Library - Article No. 2541

Library

لائبریری - تحریر نمبر 2541

چلو کیا ہوا جو اَن پڑھ ہو۔میں پڑھی لکھی ہوں۔گزشتہ ساٹھ سال سے کتابیں پڑھ رہی ہوں۔کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔کتابیں دیکھنا چاہتے ہو‘جاؤ دیکھ لو

بدھ 19 مئی 2021

شفیق الرحمن
لائینل اور یولی سیز لائبریری جا رہے تھے کہ چوک کے گرجے سے جنازہ نکلتا دکھائی دیا۔تابوت کے ساتھ ساتھ نوحہ خواں چل رہے تھے۔
”یولی سیز چلو جنازہ دیکھیں‘کسی کا انتقال ہوا ہے۔“لائینل نے کہا۔
وہ یولی سیز کا ہاتھ پکڑ کر بھاگا۔دونوں تابوت کے قریب پہنچ گئے۔
”یہ تابوت ہے۔اس میں میت ہوتی ہے۔
پتا نہیں کس کی ہے۔یہ پھولوں کے گلدستے ہیں۔جب انتقال ہوتا ہے تو لوگ پھول چڑھاتے ہیں۔یہ سب نوحہ خواں ہیں۔غالباً مرنے والے کے دوست ہوں گے۔“لائینل اپنے دوست کو سمجھا رہا تھا۔
”جی‘کن کا انتقال ہوا ہے؟“لائینل نے ایک شخص سے پوچھا جو رومال سے آنسو پونچھ رہا تھا۔
”بیچارہ جونی میری ویدر چل بسا۔

(جاری ہے)


لائینل نے یولی سیز کے کان میں دہرایا۔

”بے چارہ جونی میری ویدر چل بسا۔“
”مرحوم کی عمر ستر برس تھی۔“اس نے بتایا۔
لائینل نے اپنے دوست کے کان میں کہا۔”مرحوم کی عمر ستر برس تھی۔“
تیس سال سے خوانچہ لگاتا تھا۔مکئی کے بھنے ہوئے دانے بیچتا تھا۔“
لائینل نے دہرایا۔”تیس سال سے خوانچہ لگاتا تھا۔“پھر اچانک چلا کر بولا۔
”وہی تو نہیں جو چوک میں گرم دانے بیچتا تھا؟“
”ہاں وہی۔
آج بیچارہ اپنے خالق سے جا ملا۔“
”اسے تو میں جانتا تھا‘اکثر اس سے دانے خریدتا تھا۔کیسے انتقال ہوا؟“
”بے چارہ سوتے سوتے چل بسا۔اپنے خالق کے پاس چلا گیا۔“
لائینل کی آنکھوں میں آنسو آگئے‘”جونی میرا واقف تھا۔میں پہلے اس کا نام نہیں جانتا تھا۔لیکن وہ میرا دوست تھا۔“
اس نے یولی سیز کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”میرا دوست چل بسا۔اپنے مالک سے جا ملا۔“
جنازہ آگے نکل گیا اور گرجے کے سامنے صرف دو بچے رہ گئے۔
لائینل کو اپنا دوست یاد آرہا تھا جو اسے بھنے ہوئے مزیدار دانے دیا کرتا تھا۔اس کے قدم بوجھل ہو گئے۔وہ دیر تک وہیں کھڑا رہا۔
دونوں لائبریری کی طرف روانہ ہوئے۔جب وہ اس سادہ مگر صاف ستھری عمارت میں داخل ہوئے تو چاروں طرف دہشت انگیز سکوت طاری تھا۔
دیواریں‘فرش‘الماریاں‘میزیں ہر چیز پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔کچھ بوڑھے اخبار پڑھ رہے تھے۔چند مقامی فلاسفر ضخیم کتابیں لئے بیٹھے تھے۔تین چار طلباء ریسرچ میں مشغول تھے۔مگر علم کے یہ سب متلاشی خاموش تھے۔لائینل ماحول سے اتنا متاثر ہوا کہ منہ سے بات نہ نکلتی تھی۔پنجوں کے بل چل رہا تھا۔اس پر مطالعہ کرنے والوں سے زیادہ کتابوں کا رعب پڑا۔
یولی سیز بھی بڑے احتیاط سے قدم اٹھاتا کہ آہٹ نہ ہو۔لائینل کتابوں کو دیکھ رہا تھا اور یولی سیز پڑھنے والوں کے چہرے۔
لائینل اَن پڑھ تھا‘پھر بھی کتابوں کا شوق اسے کھینچ لایا۔وہ سرگوشیوں میں اپنے دوست کو بتا رہا تھا۔”دیکھو تو سہی۔کتنی ساری کتابیں ہیں۔ یہ سرخ کتاب ہے۔یہ سبز اور وہ نیلی۔“
بوڑھی لائبریرین نے دیکھا کہ دو بچے منہ اٹھائے اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں۔
سرگوشی کرنے کی بجائے وہ زور زور سے باتیں کرنے لگی۔ لائبریری کی اس طرح توہین ہوتے دیکھ کر لائینل کو بہت افسوس ہوا۔
”لڑکوں‘کیا چاہیے؟“بوڑھی نے پوچھا۔
”جی کتابیں۔“لائینل نے جواب دیا۔
”کون سی کتاب؟“
”سب کی سب۔“
”یہ کیونکر ہو سکتاہے۔ایک کارڈ پر چار کتابوں سے زیادہ نہیں دی جا سکتیں۔“
”میں کتابیں مانگنے تو نہیں آیا۔

”تو پھر کس لئے آئے ہو؟“
”کتابیں دیکھنے آیا ہوں۔“
کتابیں پڑھنے کے لئے ہوتی ہیں۔دور سے دیکھنے کے لئے نہیں۔“
”دیکھنے کی اجازت نہیں ہے کیا؟“
”ممانعت بھی نہیں ہے۔اور یہ کون ہے؟“
”یہ یولی سیز ہے۔غریب پڑھ نہیں سکتا۔“
”اور تم۔؟“
”میں اَن پڑھ ہوں‘لیکن یہ بھی اَن پڑھ ہے‘اسی لئے ہماری دوستی قائم ہے۔
میرے کئی ساتھی پڑھے لکھے ہیں دوست صرف یہی ہے۔“
بوڑھی نے غور سے دونوں کو دیکھا۔”چلو کیا ہوا جو اَن پڑھ ہو۔میں پڑھی لکھی ہوں۔گزشتہ ساٹھ سال سے کتابیں پڑھ رہی ہوں۔کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔کتابیں دیکھنا چاہتے ہو‘جاؤ دیکھ لو۔“
”جی بہت اچھا۔“
دونوں دوست ایسی دنیا میں پہنچ گئے جو بے حد پُراسرار تھی۔
”یولی سیز‘دیکھ یہ سب کتابیں ہیں۔
پتا نہیں ان میں کیا کچھ لکھا ہے۔کیسے کیسے خزانے ان میں پوشیدہ ہیں۔یہ سبز رنگ کی کتاب کتنی خوش نما ہے۔نئی‘چمکیلی اور حسین۔“
اس نے ڈرتے ڈرتے کتاب اٹھائی اور صفحے پلٹنے لگا۔”دیکھا اس میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے۔یہ الف ہے۔یہ دوسرا الف ہے۔یہ کوئی اور حرف ہے۔یہ بھی ضرور کوئی حرف ہو گا۔سب کے سب مختلف ہیں۔“
لائینل نے لمبا سا سانس لیا۔
”کبھی مجھے بھی پڑھنا آئے گا؟بڑا جی چاہتا ہے کہ یہ حروف‘الفاظ‘فقرے پڑھوں۔یہ تصویر دیکھی۔کتنی حسین لڑکی ہے۔“
وہ ورق گردانی کرتا رہا۔”ساری کتاب میں فقرے ہی فقرے ہیں۔ضرور ان کا کوئی مطلب ہو گا۔خوب ہے یہ جگہ‘جدھر دیکھو کتابوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔لیکن پڑھنا نہ آتا ہو تو علم کا یہ خزانہ نرا گدھے کا بوجھ ہے۔ہم دونوں اَن پڑھ ہیں۔چلو گھر چلیں۔“
اس نے کتاب واپس رکھ دی۔دونوں دوست پنجوں کے بل چلتے ہوئے لائبریری سے نکل آئے۔
یولی سیز خوش تھا کہ آج ایک نئی چیز دیکھ لی۔

Browse More Urdu Literature Articles