Mr Mecano Aakhri Qist - Article No. 2546

Mr Mecano Aakhri Qist

مسٹر میکانو(آخری قسط) - تحریر نمبر 2546

یولی سیز ضبط کرنے کی کوشش کرتا لیکن اس کی سسکیاں نہ تھمتی تھیں

بدھ 26 مئی 2021

شفیق الرحمن
یولی سیز ضبط کرنے کی کوشش کرتا لیکن اس کی سسکیاں نہ تھمتی تھیں۔
”اچھا چلو‘ہومر کے پاس چلتے ہیں۔“
”ہومر کے پاس چلتے ہیں۔“
”ہومر کے پاس؟“بھائی کا نام سن کر وہ مسکرانے لگا۔
”ہاں تار گھر قریب ہی ہے چلو۔“
دونوں تار گھر پہنچے۔ہومر کام میں مصروف تھا۔اسے دیکھ کر یولی سیز کی آنکھیں چمکنے لگیں جیسے گھر پہنچ گیا ہو۔

ہومر نے اسے گود میں اٹھایا۔”کیا ہوا؟اتنی رات گئے ننھا یہاں کیا کر رہا ہے؟“
”یہ کھو گیا تھا اور رو رہا تھا۔ابھی ابھی چپ ہوا ہے۔“آگی نے بتایا۔
بچے نے سسکی لی‘ہومر اسے پیار کرنے لگا”ننھے رؤو مت۔ابھی گھر چلتے ہیں۔“
سپنگلر اور گروگن کام چھوڑ کر لڑکوں کو دیکھنے لگے۔

(جاری ہے)


”آگی‘اچھا کیا جو اسے لے آئے‘ورنہ بڑی دقت ہوتی۔


”ہلو‘آگی!ایک اخبار تو دو۔“
آگی نے بڑی صفائی سے اخبار تہہ کرکے سپنگلر کو دیا۔اس نے جلدی سے سرخیاں دیکھ کر ردی میں پھینک دیا۔
”کاروبار کا کیا حال ہے؟“سپنگلر نے پوچھا۔
”خاصا ہے ہفتے کے دن عموماً پچھتر سینٹ کما لیتا ہوں۔لیکن آج نہ جانے لوگ کہاں چھپ گئے ہیں۔امید تو ہے کہ گھنٹے دو گھنٹے میں سارے اخبار بک جائیں گے۔
کھانے کے بعد لوگ سینما دیکھنے نکلتے ہیں۔“
”سینما دیکھنے والوں کی ایسی تیسی۔یہ قیمت لو اور اخباروں کا پلندہ یہاں رکھ دو۔“سپنگلر نے کہا۔
آگی خوش تو ہوا لیکن سوچنے لگا کہ اخبار اس طرح تو نہیں بکتے۔فی خریدار فقط ایک اخبار ہوا کرتا ہے اور اس کے لئے بھی کافی چیخنا چنگھاڑنا پڑتا ہے۔وہ تھکا ہوا تھا‘بھوکا تھا اور جانتا تھا کہ سپنگلر نہایت رحم دل انسان ہے۔
بازاروں اور سڑکوں پر کافی ہونق لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا۔سپنگلر جیسے بھلے مانس سے نفع کمانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔
”جی میں آپ سے نفع نہیں لوں گا۔“
”کوئی بات نہیں۔اخبار دے دو اور گھر چلے جاؤ۔“
”بہت اچھا جناب کبھی کوئی کام ہو تو مجھے ضرور بلا لیجیے۔“
”اچھا“سپنگلر نے اخبار ردی میں ڈال دیئے۔
”جی!یولی سیز کھو گیا تھا“آگی بولا۔

”خیر‘مل تو گیا نا ننھے میاں کیسے ہو؟“سپنگلر یولی سیز سے مخاطب ہوا۔یولی سیز سوچنے لگا کہ کیا جواب دے۔
”کہہ دو۔اچھا ہوں“ہومر نے لقمہ دینے کی کوشش کی۔
سب خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ایک سپنگلر تھا جو مسرور تھا۔باقی سب سہمے ہوئے سے تھے۔گروگن اٹھا‘بوتل نکال کر پانچ چھ گھونٹ لیے اور واپس آبیٹھا۔
آگی جانے لگا تو ہومر نے روک لیا۔”ابھی مت جاؤ‘میں تمہیں چھوڑ آؤں گا۔مسٹر سپنگلر مجھے راستے میں کام ہے۔ان دونوں کو اتار کر کام پر چلا جاؤں گا۔“
”ضرور“سپنگلر نے اپنی میز سے ابلا ہوا انڈا اٹھا لیا‘جسے وہ خوش نصیبی کی علامت سمجھتا تھا‘یا کم از کم جو بدنصیبی کو دور رکھتا تھا۔
”دونوں کو سائیکل پر کیسے بیٹھاؤ گے‘میرے خیال میں مجھے پیدل جانا چاہیے۔
“آگی بولا۔
”دیر ہو چکی ہے اور تمہارا گھر تین میل ہے۔تم پیچھے بیٹھ جانا‘یولی سیز آگے بیٹھ جائے گا۔آسانی سے پہنچ جائیں گے آؤ چلیں۔“
آگے کچی سڑک تھی۔ہومر کی ٹانگ میں درد تھا۔لیکن وہ دونوں سواریوں کو کھینچ رہا تھا۔ایراکی دکان کے ساتھ ہی آگی کا گھر تھا۔ہومر نے اسے اتار دیا۔دکان کے دروازے میں ایرا اپنے لڑکے کا ہاتھ پکڑے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
سامنے میدان تھا اور دوسری طرف اخروٹ کے درخت کے نیچے مسز میکالے رسی پر سے خشک کپڑے اتار رہی تھی۔گھر میں سے بیس اور میری کے گانے کی مدہم آواز آرہی تھی۔
ہومر آسمان کی طرف دیکھنے لگا جسے ایرا اور اس کا بیٹا غور سے تک رہے تھے۔آگی گھر سے نکلا اور ایرا سے باتیں کرنے لگا۔
”مسٹر ایرا کاروبار کیسا چل رہا ہے؟“
”خدا کا شکر ہے۔

”آج میرے پاس پچھتر سینٹ ہیں‘بہت سی چیزیں لوں گا۔“
”اندر آجاؤ۔“
دکان میں جانے سے پہلے ایرا نے بیٹے کو آسمان میں تیرتے ہوئے بادل دکھائے۔
”وہ دیکھو جان‘اندھیرا بڑھتا جا رہا ہے۔اب سونے کا وقت قریب ہے۔رات بھر سو کر جب اٹھیں گے تو نیا دن طلوع ہو چکا ہو گا۔سمجھے؟“
آگی اور باپ بیٹا دکان میں چلے گئے۔
ہومر نے گھر کا رخ کیا۔
”وہ رہیں امی“یولی سیز بولا۔
”ہاں اخروٹ کے درخت کے نیچے کھڑی ہیں۔“
گھر پہنچ کر یولی سیز کا چہرہ دمک اٹھا۔ہومر نے سائیکل روکی اور بھائی کو اتار دیا۔
”امی یولی سیز کھو گیا تھا۔آگی کو مل گیا وہ اسے تار گھر لے گیا۔میں جلدی سے آپا اور میری سے مل آؤں پھر کام پر جانا ہے۔“
لڑکیاں گا رہی تھیں۔
ہومر اندھیرے میں کھڑا سنتا رہا۔گیت ختم ہوا تو اندر چلا گیا۔
”ہومر آج مارکس کا خط آیا ہے۔“میری نے فرط مسرت سے مغلوب ہو کر کہا۔
”اچھا!کیسے ہیں بھائی جان؟“
”خیریت سے ہیں۔ان کا تبادلہ ہو رہا ہے۔لیکن یہ پتا نہیں کہاں لکھا ہے کہ اگر کچھ دن خط نہ آئے تو فکر نہ کرنا۔“
”سب کے نام خط آئے ہیں۔امی کے نام‘میرے نام‘یہاں تک کہ یولی سیز کو بھی خط لکھا ہے“بیس بولی۔

