عامر بن عبدقیس ایک عظیم تابعی

پیر 4 جنوری 2021

Abu Hamza Mohammad Imran Attari

ابو حمزہ محمد عمران مدنی

تاریخ اسلام میں صحابۂ کرام کے بعد یہ امت اگر کسی کی احسان مند ہے تو وہ جماعتِ تابعین ہے جس نےجماعتِ صحابہ سے علم شریعت حاصل کیاجبکہ  صحابۂ کرام کی مقدس  جماعت نے براہِ راست   رسول  اللہ ﷺکے  سینۂ الم نشرح سے علم شریعت کو حاصل کیا ،پھر تابعین کی اس جماعت نے علم و عمل کے فیضان کو عام کیا ، اوررسول اللہ ﷺ کے دین کو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا ،آج اسلام بحمدہ اپنی اصل صورت پر باقی ہے تواس  کے پیچھے  صحابۂ کرام و تابعین عظام کی بہت بڑی قربانیاں  ہیں ،اس مضمون میں ہم تابعین کی مقدس جماعت کے ایک درخشاں مینارے کا ذکر کررہے ہیں اور وہ حضرت عامر بن عبدقیس ہیں ۔


مکمل نام :آپ کا مکمل نام عامر بن عبد بن قیس التّمیمی العنبری البصری ہے۔

(جاری ہے)

آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔آپ عابد وزاہد اور ولی اللہ تھے ۔
روایتِ حدیث :حضرت عامر بن عبدقیس نے حضرت عمر ، حضرت سلمان رضی اللہ تعالی عنہما سے حدیث لی ہے جبکہ آپ سےامام حسن ،امام محمد بن سیرین ،اور ابوعبدالرحمن حبلی وغیرہ نے سماع کیا ہے آپ قلیل الحدیث تھے ۔


آپ کے بارے میں معاصرین کی رائے: حضرت کعب الاحبارتابعی رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کو دیکھ کر فرمایا : یہ اس امّت کے راہب(بہت زیادہ عبادت  ریاضت کرنے والے)ہیں ۔
ابو عمران الجونی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں :حضرت عامر بن عبد قیس رضی اللہ تعالی عنہ سے کسی نے کہا :آپ رضی اللہ تعالی عنہ گھر سے باہر رات گزارتے ہیں ، کیا آپ کو شیر سے ڈر نہیں لگتا ؟ آپ نے فرمایا : مجھے اللہ تعالی سے حیاء آتی ہے کہ میں اس کے سوا کسی اور سے ڈروں۔


حضرت عامر طلوعِ آفتاب سے لے کر عصر تک نماز پڑھتے رہتے حتّیٰ کہ آپ کے پاؤں  پرورم  آجاتا۔ پھر آپ اپنے نفس کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے :اے نفسِ امّارہ !تجھے عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔
عظیم کرامت:حضرت سیِّدُنا قتادہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سیِّدُناعامر بن عبدقیس نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:اے اللہ !سردیوں میں میرے لئے وضوکرنا آسان فرما!(اس کے بعد)جب وضو کے لئے پانی لایا جاتا تووہ گرم ہوتا اور اُس میں سے بخارات اٹھ رہے ہوتے۔

  (صفۃ الصفوۃ  ، عامر بن عبد قیس ،ج:۲،ص:۱۲۲)
عبادات سے محبت کا عالَم
حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں:جب  حضرت سیِّدُنا عامربن عبد قیس کی وفات کا وقت قریب آیا  توآپ رونے لگے۔آپ سے پوچھا گیا:آپ کو کیا چیز رُلا رہی ہے ؟ فرمایا:میں موت کے خوف و ڈر کی وجہ سے اور دنیاپرحریص ہونے کی وجہ سےنہیں رو رہا بلکہ میں تواس وجہ سے رو رہا ہوں کہ (بحالتِ روزہ)گرمیوں کی دوپہر میں پیاس  برداشت کرنا، سردیوں کی راتوں میں قیام کرنا مجھ سے چھوٹ جائے گا ۔(الزھد لابن مبارک، رقم:۲۸۰،ج:۱،ص:۹۵)
وصال:آپ کا وصال حضرت معاویہ کے دورِ خلافت میں ہوا ، اور آپ کا مزارِ پر انوار بیت المقدس میں ہے ۔(سیر اعلام النّبلاء ، ۳۷۱۔عامر بن عبد قیس،ج:۵،ص:۶۶)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :