Yoli Seizes - Article No. 2521
یولی سیز - تحریر نمبر 2521
یہ شخص‘جو بالکل سیاہ تھا اور دوسروں سے مختلف تھا
ہفتہ 24 اپریل 2021
شفیق الرحمن
کیلیفورنیا کے قصبے اتھیکا میں‘ایک چھوٹا سا لڑکا‘جس کا نام یولی سیز میکالے تھا‘اپنے مکان کے پچھواڑے گلہریوں کے بل کے پاس کھڑا تھا۔گلہری نرم نرم مٹی نکال کر باہر پھینک رہی تھی اور کبھی کبھی جھانک کر لڑکے کی طرف دیکھتی جو اجنبی تو تھا لیکن دشمن نہیں معلوم ہوتا تھا۔اتنے میں ایک پرندہ کہیں سے آگیا اور اخروٹ کے پرانے درخت پر آبیٹھا۔پرندے نے نغمہ سرائی شروع کی تو لڑکا سب کچھ بھول گیا اور اوپر دیکھنے لگا۔
یکایک ریل گاڑی کے آنے کا شور سنائی دیا‘ساتھ ساتھ زمین بھی کانپ رہی تھی‘لڑکا ریل کی پٹڑی کی طرف سر پٹ بھاگا۔اس نے گزرتے ہوئے انجن کے ڈرائیور کو سلام کیا۔لیکن ڈرائیور نے کوئی جواب نہ دیا۔مال گاڑی کے ڈبوں میں جو پانچ چھ آدمی نظر آئے‘اُس نے سب کو باری باری سلام کیا۔
اگرچہ انہوں نے لڑکے کو دیکھ لیا تھا لیکن کسی نے کوئی توجہ نہ کی۔
آخر ایک کھلے ہوئے ڈبے میں ایک حبشی دکھائی دیا‘جو گا رہا تھا۔کھڑکھڑاہٹ اور شور کے باوجود اس کا گانا سنائی دے رہا تھا۔
”مری محبوب مت آنسو بہا تو
وطن اپنا پرانا کینٹکی ہے‘
کچھ اس پیارے وطن کے گیت گا تو“
یولی سیز نے اسے سلام کیا اور ایک نہایت عجیب اور غیر متوقع بات ہوئی۔یہ شخص‘جو بالکل سیاہ تھا اور دوسروں سے مختلف تھا‘سلام کا جواب دیتے ہوئے چلایا۔
”لڑکے!میں اپنے گھر جا رہا ہوں‘اپنے وطن جہاں کا میں ہوں۔“
لڑکا اور حبشی ایک دوسرے کی طرف ہاتھ ہلاتے رہے۔حتیٰ کہ مال گاڑی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
لڑکے نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا۔چاروں طرف بڑی تنہائی‘بڑی مضحکہ خیز دنیا تھی۔عجیب کاٹھ کباڑ سے بھری ہوئی ‘حیرت انگیز‘بے معنی‘حسین دنیا۔
وہ چل پڑا۔راستے میں ایک بوڑھا ملا جس نے کمر پر کچھ اٹھا رکھا تھا۔لڑکے نے اسے بھی سلام کیا۔وہ عمر رسیدہ اور تھکا ہوا تھا۔اسے ایک بچے کا اظہار دوستی قابل توجہ نہ معلوم ہوا۔اس نے ایسی نظروں سے یولی سیز کو دیکھا جیسے وہ دونوں کب کے مر چکے ہوں۔
لڑکا آہستہ آہستہ گھر کی طرف جا رہا تھا۔اس کے کانوں میں ٹرین کا شور گونج رہا تھا اور حبشی کا گانا۔اور اس کا فقرہ۔”لڑکے میں گھر جا رہا ہوں‘اپنے وطن جہاں کا میں ہوں۔“
