قدیم سید والا سے نیا سید والا کا سفر

جمعرات 29 اگست 2019

Abdul Qadoos Malik

عبدالقدوس ملک

 شیر شاہ سوری سے لیکر انگریز دور تک تحصیل رہنے والا خوبصورت اور تاریخی شہر اپنا کھویا ہوا مقام واپس مانگتا ہے جسے پھر سے تحصیل کا درجہ دیا جائے۔سیدوالا دریائے راوی کے کنارے آباد ایک خوبصورت قلع نما شہر تھا جس کی بنیاد شیر شاہ سوری کے وزیر خاص میر محمد نے رکھی جو کہ سعادات گھرانے سے تھا جس بنا پر تعمیر کردہ شہر کا نام سیدوالا پڑ گیا۔


 تاریخی و جغرافیائی اعتبار سے سیدوالا بہت اہمیت کا حامل تھا سرسبز و شاداب علاقہ جو کہ مرکز تھا کئی شہروں کا جسے تجارتی مرکز کے طور پر تعمیر کیا گیا۔جہاں ہندو اور مسلم دو قومیں آباد ہوئیں۔32ایکڑ پر شہر کی تعمیر کی گئی جس میں 23کنویں بنائے گئے، شہر چھوٹی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا جس کے ارد گرد بلند و بالا فصیل اور چاروں طرف ایک گہری خندک کھودی گئی۔

(جاری ہے)

شہر کے چار دروازے جن پر چوکیاں بنائی گئی اور ہر چوکی پر ایک پہرے دار تعینات کیا گیا ۔شام کا سورج ڈھلتے ہی چاروں دروازے بند کر دیے جاتے اور شہر میں رقص وسرور کی محفلیں جواں ہوتی ۔آدھا شہر ہندوں اور آدھا مسلمانوں کیلئے مخصوص کیا گیا جبکہ دو نمبردار مقرر کئے گئے ایک مسلمانوں کا اور ایک برہمن ہندوں کی طرف سے، مسلمانوں کی طرف سے ہمیشہ نمبردار سید گھرانے سے ہی ہوتا ۔

سیدوالا بلندوبالا مضبوط فصیل اور گہری خندک کی وجہ سے محفوظ ترین شہر گردانا جاتا تھا جسے کسی بھی قسم کے بیرونی طاقتوں سے کوئی خطرہ نہ تھا مگر قدیم سیدوالا پہلو میں موج دریا سے بے خبر تھا جو دریائے راوی کی نظر ہو گیا جسے بے رحم لہروں نے نیست و نابود کر دیا۔
بعد ازاں اورنگزیب عالم گیر کے دور حکومت میں سیدوالا کی دوبارہ بنیادد رکھی گئی جو قدیم سیدوالا سے 4میل کی دوری پر تعمیر کیا گیا جسکو پھر ایک بار راوی کی طغیانی نے نگل لیا اور یوں ایک بار پھر سے سیدوالا کے لوگ بے گھر بے یارو مدد گار کھلے آسمان تلے دکھائی دیے۔

سیدوالا کے لوگ ارادے کے پکے اور اعصاب کے مضبوط لوگ تھے جنہوں نے ہار نا مانی اور تیسری دفع پھر سیدوالا کی تعمیر نو کا فیصلہ کیا۔1775میں کوٹ کمالیہ نکئی سردار ہیرا سنگھ کا بھتیجا کھرلو ں کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا تو بعد ازاں بیٹا رن سنگھ سردار بن گیا جس نے کئی علاقوں پر حملے کئی اور ان پر قبضہ جما لیا جن میں فرید آباد بڑا گھر بچیکی کے ساتھ سیدوالا بھی شامل تھا اور یوں سیدوالا مسلمانوں اور برہمن ہندوں کے قبضہ سے نکل کر سکھوں کی جا گیر بنا اور سیدوالا پر سکھوں کی حکومت قائم ہوئی۔

رن سنگھ 1780میں چل بسا جسے ایک کھرل نے قتل کر دیا۔ 1804میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سیدوالا پر قبضہ کر لیا اور پھر انگریز کی آمد تک سیدوالا سکھوں کے قبضہ میں رہا۔سیدوالا ان دنوں جھنگ کا حصہ تھا جب انگریزوں کی حکومت آئی تو انہوں نے بورڈ آف ایڈمنسٹریشن کی تشکیل دی ۔اسی دوران پنجاب میں مختلف اضلاع کی حدود میں ردوبدل کی گئی تو سیدوالا جھنگ سے نکل کر پاکپتن میں شامل ہو گیا جو بعد ازاں گوگیرہ کے ساتھ جوڑ دیا گیا یہ 1850سے 1855کا دور تھا جب سیدوالا نے پنجاب کے نقشہ پر تحصیل کی حیثیت حاصل کر لی اور یوں سیدوالا گوگیرہ کی تحصیل بنا۔

