مزدور کی تنخواہ

ہفتہ 4 جولائی 2020

Aasim Irshad

عاصم ارشاد چوہدری

اسلامی جمہوریہ پاکستان اسلام کے نام پر بننے والی دوسری ریاست ہے پہلی مدینہ منورہ ہے دوسری یہ پاک سرزمین ہے اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کو بہت نعمتوں سے نوازا ہے اسے چار موسم دیئے ہیں زراعت میں بھی پاکستان کی مٹی بہت زرخیز ہے پاکستانی قوم بھی محنتی ہے یہ محبت کرنے والی قوم ہے ایک دوسرے کے کام آنے والے لوگ ہیں، غرض یہ کہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ہے اگر ہم تھوڑا سا سوچ لیں تھوڑے سے کام کر لیں تو ہم بھی ترقی کر سکتے ہیں،
پاکستان کو اس وقت در پیش اہم مسائل غربت، بے روزگاری ہے کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان کی پچیس فیصد آبادی بے روزگار ہوئی انکے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں تھا یہ گھر بیٹھ گئے لاک ڈاؤن نرم ہوا یہ لوگ سڑکوں پر نکل کر روزی کرنے لگے، پاکستان میں اس وقت غربت بھی بہت ہے اس وقت کئی ہزار لوگ رات بھوکے سوتے ہیں انکے گھر چولہا نہیں جلتا یہ اپنے بچوں کو جھوٹی تسلیاں دے کر سلا دیتے ہیں،
اسکے بعد پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں وسائل کی کمی ہے ادویات کی کمی ہے بیڈز کی کمی ہے ڈاکٹرز کی کمی ہے دس دس مریضوں کو ایک ڈاکٹر دیکھ رہا ہوتا ہے، پھر پاکستان کے تعلیمی اداروں کا حال بہت برا ہے سرکاری سکولوں میں بچے لکڑی کے ٹوٹے ہوئے بینچوں پر بیٹھتے ہیں جو چھوٹی کلاسوں کے بچے ہیں وہ زمین پر ٹاٹ بچھا کر بیٹھتے ہیں،
ان سب معاملات کے بعد جب کوئی حکمران ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کرتا ہے تو دل کو خوشی ہوتی ہے کہ شائد ایک عام پاکستانی شہری اور ایک وزیر کے درمیان فرق مٹ جائے لیکن یہ صرف ایک خیال ہوتا ہے اور خیال ہمیشہ خیال رہتا ہے یہ کبھی حقیقت نہیں بنتا، آپ اپنے اراکینِ پارلیمان کی مراعات دیکھیں انکو دی گئی سہولیات دیکھیں تو پھر بتائیں کیا پاکستان اسلام کے نام پر بننے والی ریاست ہے؟
ہمارے وزرا ہمارے ووٹوں پر جیتنے والے سرکاری رہائش گاہ میں رہیں، انکا سارا خرچہ سرکاری خزانے سے، انکا علاج بیرونِ ملک سے ہو، انکے بچے بیرونِ ملک سکولوں میں تعلیم حاصل کریں انکی جائیدادیں بیرون ملک میں ہوں لیکن سیاست یہ پاکستان میں کریں اور ہم انکو اپنے اوپر بطور حکمران مسلط بھی کریں تو ہم خود غلط ہیں،  پارلیمنٹ کے ارکان جو اتنی مراعات لے رہے ہیں پھر جب یہ اپنی مراعات میں اضافہ چاہتے ہیں تو خود ہی ایوان میں ووٹنگ کرواتے ہیں جو خود ہی ووٹ ڈال کر جیت جاتے ہیں اور پر سکون زندگی گزارتے ہیں اور غریب عوام مزدور طبقہ روز بھوک بے روزگاری، بے انصافی سے مر رہا ہے، ارکان پارلیمنٹ کے بارے میں کچھ باتیں لکھنے جا رہا ہوں جو ایسا ہونا چاہیے جس کے ہونے سے ریاست مدینہ بنے گی، آپ کے میرے اور پاکستان کے ہر شہری کے ذہن میں یہ ساری باتیں آتی ہیں لیکن ہم خاموش رہتے ہیں اب ذرا یہ قوانین ملاحظہ فرمائیں،
  پارلیمنٹ کے ارکان کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن ملتی ہے جو کہ نہیں ملنی چاہئے کیوں کہ یہ نوکری نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کی خدمت کے جذبے کے تحت ایک انتخاب ہے اور اس کے لئے ریٹائرمنٹ  نہیں ہوتی ہے مزید یہ کہ سیاستدان دوبارہ سے سیلیکٹ ہو کے اس پوزیشن پر آسکتے ہیں
 مرکزی تنخواہ کمیشن کے تحت پارلیمنٹ کے افراد کی تنخواہ میں ترمیم کرنا چاہئے. ان کی تنخواہ ایک عام مزدور کے برابر ہونی چاہیئے کیونکہ ریاست مدینہ میں یہی قانون تھا
ممبران پارلمنٹ کو اپنی صحت کی دیکھ بھال کے لیے سرکاری ہسپتال میں ہی علاج کی سہولت لینا لازم ہو جہاں عام پاکستانی شہریوں کا علاج ہوتا ہے
 تمام رعایتیں جیسے مفت سفر، راشن، بجلی، پانی، فون بل ختم کیا جائے  یا یہ ہی تمام رعایتیں پاکستان کے ہر شہری کو بھی لازمی دی جائیں
 ایسے ممبران پارلیمنٹ جن کا ریکارڈ مجرمانہ ہو یا جن کا ریکارڈ خراب ہو حال یا ماضی میں سزا یافتہ  ہوں  موجودہ پارلیمنٹ سے فارغ کیا جائے اور ان پر ہر  لحاظ سے  انتخابی عمل میں حصّہ لینے پر پابندی عائد ہو اور ایسے ممبران پارلیمنٹ کی وجہ سے  ہونے والے ملکی مالی نقصان کو ان  کے خاندانوں کی  جائیدادوں کو بیچ کر پورا کیا جائے۔

(جاری ہے)

.
 پارلیمنٹ ممبران کو عام پبلک پر لاگو ہونے والے تمام قوانین کی پابندیوں پر عمل لازمی ہونا چاہئے.
 اگر لوگوں کو گیس بجلی پانی پر سبسڈی نہیں ملتی تو
 پارلیمنٹ کینٹین میں سبسایڈڈ فوڈ کسی ممبران پارلیمان کو نہیں ملنی چائیے
ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سیاستدانوں کے لئے بھی ہونا چاہئے. اور میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہونا چاہئے اگر میڈیکلی ان فٹ ہو تو بھی انتخاب میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہے
 ان کی تعلیم کم از کم ماسٹرز ہونی چاہئے اور دینی تعلیم بھی اعلیٰ ہونی چاہیئے اور پروفیشنل ڈگری اور مہارت بھی حاصل ہو
اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہو. کیونکہ اکثر آپ دیکھتے ہیں وزارت میں پانچ سال گزرنے کے بعد پتا چلتا ہے کہ انکی ڈگری جعلی تھی،
ان کے بچے بھی لازمی سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کریں کیونکہ اگر ووٹ دینے والے پاکستانی شہری کا بچہ سرکاری سکول میں پڑھ سکتا ہے تو ہمارے وزراء کے بچے کیوں نہیں؟
ایک مزدور صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک کام کرتا ہے اور ماہانہ تنخواہ پندرہ ہزار لیتا ہے آپ بتائیں پندرہ ہزار میں گزارا ہو سکتا ہے، پھر کبھی ہمارے وزیراعظم صاحب کہتے ہیں جنکو دنیا جہاں کی مراعات آسائش و آرام حاصل ہے وہ فرماتے ہیں کہ میرا ڈھائی لاکھ میں گزارا نہیں ہوتا اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک مزدور کی تنخواہ ڈھائی لاکھ ہوتی ہے یا وزیراعظم صاحب کی پندرہ ہزار۔

