حضرت امام جعفر صادِق

منگل 9 مارچ 2021

Abu Hamza Mohammad Imran Attari

ابو حمزہ محمد عمران مدنی

ولادت :حضرت امام جعفر صادِق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وِلادت۱۷ ربیع النّور ۸۳؁ ھ پیر کے دن مدینۃ المنورہ میں ہوئی ۔
کنیت والقاب :آپ کی کنیت ابوعبداللہ اور ابواسماعیل جبکہ لقب صادق،فاضل اور طاہر ہے۔
سلسلۂ نسب :آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرتِ سیِّدُناامام محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے صاحبزادے ہیں ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ حضرتِ امّ فردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا امیرالمؤمنین حضرتِ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پوتی تھیں۔


عبادت و ریاضت :امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظاہری وباطنی علوم کے جامع تھے اور ریاضت وعبادت اور مجاہدے میں مشہور تھے ۔ امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے :میں ایک زمانے تک آپ کی خدمتِ مبارکہ میں آتا رہا ۔

(جاری ہے)

میں نے ہمیشہ آپ کو تین عبادتوں میں سے کسی ایک میں مصروف پایا ،یاتو آپ نماز پڑھتے ہوئے ملتے یاتلاوتِ قراٰن میں مشغول ہوتے یا پھر روزہ دار ہوتے ۔


 روشن ضمیری :ایک مرتبہ امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تنہا ایک گدڑی پہنے مدینہ طیبہ سے کعبہ معظمہ کو تشریف لیے جاتے تھے اور ہاتھ میں صرف ایک تاملوٹ( یعنی ڈونگا)۔شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے دیکھا تو دل میں خیال کیا کہ یہ فقیر اوروں پر اپنا بار( یعنی بوجھ) ڈالنا چاہتا ہے ۔ یہ وسوسہ شیطانی آناتھا کہ امام نے فرمایا: ''شقیق !بچو گمانوں سے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔

''نام بتانے اور وسوسہ دلی پر آگاہی سے نہایت عقیدت ہوگئی اور امام کے ساتھ ہولیے۔ راستے میں ایک ٹیلے پر پہنچ کر امام نے اس سے تھوڑا ریت لے کرتاملوٹ میں گھول کر پیا اورشقیق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی پینے کو فرمایا۔ انہیں انکار کا چار ہ نہ ہوا ۔ جب پیاتو ایسے نفیس لذیذ خوشبو دار سَتُّو تھے کہ عمر بھر میں نہ دیکھے، نہ سنے ۔ (ملفوظات اعلی حضرت :ص:۲۹۵)
اللہ پاک کے ساتھ عاجزی و بندگی کا تعلق :    ایک روز شقیق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مسجد حرام شریف میں دیکھا کہ وُہی صاحب بیش بہا ( یعنی قیمتی) لباس پہنے درس دے رہے ہیں ۔

لوگو ں سے پوچھا :یہ کون بزرگ ہیں؟ کسی نے کہا : رسول اللہﷺ کے بیٹے امام  جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں ۔ جب تنہائی میں ملاقات ہوئی، انہوں نے عرض کیا:حضرت یہ کیابات ہے کہ راہ میں آپ کوایک گُدڑی پہنے دیکھا تھا اور اِس وقت یہ لباس دیکھ رہا ہوں ؟ آپ نے دامن مبارک اٹھایا کہ وہی گدڑی نیچے زیبِ تن ہے اور فرمایا کہ وہ تمہارے دکھانے کو ہے اور یہ گدڑی اللہ  پاک کے لیے ۔

(تذکرۃ الاولیاء ذکر امام جعفر صادق ,صفحہ۲۲ ملخصًّا)
قبولیت دعا کا وظیفہ :امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے: ''جو شخص عجز کے وقت پانچ بار ''یَا رَبَّنَا'' کہے، اللہ تعالیٰ اسے اس چیز سے جس کا خوف رکھتا ہے، امان بخشے اور جو چیز چاہتا ہے، عطا فرمائے پھر یہ آیتیں تلاوت کیں: (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا) إلی قولہ تعالی: (اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ) اور اَسمائے حُسنیٰ کا فضل خود پوشیدہ نہیں۔

(پ۴، اٰل عمران: ۱۹۱-۱۹۴)(فضائل دعا،ص:۷۱)
امام کی سیرت قرآن پاک کی عملی تفسیر
امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک غلام نے ایک طشت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ دھلواتے ہوئے ان پر پانی بہایا تو وہ پانی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑوں پر بھی جاگرا، امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے تیز نظر ں سے دیکھا ، غلام نے یہ کہنا شروع کیا :''میرے آقا!  وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ( اور غصہ پینے والے) ابھی اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' میں نے اپنا غصہ پی لیا۔

''غلام نے پھرکہا: '' وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ    (اورلوگوں سے در گزر کرنے والے) ''آپ نے فرمایا: ''میں نے تجھے معاف کیا۔''غلام نے عرض کی: '' وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں)(پ ۴، آل عمران: ۱۳۴ )    تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :'' جا، تو اللہ عزوجل کے لئے آزاد ہے اور میرے مال میں سے ایک ہزار دینار تیرے ہیں۔

''(آنسووں کا دریا،ص:۲۷۴)
فکرِآخرت:  حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو قبرستانوں میں تشریف لے جایا کرتے اور فرماتے کہ اے قبر والو! کیا بات ہے کہ میں تم لوگوں کو پکارتا ہوں تو تم لوگ کوئی جواب نہیں دیتے ہو؟ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے:افسوس ! کہ میرے اور تمہارے درمیان ایسا حجاب ہوگیا ہے۔ لیکن آئندہ میں بھی تمہارے ہی جیسا ہوجانے والا ہوں۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی کلمات فرماتے رہتے یہاں تک کہ صبح صادق نمودار ہوجاتی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز فجر کے لیے مسجدمیں تشریف لے جاتے۔(1)(احیاء العلوم مترجم : ج۴ص۴۱۳)
امام جعفر صادق کے اقوال :
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''اللہ تعالی جن  لوگوں کی دعا قبول نہیں فرماتا ان میں سے یہ بھی ہیں ۔

    اور ایک وہ جو اپنے گھر میں منہ پھیلائے بیٹھا رہے کہ اے رب میرے! مجھے روزی دے، اللہ عزوجل فرماتا ہے: کیا میں نے تجھے رزق ڈھونڈنے کا حکم نہ دیا؟ تو نے میرا اِرشاد نہ سنا:(فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ) ''پھیل جاؤ زمین میں اور ڈھونڈو فضل اللہ کا۔'' (پ ۲۸، الجمعۃ: ۱۰)
    دوسرا وہ جس نے اپنا مال فضول خرچیوں میں کھو دیا، اب کہتا ہے:اے رب! مجھے اور دے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:کیا میں نے تجھے میانہ روی کا حکم نہ دیا تھا؟ کیا تو نے میرا اِرشاد نہ سنا تھا؟ (وَالَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمْ یُسْرِفُوۡا وَلَمْ یَقْتُرُوۡا وَکَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا )
اور رحمن کے وہ بندے جو جب خرچ کرتے ہیں تو نہ تو حد سے بڑھتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں بلکہ وہ ان دونوں حدوں کے درمیان راہِ اعتدال پر رہتے ہیں ۔


    تیسرا وہ کہ ایسے لوگوں میں مقیم رہے جو اسے ایذا دیتے ہیں اور دعا کرے:اے رب میرے! مجھے ان کے شر سے کفایت کر، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:کیا میں نے تجھے ہجرت کا حکم نہ دیا؟ کیا میرا اِرشاد نہ سنا: (اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوۡا فِیۡہَا)
کیا اللہ کی زمین کشادہ نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ۔ (فضائل دعا،ص:۷۱، ملتقطاً)
ایک مرتبہ امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اپنے معاملات میں ان لوگوں سے مشورہ طلب کرو جو اللہ کا خوف رکھتے ہیں ۔

(راہِ علم ،ص:۲۹)
تمہارے جسموں کی قیمت جنت کے سوا اور کوئی نہیں تو تم اپنے جسموں کو جنت کے بدلے ہی بیچو۔(صراط الجنان ،ج:۴،ص:۲۴۶)
پانچ قسم کے آدمیوں کی صحبت اختیار نہ کرو: (1) بہت جھوٹ بولنے والا شخص،کیونکہ تم اس سے دھوکہ کھاؤ گے ،وہ سراب (یعنی صحراء میں پانی نظر آنے والی ریت ) کی طرح ہے،وہ دور والے کو تیرے قریب کر دے گا اور قریب والے کو دور کر دے گا۔

(2) بے وقوف آدمی، کیونکہ اس سے تمہیں کچھ بھی حاصل نہ ہو گا، وہ تمہیں نفع پہنچانا چاہے گا لیکن نقصان پہنچا بیٹھے گا۔ (3) بخیل شخص، کیونکہ جب تمہیں اس کی زیادہ ضرورت ہو گی تو وہ دوستی ختم کر دے گا۔ (4) بزدل شخص، کیونکہ یہ مشکل وقت میں تمہیں چھوڑ کر بھاگ جائے گا۔ (5) فاسق شخص، کیونکہ وہ تمہیں ایک لقمے یا اس سے بھی کم قیمت میں بیچ دے گا۔ کسی نے پوچھا کہ لقمے سے کم کیا ہے؟آپنے فرمایا ’’لالچ رکھنا اور اسے نہ پانا۔

(صراط الجنان ،ج:۴،ص:۲۵۸)
حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں ’’ اے فرزند ِآدم! کسی چیز کے فُقدان پر کیوں  غم کرتا ہے؟ یہ اس کو تیرے پاس واپس نہ لائے گا اور کسی موجود چیز پر کیوں  اِتراتا ہے؟ موت اس کو تیرے ہاتھ میں  نہ چھوڑے گی۔(تفسیر المدارک، الحدید، الآیۃ: ۲۳، ص۱۲۱۱-۱۲۱۲)
 اللہ پاک  نے تین چیزیں تین چیزوں میں چھپا رکھی ہیں اپنی رضا کو اپنی اطاعت میں تو کسی نیکی کو حقیر نہ جانو ممکن ہے اس کی رضا اسی میں ہو اور اپنے غضب کو اپنی نافرمانی میں پوشیدہ رکھا ہے تو کسی گناہ کو ہلکا نہ جانو ممکن ہے اس کا غضب اسی میں ہو اور اپنی ولایت کو اپنے بندوں میں چھپا رکھا ہے تو کسی کو حقیر نہ جانو ممکن ہے وہ اللہ پاک  کا ولی ہو۔

“مزید فرمایا کہ قبولیت کو دعا میں پوشیدہ رکھا ہے تو دعا کبھی نہ چھوڑو قبولیت کی گھڑی کوئی بھی ہوسکتی ہے۔(احیاء العلوم  مترجم ،ج:۴،ص:۱۴۹)
وصال و تدفین : سلطنت عباسیہ کے خلیفہ دوم ابو جعفر منصور بن ابو العباس السفاح کے عہد میں  ۱۵ رجب المرجب ۶۸ سال کی عمر میں زہر سے مدینہ منورہ میں وصال فرمایا ۔اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :