہ یہاں امی ہوں گی۔مارکس اور بیس ہوں۔تم ہو گے اور میری ایرینا اور اس کے ابا ہوں گے۔وطن واپس آنے سے بڑی خوشی ہو گی۔ہم پیانو بجائیں گے‘گائیں گے‘اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھائیں گے۔“
”آپ پردیس نہ جایئے۔
“چھوٹے بھائی نے التجا کی۔لللہ نہ جایئے۔“
”میں ابھی فوراً ہی تو نہیں جا رہا ہوں۔“
”کبھی بھی نہ جایئے۔ابا گئے تو وہ واپس نہیں آئے۔مارکس اب تک پردیس میں ہے۔آپ بھی جانا چاہتے ہیں۔“
”لیکن میرے باہر جانے میں ابھی دیر ہے۔اب تم سو جاؤ۔“
”بہت اچھا۔آپ بائیس گز کی دوڑ میں حصہ لیں گے؟“
”بائیس نہیں۔
دو سو بیس۔“
ہومر کی ماں اور بہن ناشتے پر اس کا انتظار کر رہی تھیں۔تینوں نے پہلے دعا مانگی پھر کھانا شروع کیا۔
”تم نے کون سی دعا مانگی؟“بیس نے بھائی سے پوچھا۔
”وہی جو روز مانگتا ہوں۔“ہومر نے دعا کے الفاظ دوہرائے:۔
”اے خدا ہمارے قریب رہ
پیارے خدا ہر وقت ہمارے ساتھ رہ
ہم پر اپنی برکتیں اتار
بہشت میں ہمیں اپنی ضیافت پر بُلا
آمین!“
یہ تو بہت پرانی دعا ہے اور تم اسے یوں ادا کرتے ہوئے جیسے رٹی ہوئی عبارت دوہرا رہے ہو۔

”یہ بات نہیں ہے۔میں جلدی میں ہوتا ہوں اور بھوکا ہوتا ہوں۔ویسے مجھے اس کا مطلب معلوم ہے۔الفاظ میں کیا رکھا ہے۔اصل مقصد تو خدا کو یاد کرنا ہے۔آپ نے کونسی دعا پڑھی؟“
”پہلے اپنی دعا کے معنی بتاؤ۔“
”دعا کے معنی وہی ہیں جو ہونے چاہئیں۔“
”تو پھر بتاؤ۔کیا معنی ہیں؟“
”اے خدا ہمارے قریب رہ۔
اس کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ ہمارے نزدیک رہ۔ہر وقت ہمارے ساتھ رہ۔یعنی ہمیں اچھی شے سے محبت کرنے کی صلاحیت عطا فرما۔ہم پر اپنی برکتیں اتار۔تاکہ ہم معاف کرنا سیکھیں۔اس کا مفہوم بالکل واضح ہے۔یعنی بہشت میں جو ضیافتیں ہوں گی ان پر ہمیں نہ بھولیے گا۔“
”لفظ’خدا‘سے کس طرف اشارہ ہے؟“
ہومر اپنی والدہ سے کہنے لگا۔”کیوں امی دعا کا یہی مطلب ہے نا؟اچھے لوگ جب کھانے کی میز پر بیٹھتے ہیں تو گویا بہشتی ضیافت میں شریک ہوتے ہیں۔
لفظ خدا کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔“
”تو’خدا‘کوئی نہ کوئی تو ہوا نا؟“بیس نے پوچھا۔
”ہاں‘جیسے میں کوئی نہ کوئی ہوں۔امی اور آپ اور دوسرے لوگ بھی کوئی نہ کوئی ہیں۔دعا کے ذریعے یہ خواہش ظاہر کی گئی ہے کہ ہمارے لئے دنیا بہشت بن جائے اور جو ہمارے ساتھ کھانا کھائے‘وہ ضرور کوئی نہ کوئی ہو۔آپا یہ ایک معمولی سی دعا ہے۔
آپ تو یونہی لٹھ لے کر پیچھے پڑ گئی ہیں۔آپ کتنا ہی پریشان کیوں نہ کریں۔میرے عقیدے میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اس دعا پر میرا عقیدہ ہے‘بلکہ ہم سب کا عقیدہ ہے۔ کیوں امی؟“
”سچ کہتے ہو۔“مسز میکالے بولی۔”یہ عقیدہ ہی ہے جس سے لوگ زندہ ہیں۔اگر یہ نہ ہو تو دنیا بھر کی نعمتیں سامنے رکھی رہیں‘ضیافت کا سماں نہیں بندھتا۔عقیدہ ہی ہر شے میں رنگ بھرتا ہے۔

”سن لیا آپا!“ہومر نے دفعتہ بحث ختم کر دی۔”آج میں دو سو بیس گز کی دوڑ میں حصہ لوں گا۔“
”اچھا؟“
”یہ یہاں کی بڑی مشہور دوڑ سمجھی جاتی ہے۔دوڑنے کے علاوہ اس میں کودنا بھی پڑتا ہے۔جب مسٹر سپنگلر سکول میں تھے ان دنوں وہ بھی دوڑے تھے۔ان کی جیب میں ہر وقت ایک اُبلا ہوا انڈا ہوتا ہے۔وہ اسے خوش نصیبی کی علامت سمجھتے ہیں۔

”جیب میں اُبلا ہوا انڈا!کچھ وہمی سے معلوم ہوتے ہیں۔“بیس بولی۔
”وہمی ہوں یا کچھ اور‘مجھ پر بڑے مہربان ہیں۔انہوں نے مجھے دو سموسے لے کر دیئے۔مسٹر گروگن تو چوتھائی حصہ بھی نہ کھا سکے۔انہیں کھانے سے زیادہ پینے سے رغبت ہے۔“
اتنے میں پڑوس کی میری ایرینا آگئی۔اس کے ہاتھ میں چھوٹا سا پیالہ تھا۔
”آیئے۔
ناشتہ کیجیے۔“ہومر بولا۔
شکریہ۔میں نے ابھی ابھی ابا کے ساتھ ناشتہ کیا ہے۔انہیں کام پر روانہ کرکے آرہی ہوں۔اس پیالے میں تھوڑا سا آڑوؤں کا مربہ ہے۔“
”شکریہ!“مسز میکالے نے کہا۔پھر پوچھا۔”تمہارے ابا کیسے ہیں؟“
”جی اچھے ہیں۔بس ہر وقت چھیڑتے رہتے ہیں۔صبح اٹھتے ہی پہلا سوال ہوتا ہے کہ مارکس کا کوئی خط آیا؟“
”مارکس کا خط آتا ہی ہو گا۔
آؤ میری ہم چلیں۔“بیس اٹھ کھڑی ہوئی۔
”چلو“میری بولی۔پھر مسز میکالے سے کہنے لگی۔”میں کالج سے سچ مچ تنگ آچکی ہوں۔یوں لگتا ہے جیسے ہائی سکول میں دوبارہ پڑھ رہی ہوں۔پڑھنے کی میری عمر نہیں رہی۔جی چاہتا ہے کہیں ملازمت کر لوں۔“
”جی تو میرا بھی یہی چاہتا ہے۔“بیس بولی۔
”تم تو نری بچیاں ہو۔بھلا سترہ برس کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔
ایک کے ابا اچھی جگہ ملازم ہیں دوسری کے بھائی کی نوکری بھی بُری نہیں۔تم دونوں کو فکر نہیں کرنا چاہیے۔“
”مگر یہ بھی اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ مارکس تو فوج میں ہو‘دنیا میں سب ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہوں اور میں مدرسے میں پڑھتی رہوں ۔ اگر میں لڑکا ہوتی تو سپاہی بنتی۔پھر میں اور مارکس فوج میں اکٹھے ہوتے۔“
”فکر مت کیا کرو میری۔
“مسز میکالے بولیں۔یہ بُرے دن گزر جائیں گے۔وہی زمانہ آجائے گا جو پہلے تھا۔“
میری اور بیس دونوں چلی گئیں۔ہومر کچھ دیر خاموش رہا‘پھر بولا۔”امی!اس کے متعلق کیا خیال ہے؟“
”اس میں ہرج ہی کیا ہے‘لڑکیوں کا جی چاہ رہا تھا باہر چلی گئیں۔“
”جی نہیں‘میں تو میری کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔“
”میری بڑی پیاری لڑکی ہے۔
بھولی بھالی‘نیک اور کہنا ماننے والی۔میں بہت خوش ہوں کہ مارکس اسے چاہتا ہے۔اسے اس سے بہتر کوئی لڑکی نہیں مل سکتی۔“
”وہ تو میں سب جانتا ہوں۔میں کچھ اور کہہ رہا تھا۔امی آپ سمجھی نہیں۔“
وہ خاموش ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اب امی کو کیا بتاؤں گا کہ اس جنگ میں بہت سے لوگوں کے دل دکھیں گے۔ان لوگوں کو صدمہ پہنچے گا جو جنگ سے سدا دور رہیں گے۔

”میں رات کو لوٹوں گا۔“ہومر سلام کرکے چلا گیا۔مسز میکالے سوچتی رہی کہ لڑکا کیا کہنا چاہتا تھا۔اچانک یولی سیز سامنے آگیا جو شب خوابی کے لباس میں بہت چھوٹا سا معلوم ہو رہا تھا۔وہ اپنی والدہ کو بڑی پیار بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جیسے ایک جاندار اپنی نوع کے دوسرے جاندار کو دیکھ کر مسرت اور تسکین کا اظہار کرتا ہے۔
”امی‘وہ یہ کیوں کہہ رہا تھا کہ میرے محبوب مت رو۔آج مت رو۔“
”کون؟“
”وہ حبشی جو مال گاڑی میں جا رہا تھا۔“
”وہ تو گیت گا رہا تھا‘اب تم کپڑے بدلو۔“
”وہی حبشی آج بھی ٹرین میں ہو گا؟“
”ہاں!“

Browse More Urdu Literature Articles