۔۔
 مزدور کو آسائش و آرام تو دور اسے تو ماہانہ تنخواہ بھی پورہ نہیں ملتی وہ جب بیمار ہوتا ہے تو کسی سرکاری ہسپتال کے ایک ٹوٹے بیڈ پر وینٹی لیٹر کا انتظار کرتے ہوئے وہ مر جاتا ہے اگر ایک مزدور کا علاج سرکاری ہسپتال میں ہو سکتا ہے تو ہمارے وزراء کا کیوں نہیں لیکن یاد آیا ہمارے تین بار وزیراعظم بننے والے میاں نواز شریف اتنے قابل تھے کہ انہوں نے پاکستان کو بے شمار ہسپتال بنا کر دیئے لیکن پورے پاکستان میں کوئی ایک ایسا ہسپتال نا بنا سکے جس میں انکا یا انکے گھر والوں کا علاج ہو سکے، انکو کچھ بھی ہو وہ برطانیہ چلے جاتے ہیں،
انکے بچے بیرونِ ملک رہتے ہیں انکی ساری جائیدادیں پاکستان سے باہر ہیں لیکن انہوں نے انقلاب پاکستان میں لانا تھا اور ویسے ہم ہیں کہ انکو تین بار وزیراعظم منتخب کیا،
پاکستان کے حساس عہدوں پر رہنے والے لوگوں پر یہ بھی پابندی ہونی چاہیے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی بقیہ زندگی پاکستان میں ہی گزاریں لیکن یہاں جو صدر ہو، جو چیف جسٹس ہو جو چیف آف آرمی سٹاف ہو وہ بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں، جسٹس ثاقب نثار پوری قوم کو ڈیم فنڈ پر لگا کر خود باہر چلے گئے، ہمارے آرمی چیف میں آپ زیادہ دور نا جائیں بس پچھلے چار آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے لے کر جنرل راحیل شریف تک دیکھ لیں یہ بیرونِ ملک ہیں ہمارا کوئی وزیر مشیر دیکھ لیں انکی بیرونِ ملک رہائشیں ہوں گی،
لیکن پاکستان کی عوام ذلیل ہو رہی ہے انکو کون سی چیز کون سی سہولت مل رہی ہے، ریاست مدینہ میں تو ایسا نہیں تھا ریاست مدینہ میں جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو آپ کی تنخواہ (وظیفہ) کا مسئلہ پیدا ھوا، آپ نے فرمایا، مدینہ میں ایک محنت کش کو جو یومیہ اجرت دی جاتی ھے اتنی ہی اجرت میرے لئے بھی مقرر کی جائے پوچھا گیا اتنی اجرت میں اپ کا گزارہ کیسے ھو گا،آپ نے فرمایا کہ میرا گزارہ اسی طرح ھو گا جس طرح مدینہ کے ایک محنت کش کا ھوتا ھے، ہاں اگر گزارہ نہ ھوا تو محنت کش کی یومیہ اجرت بڑھا دوں گا، لیکن اب یہاں پاکستان میں وزراء کی تنخواہیں اور مراعات دیکھیں اور ایک غریب مزدور کی تنخواہ دیکھیں آپ رونے لگیں گے،
لیکن یہاں پر کوئی آواز بلند نہیں کرتا ہم ستر سال سے غربت کی چکی میں پس رہے ہیں ہم جتنا پستے ہیں اتنا ہمارے وزراء اور بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگ عیاشیاں کرتے ہیں، اور سب سے تلخ بات یہ ہے کہ ہر پانچ سال بعد ہم خود ان لوگوں کو منتخب کر کے کرسی پر بٹھا دیتے ہیں کہ یہ ہم پر اور ظلم کریں،
ہم خود کبھی نہیں سوچتے کہ یہ اتنی مراعات کیوں لیتے ہیں یہ اپنے بچوں کو بیرون ملک کیوں پڑھاتے ہیں یہ اتنی کرپشن کیسے کر لیتے ہیں؟ ہم اس لئے یہ بات نہیں سوچتے کہ میرے سوچنے سے کیا ہو گا۔

۔  آپ سوچیں اپنی آواز بلند کریں آپ پاکستان کے شہری ہیں آپکا حق ہے کہ آپ حکمرانوں سے سوال کر سکیں اور یہ حق ہمیں اسلام دیتا ہے، جب ایک عرب کا بدو خطبہء جمعہ کے وقت خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کھڑا ہو کر سوال کر سکتا ہے کہ مجھے جواب دیں بیت المال سے جو چادریں ملی ہیں ان سے ایک کرتا تو نہیں بن سکتا پھر آپکا کرتا کیسے بن گیا، حضرت عمر فاروق نے اپنے بیٹے سے کہا اسکا جواب دو، بیٹے نے کہا سب کو ایک ایک چادر ملی تھی ابا جان کو بھی ایک ملی اور مجھے بھی ایک ملی میں نے اپنی چادر ابا جان کو دے دی کہ آپ کرتا سلوا لیں اس طرح یہ کرتا بنا ہے کسی کا حق نہیں مارا گیا، جی ہاں اگر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سوال ہو سکتا ہے بائیس لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والے قیصر و کسریٰ کو فتح کرنے والے وقت کے خلیفہ سے برابری کا سوال ایک عام بدو کر سکتا ہے تو ہم ان وزیروں سے سوال کیوں نہیں کر سکتے۔

جب ہمارے کچھ ادارے تفتیش کرنا شروع کرتے ہیں تو یہی وزیر بیمار ہو کر باہر چلے جاتے ہیں لیکن احتساب نہیں کرواتے کیونکہ یہ جھوٹے ہیں انہوں نے عوام کا پیسے میں خیانت کی ہے لیکن پھر بھی ہم انکو ووٹ دیتے ہیں، اب تھوڑا نہیں پورا سوچیں اور ذہن کو وسیع کر کے سوچیں ہمارے سوچنے سے ہی بہت کچھ ہو گا ہم ترقی بھی کریں گے ہم کامیاب بھی ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :