جنگ اور امن

اتوار 6 ستمبر 2015

A Waheed Murad

اے وحید مراد

شام کے پناہ گزین بچے ایلان کردی کی موت المیہ ہے، ایلان کردی جوامن کی معصوم فاختہ جیسا تھا اور جسے اس کے والدین شام میں جنگ کی بندوقوں سے بچا کر نکلے تھے ایک بہتر اور محفوظ مستقبل کی تلاش میں۔دو برس ترکی میں مہا جر بن کر رہنے سے جب تنگ آگئے تو ایلان کے والدین نے یونان جانے کیلئے سمندر کے راستے کا انتخاب کیا۔ اور پھر یہ خاندان ترکی کے ساحل پر انسانی اسمگلروں کی غیر محفوظ ربڑ کی کشتی سے الجھتی تند وتیز لہروں کا شکار ہوگیا۔

ساحل کی ریت پر ایلان کی بے جان زندگی کی تصویر دنیا میں جس آنکھ تک پہنچی وہ نم ہوگئی۔ تین برس کے ایلان کا بڑا بھائی پانچ سال کا غالب اور ان کی پیاری ماں ریحان ساحلی پٹی پر ڈوب گئی۔ اب مغرب کا میڈیا ہمیں بتارہا ہے کہ اس تصویر نے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے اور شام کے مہاجرین کے مسئلے کو عالمی افق پر نئے زاویے سے دیکھا جارہاہے۔

(جاری ہے)

بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیاں باور کراتی ہیں کہ یورپ پناہ گزینوں کیلئے اپنے دروازے کھول چکاہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا یورپ مشرق وسطی میں جنگوں کو ایندھن فراہم کرنے کے گیٹ بھی بند کرے گا۔؟
وہ جنگ ہی تھی جس نے کردالنسل عبداللہکو شام کے دارالحکومت دمشق سے اپنی اہلیہ ریحان کردی اور دو معصوم بیٹوں غالپ اور ایلان کے ساتھ نکلنے پر مجبور کیا۔ ترکی میں پناہ لینے کے بعد عبداللہ اپنے خاندان کے ساتھ کینیڈا میں بسنے کے خواب دیکھ رہاتھا جہاں اس کی بہن اپنے بھائی کی فیملی کیلئے حکومت کو درخواستیں دے رہی تھی ۔

کینیڈا کے شہر وینکور میں ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے عبداللہ کردی کی بہن ٹیما کردی نے کہاکہ حکومت نے میری درخواست مسترد کردی تھی اس لیے میرے بھائی نے غیر قانونی راستہ چنا اور یونان جانے کیلئے خاندان کے ہمراہ سمندر میں اترا، اور پھر یہ سانحہ پیش آیا۔ ادھر ترکی میں عبداللہ کردی نے بکھرے خوابوں کی کرچیاں چنتے ہوئے کہا کہ اب اس کے دل میں یورپ جانے کی تمنا باقی نہیں رہی، وہ اپنی اہلیہ اور دونوں بچوں کی میتیں لے کر اپنے آبائی شہر جانا چاہتاہے۔

ترکی کی پارلیمنٹ کے کئی ارکان اور تین تابوتوں کو لیے عبداللہ اپنے ملک شام کی واپسی کے سفر پر روانہ ہوا جہاں وہ کوبانی شہر میں ریحانہ، غالب اور ایلان کی قبریں بناکر ان پر آنسوؤں کے نذرانے چڑھاتے ہوئے لوگوں سے مخاطب ہوا کہ اپنی بیوی اور بچوں کی موت کا ذمہ دار میں خود ہوں،میں اور کو الزام نہیں دوں گا۔ عبداللہ نے اپنے آبائی شہر کے لوگوں کے مجمعے سے مخاطب ہوکر کہا’ اب میں اپنی رہتی زندگی اس سانحے کی قیمت چکاتا رہوں گا‘۔

عبداللہ کہتاہے کہ اس کے بچے ان ہزاروں میں سے دو تھے جنہیں شام کی خانہ جنگی کھا گئی، اس لیے عرب ممالک ان المیوں کے خاتمے کیلئے حل تلاش کریں۔ٹوٹے بکھرے عبداللہ کردی کو ایک دوست نے بتایا کہ دنیا تمہارے ساتھ کھڑی ہے، عبداللہ کاجواب تھا’ میرے لیے اب اس دنیا میں کچھ نہیں رہا، اب مجھے دنیا سے کیا لینا‘۔؟عبداللہ نے کہاکہ’میں نے سب سے بڑی قیمت چکادی ہے‘۔


حادثے خود بخود نہیں ہوتے، حادثے اچانک بھی نہیں ہوتے ۔ وقت برسوں تک ایسے سانحوں کی پرورش کرتاہے۔ آج شام کی جو حالت ہے اور شام کے مہاجرین جس طرح ملکوں ملکوں پناہ کی تلاش میں نکلے ہیں اس کیلئے بہت سے دوسرے عوامل بھی ذمہ دار ہونگے مگر ایک آمر حافظ الاسد اور اس کا بیٹا بشار الاسد علامت کے طور پر سامنے آتے ہیں، جن کے ہاتھ میں اقتدار ہوگا ،ان کے سر لاکھوں کروڑوں شہریوں کی جانوں کا ذمہ بھی ہوگا۔