وہ ایک درخت کے نیچے رُک گیا۔زرد رنگ کا بڑا سا پھل زمین پر پڑا تھا۔اسے ٹھوکر لگائی اور مسکرانے لگا۔یہ مسکراہٹ میکالے کنبے کی مخصوص مسکراہٹ تھی‘حلیم‘بردبار‘مخفی مسکراہٹ۔جو بیشتر باتوں کے لئے ہاں کے معنی رکھتی تھی۔
موڑ سے ذرا آگے ان کا گھر تھا۔گھر نظر آیا تو یولی سیز مسرت سے اُچھلنے لگا۔
ایک دفعہ جو اُچھلا ہے تو دھڑام سے گرا۔مگر جلدی سے اُٹھ کر کپڑے جھاڑنے لگا۔
اس کی ماں احاطے میں مرغیوں کو دانہ ڈال رہی تھی۔اُس نے لڑکے کی اُچھل کود دیکھ لی تھی۔یولی سیز چپکے سے ماں کے پاس آکھڑا ہوا۔پھر مرغیوں کے ڈربے میں انڈے تلاش کرنے گیا۔اسے ایک انڈا مل گیا جو اُس نے بڑی حفاظت سے اُٹھا کر ماں کے حوالے کیا‘ایسے انداز سے جس کا سمجھنا بڑوں کے لئے مشکل ہے اور بچے جسے بھول جاتے ہیں۔
کیلیفورنیا کے قصبے اتھیکا میں‘ایک چھوٹا سا لڑکا‘جس کا نام یولی سیز میکالے تھا‘اپنے مکان کے پچھواڑے گلہریوں کے بل کے پاس کھڑا تھا۔گلہری نرم نرم مٹی نکال کر باہر پھینک رہی تھی اور کبھی کبھی جھانک کر لڑکے کی طرف دیکھتی جو اجنبی تو تھا لیکن دشمن نہیں معلوم ہوتا تھا۔اتنے میں ایک پرندہ کہیں سے آگیا اور اخروٹ کے پرانے درخت پر آبیٹھا۔پرندے نے نغمہ سرائی شروع کی تو لڑکا سب کچھ بھول گیا اور اوپر دیکھنے لگا۔
یکایک ریل گاڑی کے آنے کا شور سنائی دیا‘ساتھ ساتھ زمین بھی کانپ رہی تھی‘لڑکا ریل کی پٹڑی کی طرف سر پٹ بھاگا۔اس نے گزرتے ہوئے انجن کے ڈرائیور کو سلام کیا۔لیکن ڈرائیور نے کوئی جواب نہ دیا۔مال گاڑی کے ڈبوں میں جو پانچ چھ آدمی نظر آئے‘اُس نے سب کو باری باری سلام کیا۔
(جاری ہے)
آخر ایک کھلے ہوئے ڈبے میں ایک حبشی دکھائی دیا‘جو گا رہا تھا۔کھڑکھڑاہٹ اور شور کے باوجود اس کا گانا سنائی دے رہا تھا۔
”مری محبوب مت آنسو بہا تو
وطن اپنا پرانا کینٹکی ہے‘
کچھ اس پیارے وطن کے گیت گا تو“
یولی سیز نے اسے سلام کیا اور ایک نہایت عجیب اور غیر متوقع بات ہوئی۔یہ شخص‘جو بالکل سیاہ تھا اور دوسروں سے مختلف تھا‘سلام کا جواب دیتے ہوئے چلایا۔
”لڑکے!میں اپنے گھر جا رہا ہوں‘اپنے وطن جہاں کا میں ہوں۔“
لڑکا اور حبشی ایک دوسرے کی طرف ہاتھ ہلاتے رہے۔حتیٰ کہ مال گاڑی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
لڑکے نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا۔چاروں طرف بڑی تنہائی‘بڑی مضحکہ خیز دنیا تھی۔عجیب کاٹھ کباڑ سے بھری ہوئی ‘حیرت انگیز‘بے معنی‘حسین دنیا۔
