Mout Ka Farishta - Article No. 2532

Mout Ka Farishta

موت کا فرشتہ - تحریر نمبر 2532

اس کے حلیے اور چہرے کے اظہار سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ موت کا فرشتہ ہے

منگل 4 مئی 2021

شفیق الرحمن
ہومر سو گیا‘لیکن بے چینی سے بار بار کروٹ بدلتا۔اس نے خواب دیکھا کہ دو سو بیس گز کی دوڑ ہو رہی ہے۔وہ پھلانگتا ہے تو ہر مرتبہ بائی فیلڈ پکڑ لیتا ہے۔آخر ٹانگ کے درد سے مجبور ہو کر وہ گر پڑا۔اس نے بائی فیلڈ کے منہ پر مُکہ رسید کیا اور چلایا۔
”تم مجھے نہیں روک سکتے۔بائی فیلڈ!میں دوڑوں گا‘ضرور دوڑوں گا!“لکڑی کا ایک چوکھٹا تو بہت ہی اونچا تھا۔
کوئی آٹھ فٹ کے قریب۔ لیکن اتھیکا کا شیر اسے بھی پھلانگ گیا۔
خواب کا دوسرا حصہ شروع ہوا۔اس نے دیکھا کہ وہ سائیکل پر تیزی سے جا رہا ہے۔بائی فیلڈ نے راستہ روک رکھا ہے۔
”بائی فیلڈ!کتنی دفعہ کہا ہے کہ تم مجھے نہیں روک سکتے۔“یہ کہہ کر سائیکل سمیت وہ اس کے سر کے اوپر سے گزر گیا۔

(جاری ہے)


لیکن بائی فیلڈ پھر سامنے کھڑا تھا۔سائیکل پھر اُٹھی اور ہوا میں اڑنے لگی۔

بائی فیلڈ پاگلوں کی طرح ہومر کو دیکھ رہا تھا جو سائیکل سمیت بیس فٹ اونچا اُڑ رہا تھا۔
”یہ کیا کر رہے ہو!کشش ثقل کے اصولوں ہی کا کچھ لحاظ کرو۔“
”نہ مجھے کشش ثقل کے اصولوں کی پروا ہے‘نہ اعداد و شمار‘طلب و رسد یا دوسرے اصولوں کی۔مجھے تو یہ پتا ہے کہ تم مجھے نہیں روک سکتے۔نہیں روک سکتے!“
بائی فیلڈ کو زمین پر چھوڑ کر ہومر اڑتا چلا گیا۔
اب وہ کالے کالے بادلوں میں سے گزر رہا تھا۔اس نے دیکھا کہ آسمان میں ایک اور ہرکارہ بھی ہے جو سائیکل پر جا رہا ہے ۔اور جس کی شکل ہومر سے ملتی ہے۔
ہومر نے اس کے تعاقب میں اپنی رفتار تیز کر دی۔پہلے تو وہ دُور دُور رہے‘پھر ہومر قریب آتا گیا۔دوسرے ہرکارے نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ہوبہو ہومر کی شکل تھی۔لیکن اس کے حلیے اور چہرے کے اظہار سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ موت کا فرشتہ ہے۔

وہ دونوں اتھیکا کے قریب پہنچ چکے تھے۔اسے پکڑنے کے لئے ہومر نے سارا زور لگا دیا۔اب قصبے کی روشنیاں اور گلی کوچے دکھائی دے رہے تھے۔اس نے سوچا کہ اگر موت کے فرشتے کو فوراً نہ پکڑا گیا تو آفت آجائے گی۔
آخر ہومر نے اسے آلیا۔اور اس کا رُخ موڑ دیا۔لیکن دوسرا ہرکارہ پھرتی سے مڑا اور قصبے پر اُترنے لگا۔
تھکا ہارا ہومر مایوس ہو کر رونے لگا۔
اس کی سائیکل آہستہ آہستہ گر رہی تھی۔
”واپس آجاؤ۔اتھیکا میں نہ جاؤ۔انہیں کچھ نہ کہو۔لوٹ آؤ۔“
یولی سیز جاگ اٹھا۔بھائی کو روتے دیکھ کر سیدھا والدہ کے پاس گیا اور اسے آہستہ سے جھنجھوڑا۔ماں جاگ اٹھی اور بغیر کچھ پوچھے اس کے ساتھ ہو لی۔پہلے اس نے یولی سیز کو بستر میں لٹایا‘پھر دھیمی آواز میں کہنے لگی۔”ہومر بیٹے سو جاؤ۔
تم تھکے ہوئے ہو۔سو جاؤ بیٹے۔سو جاؤ۔“
ہومر کی سسکیاں بند ہو گئیں اور وہ خاموش ہو گیا۔ذرا سی دیر میں دونوں بھائی سو گئے!
اب نہایت رنگین خواب شروع ہوا۔ہومر نے دیکھا کہ وہ ندی کے کنارے انجیر کے درخت کے نیچے لیتا ہے۔اسے یہ جگہ جانی پہچانی معلوم ہوئی۔”یہ تو وہی گوشہ ہے جہاں پچھلی گرمیوں میں مارکس اور میں آیا کرتے تھے۔ہم ندی میں تیرتے اور گھاس پر بیٹھ کر دنیا بھر کی باتیں کیا کرتے۔
“اس نے مسکرا کر انگڑائی لی اور بھول گیا کہ خواب دیکھ رہا ہوں۔
سب کچھ اسی طرح تھا۔کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔وہی بہتا ہوا شفاف پانی‘وہی جھومتی ہوئی ٹہنیاں اور موسم بہار کی خوشبوئیں۔اس نے دیکھا کہ ایک حسین لڑکی چلی آرہی ہے۔سادہ لباس پہنے‘ننگے پاؤں۔یہ تو ہیلن ہے!میری محبوبہ!وہ چھلانگ مار کر اٹھا اور استقبال کے لئے آگے بڑھا۔دونوں خاموش تھے۔ہومر نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور وہ درختوں کے جھنڈ کی طرف چلے گئے۔سیر کے بعد دونوں نے ندی میں چھلانگ لگا دی۔دیر تک تیرتے رہے۔جب تھک گئے تو دھوپ میں چمکتی ہوئی ریت پر لیٹ کر سو گئے۔

Browse More Urdu Literature Articles