حافظ الاسد نے اکتیس برس تک آہنی ہاتھ سے شام کو جکڑے رکھا اور پھر جب پندرہ برس قبل دست اجل نے اسے اٹھایا تو اس کا بیٹا بشارالاسد پورے ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بن گیا۔ معاشروں میں اختلاف رائے ہوتاہے اور قبیلے بھی۔ اقلیتیں بھی ہوتی ہیں اور اکثریت بھی۔ مقتدر کو تمام قومیتوں و رنگ و نسل کے افراد کے حقوق کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ جہاں ایسا نہ ہو،ایک دن ابلتا لاور پھٹ جاتاہے، اور شام میں یہی ہوا۔

ہم خود پاکستان میں آمریتوں سے گزرے۔ آخری مطلق العنان پرویز مشرف شاید ایسا ہی تھا جیسا کہ شام کے لوگ بشارالاسد کو سمجھتے ہوں۔ پھر پڑوسی ممالک بھی ہوتے ہیں، مفادات کی دنیا میں ہر چیز کو مادی طور پر ناپا اور تولا جاتاہے، انسانی اقدار کی اہمیت نہیں ہوتی اور انسانوں کی موت پر معاشرے چند یوم کیلئے افسردہ ہوتے یا سوگ مناتے ہیں۔ شام کی حکومت کے مخالفین کے خلاف تشدد بڑھا تو ان کو بیرونی مدد ملنا شروع ہوگئی۔

بشار کے ساتھ روس اور ایران تھے تو دوسری جانب سعودی عرب، ترکی اور امریکا و پورپ نے اپنا وزن ڈالا۔ خانہ جنگی نے طول پکڑا تو مغرب کسی حد تک پیچھے ہٹ گیا۔ اور شام ابھی تک جل رہا ہے، لاکھوں شامی باشندے اردن، ترکی میں مہاجر بن گئے، ہزاروں سمندر کے راستے یورپ کے سفر پر نکلے، جو جنگ سے بچے وہ پانی نے نگلنے شروع کردیے ۔ معصوم ایان کردی اور اس کا خاندان ایسے ہی بدقسمت شامی پناہ گزینوں کی ایک علامت بن کے سامنے آیا۔


شام کا المیہ نیا نہیں۔ گزشتہ کئی برس سے وہاں بچوں کو ہی نہیں عورتوں اور تمام عمرکے لوگوں کوبندوقوں نے نشانہ بنایا ہے۔ افغانستان کئی دہائیوں سے جنگ زدہ ہے، پاکستان نے چالیس لاکھ کے لگ بھگ افغان باشندوں کو پناہ دی جو جنگ سے زندگی بچا کر نکلے تھے۔ آج افغان خانہ جنگی میں ہر فریق کو گالی پڑ رہی ہے، مگر اس روس کا نام کوئی نہیں لیتا جس کی توسیع پسندی نے ایک ملک کو تباہ وبرباد کرنے کی بنیاد رکھی۔

پاکستان میں شام کے ایلان کردی کی موت نے ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر کافی جگہ اور وقت لیا ہے، ہر کوئی غمزدہ ہے، مگر انہی میں سے بہت سے لوگ اپنے ملک میں افغان باشندوں کو انتہائی ہتک آمیز رویے کا نشانہ بناتے ہیں۔ اسلام آباد کی کچی بستی جہاں قبائلی اور پختون خوا کے ہزاروں افراد رہائش پذیر تھے ، گرادی گئی کیونکہ کہا جارہا تھاکہ افغان مہاجرین آباد ہیں۔

افغانستان کے بعد عراق کی باری آئی، ایک شخصی حکومت کے خاتمے کیلئے امریکا نے یورپ کے ساتھ مل کر کیمیائی ہتھیاروں کا پروپیگنڈا کیا ، آج حالات سب کے سامنے ہیں۔ لیبیا کی خانہ جنگی کی ایندھن کی فراہمی تو ابھی کل کی ہی بات ہے۔ امریکا اور یورپ نے تیل کے وسائل پر قبضے کیلئے باغیوں کو کیسے مسلح کیا۔ ہزاروں لوگوں کا قتل عام ہوا،مگر ایان کردی کی موت پر جس عالمی ضمیر کے جاگنے کا ڈھنڈورا پیٹا جارہاہے اس وقت کہیں سویا ہوا بھی نہیں پایا گیا۔

یورپ اور امریکا سمیت ہر کوئی جانتا ہے کہ پناہ گزین اور مہاجرین خوشی سے نہیں آتے، حالات بنائے جاتے ہیں، پیدا کیے جاتے ہیں اور پھر لوگ چل پڑتے ہیں، گھر بار چھوڑ کے، آبلہ پا، شکستہ پتوار کی کشتیوں میں۔ گہرے پانیوں کے سمندر کو پار کرکے کناروں پر آباد خوشحال شہروں تک پہنچتے ہیں، اٹلی ان کو ماربھگانے کی کوشش کرتاہے، یونان اور ہنگری وسائل کی کمیابی کا شکوہ کرتے ہیں، اور جرمنی میں کچھ لوگ اس سوچ کے ساتھ ابھرتے ہیں کہ چند لاکھ مہاجروں کو آنے دو، ہمیں سستے مزدور مل جائیں گے۔ سامراج کی دنیا ہے، سرمائے کی دنیا ہے۔ کوئی سرخا ہے ، کوئی کالا ہے۔ مگر جائے اماں نہیں۔ انسانیت مررہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :