اقتدار پر قبضے کا کھیل

اتوار 16 اگست 2015

A Waheed Murad

اے وحید مراد

جی ہاں،آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ظہیرالاسلام اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ بات حکومتی وزیر مشاہداللہ خان نے اب کہی ہے مگر حکومت، اپوزیشن، فوجی حکام، خفیہ اداروں اور بہت سے صحافیوں کو اس وقت معلوم تھی جب عمران خان اور طاہرالقادری کا دھرنا عروج پر تھا۔ جس وقت سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ کے خلاف شہر میں ’فرزندان اسلام‘ کی جانب سے بینرز آویزاں کیے جارہے تھے اور وفاقی حکومت اور اس کے ادارے بے بس نظر آرہے تھے، لوگوں کو معلوم ہوگیاتھا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔

سارے گندے انڈے ایک ٹوکری میں اکھٹے کیے جاچکے تھے، پرویز مشرف کے حامی جرنیل اور میڈیا کے غلیظ چہرے بھی، جن کو آپ بہت مانے ہوئے اینکر سمجھتے ہیں مگر وہ دراصل ایسی ہی قوتوں کے پالشیے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)


جب چند ہزار مظاہرین کے خلاف پولیس نے کسی بھی قسم کی کارروائی سے انکار کردیا تھا، مظاہرین نے کنٹینرز الٹ دیے، ہر رکاوٹ عبور کرکے شاہراہ دستور پر ڈی چوک میں ڈیرے ڈال دیے، پارلیمنٹ ہاؤس کی چاردیواری توڑ کر لان میں خیمے گاڑے، پاکستان ٹیلی ویژن میں گھس گئے، وزیراعظم کے گھر کے دروازے پر لاٹھیاں لے کر جاپہنچے۔

اس وقت جس کے سر میں دماغ نام کی چیز تھی وہ سمجھ گیاتھاکہ پیچھے ’وہی لوگ‘ ہیں۔ ریٹائرڈ جرنیل شجاع پاشا جو امریکی قاتل جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں پیش پیش تھے اس احتجاج کے پیچھے موجود لوگوں میں سے ایک تھے مگرریٹائرمنٹ کے بعد اس وقت ان کی ادارے میں کوئی حیثیت نہیں تھی اس لیے ان کی باقیات نے یہ کام اپنے ہاتھ میں لیا۔ دوسری جانب شجاع پاشا کے بعد آئی ایس آئی کے سربراہ بننے والے جنرل ریٹائرڈ ظہیرالاسلام کا غصہ شاید حامد میر پر حملے کے بعد جیو ٹی وی کی خبر سے مزید بڑھا اور پھر اپنی سبکدوشی تک ختم نہ ہوا۔

اور اسی دوران دھرنے کیلئے اسٹیج لگایا گیا۔
جرنیلوں کی ملکی سیاست میں مداخلت پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں۔ آمریت کی ایک طویل تاریخ کو ایک طرف رکھ کر صرف گزشتہ چندبرس کے حالات وواقعات پر ہی نظر ڈال دی جائے تو منظر صاف ہوجائے گا۔ پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ درج ہوا تو بہت سے لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کردیا کہ بس اب اس ملک میں آئین کی حکمرانی ہوگی اور قانون کی بالادستی کے سوا کسی کا کوئی سودا نہیں بکنے والا۔

مگر چند ماہ کے دوران مقدمہ چلانے والے پراسیکیوٹر سے لے کر ججوں تک کا کردار کھل کر سامنے آگیا۔ حکومت میں شامل کچھ وزراء جو زیادہ جوش و خروش کا مظاہرہ کررہے تھے ان کے ساتھ میڈیا کے پالشیوں کے ذریعے وہ سلوک کیا گیا کہ سوشل میڈیا کے نابالغ جہادیوں نے ان کی نسلوں تک کو غدار قراردیا۔
آخر مسئلہ ہے کیا؟۔ بات بہت سادہ اور آسان سی ہے، فوجی جرنیل اپنے ادارے سے وابستہ رہنے والے کسی چھوٹے افسر کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی احتساب کیلئے پیش کرنے کو تیار نہیں۔

جنرل ظہیر الاسلام کے اقتدار پر قبضے کے منصوبے کا سب کو پتہ تھا، مسلم لیگ ن کے وزیر مشاہداللہ خان نے جو کچھ کہاہے وہی باتیں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سابق بریگیڈئر سمسن سائمن شیرف پندرہ دن قبل صحافی مطیع اللہ جان کو انٹرویو میں کہہ چکے ہیں، مگر فوجی ترجمان جنرل عاصم باجوہ نے کوئی تردید نہیں کی۔ اب مشاہداللہ خان کی بات کی فوری تردید آگئی اور فوج نے اس پر ردعمل بھی ظاہر کردیا۔