وہ چل پڑا۔راستے میں ایک بوڑھا ملا جس نے کمر پر کچھ اٹھا رکھا تھا۔لڑکے نے اسے بھی سلام کیا۔وہ عمر رسیدہ اور تھکا ہوا تھا۔اسے ایک بچے کا اظہار دوستی قابل توجہ نہ معلوم ہوا۔اس نے ایسی نظروں سے یولی سیز کو دیکھا جیسے وہ دونوں کب کے مر چکے ہوں۔
لڑکا آہستہ آہستہ گھر کی طرف جا رہا تھا۔اس کے کانوں میں ٹرین کا شور گونج رہا تھا اور حبشی کا گانا۔اور اس کا فقرہ۔”لڑکے میں گھر جا رہا ہوں‘اپنے وطن جہاں کا میں ہوں۔“
وہ ایک درخت کے نیچے رُک گیا۔زرد رنگ کا بڑا سا پھل زمین پر پڑا تھا۔اسے ٹھوکر لگائی اور مسکرانے لگا۔یہ مسکراہٹ میکالے کنبے کی مخصوص مسکراہٹ تھی‘حلیم‘بردبار‘مخفی مسکراہٹ۔جو بیشتر باتوں کے لئے ہاں کے معنی رکھتی تھی۔
موڑ سے ذرا آگے ان کا گھر تھا۔گھر نظر آیا تو یولی سیز مسرت سے اُچھلنے لگا۔
ایک دفعہ جو اُچھلا ہے تو دھڑام سے گرا۔مگر جلدی سے اُٹھ کر کپڑے جھاڑنے لگا۔
اس کی ماں احاطے میں مرغیوں کو دانہ ڈال رہی تھی۔اُس نے لڑکے کی اُچھل کود دیکھ لی تھی۔یولی سیز چپکے سے ماں کے پاس آکھڑا ہوا۔پھر مرغیوں کے ڈربے میں انڈے تلاش کرنے گیا۔اسے ایک انڈا مل گیا جو اُس نے بڑی حفاظت سے اُٹھا کر ماں کے حوالے کیا‘ایسے انداز سے جس کا سمجھنا بڑوں کے لئے مشکل ہے اور بچے جسے بھول جاتے ہیں۔
Browse More Urdu Literature Articles
اجل آئی - آخری حصہ
Ajal Aai - Aakhri Hissa
اجل آئی - پانچواں حصہ
Ajal Aai - Panchwan Hissa
اجل آئی - چوتھا حصہ
Ajal Aai - Chautha Hissa
اجل آئی - تیسرا حصہ
Ajal Aai - Teesra Hissa
اجل آئی - دوسرا حصہ
Ajal Aai - Dosra Hissa
اجل آئی - پہلا حصہ
Ajal Aai - Pehla Hissa
اختتام اور ابتدا
Ikhtitam Aur Ibtida
محبت لافانی ہے(آخری قسط)
Mohabbat Lafani Hai - Akhri Qist
محبت لافانی ہے
Mohabbat Lafani Hai
میرے عزیز گھر
Mere Aziz Ghar
درخت اور انگور کی بیلیں
Darakhat Aur Angoor Ki BeelaiN
شیر کی ہنسی
Sher Ki Hansi
Urdu AdabAdab Nobal PraizPakistan K Soufi ShaairOverseas PakistaniMushairyInternational Adab
Arabic AdabGreek AdabBangal AdabRussian AdabFrench AdabGerman AdabEnglish AdabTurkish AdabJapanes AdabAfrican AdabEgyptian AdabPersian AdabAmerican Adab
National Adab
ApbeetiAfsanaMazmoonInterviewsAdab NewsBooks CommentsNovelLiterary MagazinesComics WritersAik Kitab Aik Mazmoon100 Azeem AadmiHakayaatSafarnamaKahawatainAlif Laila Wa LailaTaqseem E Hind