ہومر سوچنے لگا کہ شاید مجھے بھی لکھا ہو۔لیکن اگر خط نہ ہوا تو بڑی مایوسی اور شرمندگی ہو گی۔آیا ہوتا تو لڑکیاں ضرور بتا دیتیں۔
آخر اس نے پوچھ ہی لیا۔”میرے نام بھی ہے؟“
”ہاں‘تمہارے نام بھی ہے۔بلکہ تمہارا لفافہ تو سب سے وزنی ہے۔یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔بھائی خط لکھتے ہیں تو ہم سب کو بھیجتے ہیں۔“
بیس گئی اور لفافہ اٹھا لائی۔

”اسے کھول کر ہمیں بھی سناؤ“بہن بولی۔
”نہیں آپا مجھے دفتر پہنچنا ہے۔فرصت میں پڑھوں گا۔“
”آج دن بھر ہم دونوں ملازمت کی تلاش میں مارے مارے پھرے‘لیکن کچھ نہ بنا“بیس نے کہا۔
”دن کچھ اتنا بُرا بھی نہیں گزرا‘طرح طرح کے تماشے دیکھے۔“میری بولی۔
”نوکری نہ ملنے پر مجھے تو خوشی ہوئی ہے۔بھلا آپ ملازمت کیوں کریں؟میں کما کر لاؤں گا۔
ادھر میری کے ابا اچھی جگہ لگے ہوئے ہیں۔پھر کبھی کوشش مت کیجیے۔“
”ہومر تم نہیں جانتے۔ہمیں کام کرنا پڑے گا۔امید تو ہے کہ جلد ہی کوئی جگہ مل جائے گی۔ہمیں دوبارہ آنے کو کہا گیا ہے۔“
”نہیں آپا‘میں اس کے خلاف ہوں۔مرد موجود ہوں تو لڑکیاں محنت مشقت کیوں کریں۔لڑکیوں کو چاہیے کہ گھر میں رہیں اور اس کی دیکھ بھال کریں۔
ہر وقت مسکراتی رہیں‘تاکہ مرد تھکے ہارے لوٹیں تو دمکتے ہوئے حسین چہرے دیکھ کر ساری تھکان دور ہو جائے۔آپ کے فرائض بس اتنے ہی ہیں۔بھائی مارکس واپس آکر میری کو ملازمت تھوڑا ہی کرنے دیں گے۔چھوٹا سا گھر بنا کر دونوں علیحدہ رہا کریں گے۔اور آپا آپ کی بھی شادی ہو جائے گی۔آپ اسی کو ملازمت سمجھ لیجیے‘اور اس کا انتظار کیجیے۔مانا کہ جنگ ہورہی ہے اور سب کام رُکے پڑے ہیں۔
لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ دنیا سے امید اُٹھ گئی ہے۔آپ دونوں بس گھر میں رہا کریں۔میری اپنے ابا کا ہاتھ بٹائے اور آپا امی کا۔“
ہومر کو بڑوں کی طرح حکم چلاتے دیکھ کر بیس کو فخر محسوس ہونے لگا۔چھوٹا بھائی بچہ نہیں رہا اسے اب کُنبے کا فکر رہتا ہے۔
”اچھا اب ایک گیت سنایئے۔“
”کون سا گیت سنو گے؟“
”کوئی سا سنا دو۔

بیس پیانو بجانے لگی‘میری نے گانا شروع کیا۔گیت ابھی ادھورا ہی تھا کہ ہومر چپکے سے باہر نکل آیا۔یولی سیز ایک انڈا تھامے ڈربے کے پاس کھڑا تھا۔
”امی کل ہم سب گرجے میں جائیں گے۔میری کو بھی لے چلیں گے۔“ہومر نے کہا۔
”ہم تو ہر اتوار کو جاتے ہیں‘میری بھی ساتھ ہوتی ہے۔“
”لیکن کل ضرور چلیں گے‘میری بھی چلے گی۔“
ماں مسکرانے لگی۔
”ننھے تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟“
”انڈا“بچے نے اس طرح کہا جیسے کسی مقدس چیز کا نام لے رہا ہو۔ہومر سائیکل پر سوار ہوا اور کام پر چلا گیا۔

Browse More Urdu Literature Articles