اس سے کیا سمجھا جائے؟۔ کیا مشاہداللہ نے یہ بات بی بی سی سے کی اس لیے وضاحت یا تردید آئی؟۔ شاید ایسا نہیں ہے۔
فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اس معاملے پر کوئی بات نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے ذیلی ادارے کی ساکھ اور ایک سابق جرنیل کی ذات سامنے آتی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف خاموش رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں کیونکہ ان کو بحران در بحران سے نجات چاہیے۔

ویسے بھی سولہ دسمبر دوہزار چودہ کے بعد وزیراعظم کے پاس اختیارات کتنے ہیں اور حکومت کون چلا رہاہے پوری قوم دیکھ رہی ہے۔ حقیقت کوئی ڈھکی چھپی نہیں، پاکستان میں بہترین ادوار میں بھی کتنی جمہویت رہی۔ گزشتہ برس اگست میں جب ایک سیاسی جماعت کے رہنما عمران خان فوج کے سربراہ سے ملاقات کررہے تھے تو فوج کے ترجمان اس بارے میں سوشل میڈیا پر عوام اور میڈیا کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کررہے تھے۔


گندے انڈے ہر شعبہ زندگی میں ہوتے ہیں۔ ایسے افراد تقریبا تمام سرکاری اداروں میں بیٹھے عیاشی کرتے اور تماشا دیکھتے ہیں۔سرکاری اداروں، حکومتی حکام اورمیڈیا میں موجود ایسے گندے انڈوں کے خلاف باتیں بھی ہوتی ہیں اور ان کا احتساب بھی کہیں نہ کہیں ہو جاتاہے مگر طاقتور ادارے خود کو اس سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ اور ہمیشہ اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ عوام میں ان کا تاثر ایسا دیومالائی ہو کہ ان کی طرف کوئی انگلی اٹھانے کا خیال بھی دماغ میں نہ لاسکے۔

ہمارے ذرائع ابلاغ ایسا تاثر قائم کرنے اور اس کو برقرار رکھنے میں ایسی قوتوں کے بھرپور اور بڑھ چڑھ کر مدد کرتے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینل کے مالکان چونکہ کاروباری لوگ ہیں اس لیے وہ کسی قانونی یا اخلاقی اصول کی جانب نہیں دیکھتے۔ وہ صرف طاقت کو سلام کرکے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور اپنے کاروباری مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔
رویوں اور اعمال سے سنجیدگی کا معلوم ہوتاہے، تقریرں اور دعوے مگر کچھ نہیں ہوتے۔

سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورویعنی نیب سے پوچھاکہ نیشنل لاجسٹک سیل میں ہونے والے چار ارب روپے کے کرپشن اسکینڈل میں ملوث جرنیلوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ تو نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایاکہ فوجی حکام ریکارڈ فراہم نہیں کررہے۔ اور پھر ایک ہفتے کے دوران ہی فوج کے ترجمان نے سوشل میڈیا کے ذریعے عوام اور ذرائع ابلاغ کو آگاہ کیا کہ اس اسکینڈل میں ملوث دو جرنیلوں کے خلاف کارروائی کردی گئی ہے اور جنرل راحیل شریف نے پہلے سے ریٹائرڈ ایک جرنیل کو بحال کرکے برطرف کردیا جبکہ ایک اور جرنیل کو ’سخت سرزنش‘ کی سزاسنائی گئی ہے۔

چار ارب روپے کہاں گئے او ر کون واپس کرے گا اس کا مگر کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔ حالانکہ اس طرح کے کیس میں کسی بھی عام شہری کو قانون کے مطابق چودہ برس کی سزا ہوسکتی ہے۔
جہاں اعلی عہدوں پر فائز رہنے والے افراد کا احتساب ممکن ہی نہ ہو، وہاں ادارے نہیں ہوتے بلکہ جوابدہی سے بالاتر ایسے عہدیدار خود کو ادارہ بنالیتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب کسی جرنیل یا اس کے کسی کام یا فیصلے پر تنقید ہوتی ہے تو لوگ اسے فوج کے خلاف پروپیگنڈا قراردینے میں دیر نہیں لگاتے۔

ایسے دوستوں سے درخواست ہے کہ محمد علی جناح کی چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو کی گئی تقریر پڑھ لیں۔ ’ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ فوج قوم کی خدمت گزار ہے،اور آپ لوگ (فوج) قومی پالیسی تشکیل نہیں دیتے، یہ ہم سویلین ہیں جو ان معاملات پر فیصلے کرتے ہیں اور آپ کاکام ان پر عمل کرنا ہوتا ہے‘۔ یہ الفاظ پاکستان کے بانی کے ہیں۔ یقینا یہ پڑھنے کے بعد بھی آپ جنرل راحیل شریف کے شاہد آفریدی کو چوکا لگانے کی ویڈیو بار بار دیکھ کر خوش ہونگے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :