قانون میں اصلاحات

پیر 8 فروری 2021

Abdul Aziz

عبدالعزیز

جب انگریزوں کی آمد ہندوستان میں ہوئی تو انہوں نے مسلم حکمرانوں کے وضع کردہ ایک ہزار سال سے مروج قوانین کو یکسر ختم کرکے برطانوی نظام عدل جاری کیا۔برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں جب انگریز کو برطانیہ لوٹنا پڑا تو ہم نے انگریزی قوانین کو نظام کا حصہ بنادیا ۔جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نئی قانون سازی ناگزیر ہے جس پر ہمارے سیاستدان نااہلیت کا ثبوت دے رہے ہیں غفلت یا نااہلیت کی وجہ سے ہم نے اپنے قوانین وضع کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اور نا ہی اسلامی قوانین کو عملی جامہ پہنایا ۔

حتی کہ خلفاء راشدین کا بنا بنایا نظام بھی رائج کرنے میں ہم نے پہل نہیں کی۔اور نا کیسی اور عدالتی نظام کی جانب رجوع کیا ۔ ہم نے اسلامی قوانین کو نظر انداز کیا۔خلفاے راشدین کے نظام کے موجودگی میں مغربی قانون عدل سے استفادہ کیا۔

(جاری ہے)

مغرب کے مترو کہ قوانین کو اپنا کر عظیم جرم کا ارتکاب کیا کیونکہ وہ لوگ ہمارا نظام عدل اپنانے میں مگن ہے دنیا میں اگر جمہوریت کا بانی افلاطون اور سقراط کو سمجھا جاتا ہے تو نظام عدل کا بانی خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق (رض) کو کہلایا جانا چاہیے۔

قانون کا احترام ہی وہ عظیم اصول ہے جو ایک حکمران کو رعایا کا اصل خادم بناتا ہے افلاطون اور ارسطو بیدار قوموں کے دانشور تھے جبکہ حضرت عمر فاروق ( رض) سوے ہوے لوگوں کا پیشوا ہے اگر انکا تعلق کیسی اور مزہب سے ہوتا تو دنیا کہ عظیم ترین جمہوریت پسندوں میں انکا شمار ہوتا اور ہر عدالت کی ابتدا اور انتہا انکے نام سے منسوب ہوتی۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمیں انگریزی قانون کا متبادل نظام لانا چاہیے تو ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔

1980 میں جب ایک فوجی امر نے اسلامی قوانین کی خواہش کی تو بے شمار حامیوں کے باوجود ٫,حدود لاءز ،، سے آگے نا بڑھ سکے درجنوں مذہبی جماعتیں ملک میں اسلام کانعرہ لگا رہی ہے مگر انکے پاس اسلامی ریاست میں لاگو ہونے والے قوانین کا ڈھانچہ جدید ترین شکل میں نہیں ۔ایک متبادل نظام عدل پیش کرنے کے لئے ہمیں پہلے پارلیمانی معیار کو بہتر بنانا ہوگا۔

لانگ ٹرم کے لئے ہمیں نصاب کو ایسے سانچے میں ڈھالنا ہوگا جو ہمیں موجودہ نااہل حکمرانوں اور امیدوارو ک بجاے معمار قوم دے سکے۔موجودہ قانون کی بہتری کیلئے بھی لاء کالجوں کے نصاب اور تمام تر سرگرمیوں کو بہتر بنانا ناگزیر ہے اگر اسلامی جماعتوں کے مفکرین یہ نظام تشکیل دینے کے لیے ابھی سے تیاری کریں ۔قوانین کو دستاویزی شکل میں متبادل نظام کے طور پر حتمی شکل دیں تو ان کے نفاظ کی راہوں میں رکاوٹیں ختم ہو جائے گی اور پارلیمان بھی اس سے استفادہ کر سکتی ہے پاکستان کو قائم رہنا ہے اور بحصیت قوم ہماری ایک شناخت ہونی چاہیے ۔

نظام بھی شناخت کا حصہ ہوتا ہے ۔ریاست کی زمہ داری پارلیمان کے زریعے معاملات زندگی کو کامیابی سے چلانے کیلئے قوانین بناکر عوام کو پیشِ کرنا ہوتا ہے اگر ہم یہ زمہ داری قبول کرتے ہیں تو اج سے عظیم کام کا بیڑہ اٹھانا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :