Lecture Club Mein - Article No. 2542

Lecture Club Mein

لیکچر کلب میں - تحریر نمبر 2542

لیکچر کلب کے سامنے ہومر نے سائیکل روک لی۔دن کے ڈھائی بجے تھے۔لیکچر شروع ہونے والا تھا۔

جمعہ 21 مئی 2021

شفیق الرحمن
لیکچر کلب کے سامنے ہومر نے سائیکل روک لی۔دن کے ڈھائی بجے تھے۔لیکچر شروع ہونے والا تھا۔ادھیڑ عمر کی فربہ خواتین‘جن میں زیادہ تعداد ماؤں کی تھی‘کلب میں داخل ہو رہی تھیں۔ہومر نے لفافہ نکال کر پڑھا۔روزالی سمز پیباڈی‘لیکچر کلب‘اتھیکا۔
کلب کی صدر جو پچاس کے لگ بھگ بھاری بھر کم خاتون تھیں۔
سٹیج پر کھڑی ہوئی مقرر کا تعارف کرا رہی تھیں۔لیکن مقرر کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ بار بار وہ میز پر مکا مار کر سامعین کو خاموش رہنے کی تلقین کرتیں۔
ہومر کو جھانکتے دیکھ کر ایک خاتون آگئیں۔
”روزالی سمز پیباڈی کے لئے تار لایا ہوں۔ہدایات کے مطابق لفافہ کسی اور کو نہیں دیا جا سکتا۔“
”پیباڈی نہیں پَبِٹی۔

(جاری ہے)

“اس نے تصحیح کی۔

”وہ تار کا انتظار کر رہی ہیں۔جب وہ سٹیج پر آئیں تب دینا۔“
”وہ کب آئیں گی؟“
”آنے والی ہیں تم یہاں بیٹھ جاؤ۔جب آئیں تو زور سے کہنا روزالی سمز پبٹی کا تار آیا ہے کہیں پیباڈی نہ کہہ دینا۔“
”بہت اچھا۔“
ہومر کرسی پر بیٹھ گیا۔
صدر کی تعارفی تقریر جاری تھی۔”سامعین‘ایسے مواقع بار بار نہیں آتے۔
آج ہمارے ہاں روزالی سمز پبٹی تشریف لائی ہیں۔“
صدر کو تالیوں کا انتظار تھا اس لئے خاموش ہو گئی۔جب تالیاں بج چکیں تو بولی۔”زمانہ حاضرہ کی اس سب سے ممتاز خاتون کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ان کا نام اور کارنامے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔شاید آپ جاننا چاہیں کہ انہیں یہ مقبولیت کیونکر حاصل ہے۔یہ بہت طویل داستان ہے جو ہم عورتوں کے لئے بلاکی جاذبیت رکھتی ہے‘اس میں کیا نہیں ہے۔
حسن و رومان‘رنگ آمیزی‘پرخطر اور دہلا دینے والے واقعات۔سبھی کچھ تو ہے پھر بھی سمز پبٹی ایک سادہ طبیعت برطانوی حسینہ ہیں۔اس خاموش سی لڑکی میں فولاد کی سی سختی اور اولوالعزم مردوں کی سی ہمت ہے۔بلکہ وہ بیشتر مردوں سے کہیں حوصلہ مند ہیں۔“
ایک عورت کے کارنامے بیان کرتے ہوئے صدر کے لہجے میں مایوسی اور حزن کی رمق آگئی تھی۔
”اور ہم عورتیں بیچاری کیا ہیں؟کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا۔بچوں کی پرورش پر عمر گزر گئی۔لیکن سمز پبٹی ہمارے خوابوں کی تعبیر ہیں۔ہم گھریلو مظلوم عورتوں کے خواب‘خواب جو ہمیشہ ادھورے رہے۔ہمیں ان کی شاندار زندگی پر رشک آتا ہے۔کاش ہم بھی ایسی زندگی بسر کر سکتیں‘لیکن قسمت کو یہ منظور نہ تھا۔دنیا میں سمز پبٹی صرف ایک دفعہ پیدا ہوتی ہے۔

صدر نے باری باری سب کے چہروں کو دیکھا۔
”فخر نسواں سمز پبٹی کے کارنامے بیان کرنے کے لئے ایک عمر چاہیے۔یہ فہرست بے حد طویل ہے۔جو کارہائے نمایاں انہوں نے سر انجام دیئے ہیں وہ ناقابل یقین ہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ اتنی مصیبتوں اور آفتوں سے کوئی کیونکہ بچ کر جا سکتا ہے۔مگر سمز پبٹی اب تک زندہ ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک ایک دن رومان سے لبریز ہوتا ہے۔
وہ جہاں جاتی ہیں مناسب ماحول اور حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ آپ کی تشریف آوری سے اتھیکا جیسی گمنام جگہ کے بھی تذکرے ہونے لگیں گے۔اب میں آپ کی سوانح عمری مختصراً بیان کروں گی۔ 1915ء سے 1917ء تک آپ محاذ جنگ پر ایمبولینس چلاتی رہیں۔1917ء سے 1918ء تک آپ نے ایک لڑکی کے ساتھ دنیا کی سیر کی۔آپ کو پیدل چلنا پڑا‘جھونپڑوں میں قیام کیا۔
کشتیوں میں‘گھوڑوں پر‘بیل گاڑیوں سے راستہ طے کیا۔دنیا کے ستائیس ملک دیکھے۔جب آپ چین میں کانٹن سے ہانکو جا رہی تھیں تو فوج نے پکڑ لیا۔لیکن برسات آئی تو آپ دریائے سیان میں کود کر فرار ہو گئیں۔ 1919ء میں آپ شمالی افریقہ پہنچیں۔مراکش سے حبش کا سفر طے کیا۔1920ء میں شام میں خفیہ پولیس میں ملازمت کی۔دمشق میں شاہ فیصل سے ملاقات ہوئی۔
جنہوں نے کفرہ کی سیاحت کا انتظار کرایا۔یہ جگہ صحرائے لیبیا کے وسط میں ہے‘اور سنوسی قوم کا پایہ تخت ہے۔آپ نے مصری خاتون کے بھیس میں اونٹ پر ایک ہزار میل کی مسافت طے کی۔آپ کے ہمراہ چند مقامی عورتیں تھیں جنہیں انگریزی کا ایک لفظ تک نہ آتا تھا۔آپ کا یہ سفر تاریخی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے پہلے وہاں مغرب کے کسی سیاح کا قدم نہیں پہنچا تھا۔

ہومر دعائیں مانگ رہا تھا کہ کسی طرح تقریر ختم ہو۔
”23ء میں سمز پبٹی نے بیس ٹن کی کشتی لے کر عرب جہاز رانوں کے ساتھ بحیرئہ اسود کی سیر کی‘اور جیزان کی ممنوعہ بندرگاہ پر اُتریں۔آپ عرب عورتوں کے بھیس میں تھیں۔25ء کوہ پیمائی میں گزرا۔آپ نے کوہ اطلس کی چوٹیاں سَر کیں۔26ء میں ایک ہزار ایک سو میل پیدل چل کر حبش عبور کیا۔
غالباً یہ دنیا کا ریکارڈ ہے۔کوئی ہمیں تو دیکھے‘ذرا پیدل چلنا پڑے تو تھک جاتے ہیں کاش ہم ہر وقت پیدل چلا کریں۔“
اس پر حاضرین میں سے اکثر نے ناک بھوں چڑھائی۔
صدر نے جلدی سے کاغذ کے پرزے کو پڑھا۔”اور 28ء میں آپ لندن کے ایک اخبار کی نامہ نگار خصوصی کی حیثیت سے بلقان میں تھیں اور مقامی عورتوں جیسا لباس پہنتی تھیں۔“
ہومر اکتا چکا تھا۔
واپس تار گھر پہنچنے کی جلدی تھی اور ساتھ یہ جھنجھلاہٹ کہ یہ عورت بار بار بھیس کیوں بدلتی تھی۔
”30ء میں آپ نے ترکی کی سیر کی۔مصطفی کمال سے ملاقات ہوئی۔وہاں آپ ترک خواتین کے بھیس میں تھیں۔اس کے بعد آپ نے نو ہزار میل کا سفر گھوڑے پر طے کرکے مشرق قریب کی سیاحت کی۔آذربائیجان میں آپ نے اشتراکی فوج اور کوہ قاف کے دیہاتیوں کی لڑائی ملاحظہ فرمائی۔
31ء میں آپ جنوبی امریکہ میں برازیل کے گھنے جنگلوں کا کھوج لگانے میں مصروف رہیں۔آپ کے ہمراہی مقامی لوگ تھے۔ان میں کوئی میکس بھی تھا۔سمز پبٹی کے کارنامے گننے لگوں تو صبح ہو جائے۔اور پھر یہ مجمع انہیں دیکھنے آیا ہے نہ کہ مجھے۔“
اس پر سب مسکرانے لگے۔چند قہقہے بھی سنائی دیئے۔
”سامعین ایک یکتائے روزگار ہستی کا تعارف کرانے میں مجھے فخر محسوس ہوتا ہے۔
آیئے روزالی سمز پبٹی سب آپ کے منتظر ہیں۔“
بڑے زور سے تالیاں بجیں۔صدر سٹیج کے اس گوشے کی طرف بڑھی جہاں سے سمز پبٹی کو آنا تھا‘لیکن وہاں کوئی نہ تھا۔
تالیوں کا شور بڑھتا گیا۔حتیٰ کہ حاضرین کی ہتھیلیاں دکھنے لگیں۔آخر وہ عظیم خاتون سٹیج پر آئیں۔
ہومر کو جو چیز نظر آئی وہ عورت سے کوئی مشابہت نہ رکھتی تھی بلکہ اسے عورت کہنا سراسر زیادتی تھی۔
روزالی سمز پبٹی ایک چمرخ قسم کی سوکھی ہوئی طویل قامت چیز تھی۔جس کے خدوخال مردانہ تھے اور چہرہ کسی قسم کے اظہار سے مبرا تھا۔
تار دینے کا وقت آپہنچا تھا‘ہومر اُٹھ کھڑا ہوا۔
”سٹیج پر چلے جاؤ۔“وہ خاتون جس نے ہدایات دی تھیں‘بولی۔
ہومر نے سٹیج پر پہنچ کر زور سے کہا۔”روزالی سمز پبٹی کا تار آیا ہے۔“
”اچھا میرا تار ہے۔
سامعین مجھے معاف فرمایئے۔“اس نے دستخط کیے اور ہومر کی ہتھیلی میں دس سینٹ کا ایک سکہ تھما دیا۔
ہومر کو بہت بُرا لگا۔لیکن لیکچر کلب میں اس نے ایسے ہونق اور مضحکہ خیز نظارے دیکھ لیے تھے کہ تار دیتے ہی بھاگ گیا۔تقریر شروع ہو چکی تھی۔
”39ء میں جنگ شروع ہونے سے ذرا پہلے میں ایک خفیہ مشن کے سلسلے میں بویریہ میں تھی میں نے دیہاتی لڑکی کا بھیس پہن رکھا تھا۔

ہومر نے سڑک کے کنارے ہنری ولکنسن کو بیٹھے دیکھا جو تیس سال پہلے ریل کے حادثے میں دونوں ٹانگیں کھو چکا تھا۔بیچارہ ٹوپی سامنے رکھ کر پنسلیں بیچا کرتا۔ہومر نے نہ کبھی اس کی ٹوپی میں کچھ ڈالا نہ اس سے پنسل خریدی۔سمز پبٹی والا سکہ اسے پریشان کر رہا تھا۔چنانچہ ولکنسن کی ٹوپی میں وہ سکہ ڈال کر سائیکل پر سوار ہو گیا۔تھوڑی دور گیا ہو گا کہ اسے اپنی اس حرکت پر ندامت ہونے لگی۔واپس آیا۔سائیکل ایک طرف پھینکی اور جیب سے آدھے ڈالر کا سکہ اپاہج کی ٹوپی میں ڈال دیا۔

Browse More Urdu Literature Articles