 1857میں سیدوالا ایک بہت بڑی تجارتی منڈی کے طور پر ہندوستان میں متعارف ہو گیا جہاں جنس کے علاوہ کانسی پیتل اور دھاتوں کے برتن بنانے والے باکمال کاریگر تھے جو بعد ازاں سیدوالا سے جھنگ منتقل ہو گئے جہاں وہ آج بھی آباد ہیں اور جھنگ کی گلیوں بازاروں میں اپنے فن کا ڈنکا بجارہے ہیں اس علاقہ کے لوگ زندہ دل بہادر تھے جنہوں نے جنگ آزادی میں ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔

وہ الگ بات کہ انگریز کو جیت ہوئی جس کا بدلہ انگریزوں نے فتح کے بعد انتقامی کارروائیوں سے لیا اور ظلم کی انتہا کر دی گئی جس سے سیدوالا زوال کی طرف گیا ۔انگریزوں نے پپل کے درخت کے ساتھ ایک کنوا بنوایا جسے پھانسی گھاٹ کا نام دیا گیا اور جنگ آزادی کے مجاہدین کو چن چن کر اس تختہ دار پر لٹکایا گیا اور روز اس کنویں میں درجنوں آزادی کے جیالوں کو پھانسی دے کر کنویں میں پھینک دیا جاتا۔

1884تک انگریزوں نے اس علاقہ کو دیوالیہ کر دیا ظلم کی انتہا کا یہ عالم تھا کہ یہاں سے تعلیمی ادارے بھی ہٹا لئے گئے صرف ایک پرائمری سکول تھا جہاں تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے کوئی جاتا تو اسے زبع کر دیا جاتا۔بعد ازاں ضلع لائل پور بنا تو تحصیل لائلپور سے سیدوالا کو جوڑ دیا گیا یو ں سیدوالا کافی عرصہ لائلپور میں شامل رہا۔
1922میں جب ننکانہ کو تحصیل کا درجہ دیا جانے لگا تو سیدوالا کو ننکانہ میں شامل کر دیا گیا سیدوالا نے تاریخی بہت لمبا سفر کیا اور کئی در ٹھوکریں کھائی جس سے یہاں کے لوگ احساس محرومی کا شکار ہونے لگے۔

یہاں کھرلوں کی آبادی کثرت سے پائی جاتی تھی اور رائے احمد خان کھرل بھی سیدوالا کی سرزمین کا سپوت تھا۔نواب سیدوالا رائے احمد خان کھرل کا ذکر ہو ا ہے تو بتاتا چلوں احمد خان کھرل کو جب بہن بھائی رشتہ دار چھوڑ گئے تو سیدوالا کی عوام نے سینہ سے لگایا۔احمد خاں کھرل جو ایک مرد مجاہد تھا اور آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا اسکے گھر اور گاؤں کو آگ لگا دی گئی جس وجہ سے اس نے سیدوالا کا رخ کیا اور رائے احمد خان کھرل نے لارڈ ماونٹ برکلے کو جہنم واصل کیا جس کی قبر گوگیرہ میں آج بھی موجود ہے۔

سیدوالا کے جنوب میں ایک قلع واقع تھا جو فوجی قلع کے نام سے مشہور تھا جس کی تاریخ کہیں نہیں ملی.موجودہ سیدوالاجو کہ چک نانک المعروف نوں سیدوالا سے جو 1905میں جہاں ایک گھنا جنگل ہوا کرتا تھا جسے 50روپے فی مربع کے عوز الاٹ کیا گیا۔ سیدوالا تیسری دفع آباد ہونے والا شہر ہے جس کا پیچھا دریائے راوی نے نا چھوڑا، 1987کے سیلاب میں ایک بار پھر دریائے راوی نے سیدوالا کا رخ کیا مگر اس دفع سیدوالا کی عوام گھروں سے نکل آئی اور لہروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بند باندھے گئے اور یو ں سیدوالا محفوظ رہا جسے تیسری بار اجڑنے سے بچا لیا گیا۔

نواں سیدوالا میں بہت سے مقامات قابل ذکر ہیں جن میں سیدوالا کی بابری مسجدجو سیدوالا جڑانوالا روڑ پر واقع ہے بابری مسجد جو نام سے ہی واضح ہے دراصل یہ اداکارہ بابرہ شریف کے نام سے منصوب ہے بابرہ شریف جو کہ سیدوالا کی رہائشی تھی اور شریف انکے والد کا نام تھا جو بعد ازاں سیدوالا سے لاہور اپنی ایک عزیزہ بہار کے پاس شفٹ ہو گئے بابرہ شریف نے 8لاکھ روپے کی رقم چندا کیا جس سے مسجد کی تعمیر ہوئی اور تعمیر کے بعد بھی چندے کا سلسلہ جاری رکھا۔

 دریائے راوی اور سیدوالا کی صدیوں کی ان بن چل رہی تھی ایک بار پھر دریائے راوی نے سیدوالا پر غضب ڈھانے کی ٹھان لی اور مورخہ 23جنوری 1997کو مسافر کشتی دریائے راوی کی موجوں کی نظر ہوئی جس میں 200سے زائد افراد لقمہ اجل بنے جس کی وجہ سے راوی پر پل کا مطالبہ اور عوامی احتجاج طول پکڑ گیا ۔یہ وہ پل تھا جس کا اعلان و افتتاح 1973میں بھٹو کے دور حکومت سے شروع ہوا بعد ازاں غلام حیدر وائیں سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے 1999 میں، سابقہ صدر مملکت پرویز مشرف ، یوسف رضا گیلانی ،سابق وزیر اعظم پاکستان و سابق صدر پاکستان آصف زرداری نے کیا مگر متعدد وزیرائے اعلی وزیر اعظم و صدور کے اعلانات کے باوجود پایہ تکمیل تک نا پہنچ پایا جو حال ہی میں ن لیگ کی حکومت میں مکمل ہوا جس کا افتتاح سابقہ صدر خاقان عباسی نے کیا ۔

اللہ اللہ کر کے پل کی تعمیر تو مکمل ہوئی مگر تا حال رابطہ سڑکیں مکمل نہ ہونے کے باعث غیر فعال نظر آرہا ہے ۔سیدوالا کے مقام پر ایک روحانی بزرگ بابا الف شاہ بخاری کا میزار بھی تجلیاں بکھیرتا نظر آتا ہے جن کا عرس ہر سال منایا جاتا ہے۔ سیدوالا کا درانتری بازار جو پنجاب کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں مشہور ہے جس کے کاریگروں کا کوئی ثانی نہیں جو زرعی آلات کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔

مین بازار میں ایک فوارہ نصب تھا جو رات کے وقت چلایا جاتا تھا جو شہر کو چار چاند لگا دیتا مگر کچھ عرصہ قبل اسے منہمند کر دیا گیا ۔
سیدوالا کے ورثہ سے جڑی ایک پرانی روایت سیدوالا میں حقہ کے کاریگر جن کے کانسی پیتل و تانبہ چاندی کے حقے پاک و ہند میں مشہور تھے ان کاریگروں جو نقل مکانی کر کے جھنگ گئے ایک گھرانہ یہاں ہی رہ گیا جن کی لڑی میں سعید نامی کاریگر آج بھی اپنے فن مہارت میں اپنا ثانی آپ ہے جس کے بنائے ہوئے نایاب حقے پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں ایکسپورٹ کئے جاتے ہیں اور سیدوالا ہی کی تاریخ سے جڑا ایک اور باب عشق و محبت کی ایک لازوال داستان مرزا صاحبہ کا مزار بھی سیدوالا کے قریب واقع ہے۔

 شیر شاہ سوری کے دور سے لیکر انگریز کے قبضہ تک سیدوالا نے ترقی کی ایسی ایسی منازل طے کی کہ سیدوالا ایک تاریخی تجارتی و سیرگاہ کے علاوہ ایک نمایا حیثیت کا مالک بن گیا۔ انگریز کے ظالمانہ سلوک سے سیدوالا پستی کے ان اندھروں میں دھکیلا گیا کہ گرتے گرتے اپنا رتبہ حیثیت اور مقام سب گنوا بیٹھا اور آج سیدوالا تمام بنیادی حقوق سے محروم ہے جہاں کالج سیورج، سوئی گیس پینے کا صاف پانی سمیت تمام سڑکیں ناکارہ اور سیدوالا بے یارو مدد گار نظر آتا ہے، یوں لگتا ہے کہ ابھی تک سیدوالا انگریز کے ظلم و ستم کا شکار ہے جس پر توجہ نہیں دی جارہی۔

ننکانہ صاحب کی چوتھی تحصیل کی تحریک جو اس وقت زورں پر ہے جس میں بچیکی بڑا گھر منڈی فیض آباد موڑ کھنڈا شامل ہے اور سیدوالا کی عوام بھی سیدوالا کا وہ کھویا ہوا مقام واپس دلوانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے جو اسے 500سال پہلے تحصیل کا درجہ ملنے سے حاصل تھا سیدوالا کی نظریں اس وقت اس عظیم انسان وزیر داخلہ (ر) بریگیڈیئر اعجاز احمد شاہ پر ہیں جو بانی ضلع ننکانہ صاحب ہیں جن کی محنت و کوشش سے ننکانہ صاحب کو ضلع کا درجہ ملااور امید کرتے ہیں کہ وزیر داخلہ (ر) بریگیڈیئر اعجاز شاہ صاحب ایک بار پھر اپنی کوششوں سے سیدوالا کو اسکا کھویا ہوا مقام ضرور دلائیں گے اور ننکانہ صاحب کی چوتھی تحصیل انشاللہ سیدوالا ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :