سول بالا دستی کی "تحریک"

جمعرات 19 جولائی 2018

Abu Muhammad

ابو محمد

پاکستان کے منتخب عوامی نمائندوں کی طرف سے سول بالا دستی کی دہائیاں ہر سُو پھیل چکی ہیں اور ماضی تا حال قدم قدم پر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، "خلائی مخلوق" یا "محکمہ زراعت" والے عوامی نمائندوں کے لیے فرائض کی انجام دہی میں روڑے اٹکاتے رہے ہیں اور تا حال اٹکا رہے ہیں۔ پاکستان میں سول بالا دستی کی "تحریک" میں کتنا دم خم ہے، درج ذیل تین حقائق سے واضح ہوجاتا ہے:
1: جب تک "جمہوریت دشمن عناصر" عوامی بالا دستی کے علَم برداروں کے مخالفین کے خلاف سر گرم رہتے ہیں، تب تک سول بالا دستی خطرے سے دوچار نہیں ہوتی (حالانکہ مخالفین بھی عوامی نمائندے ہی ہوتے ہیں)، لیکن جیسے ہی اِن علَم برداروں کے خلاف کوئی "سازش" معرض وجود میں آتی ہے تو فوراً عوامی بالا دستی خطرات کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ شور مچایا جاتا ہے کہ حکومت "اوپر" سے چلائی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)


2: سول حکومت مضبوط ہو جائے تو جمہوریت کمزور ہو جاتی ہے۔ اس "حسنِ اتفاق" کی وجہ شاید یہ ہے کہ جب بھی پاکستان میں جمہوری حکومت آتی ہے تو عوام کے خادم "خدمت" میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں کہ عوامی ڈکٹیٹر کے رتبے سے سر فراز ہونے کی سعی میں لگ جاتے ہیں، یا پھر دوسرے لفظوں میں عوام کی فلاح وبہبود کے لیے بنائے گئے اداروں کو "اپنی خدمت" کے عوض اس قدر کمزور کر دیتے ہیں کہ الامان والحفیظ! آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب "اوپر" والے صرف اپنے آپ کو طاقت کا مرکز بنا لیں تو وہ ڈکٹیٹر کہلاتے ہیں، لیکن جب عوامی خادم جمہور کو چھوڑ کر اپنے آپ کو طاقت کا واحد مرکز بنالیں تو کوئی حرج نہیں، کیوں کہ عوام تو کالانعام ہوتے ہیں! اور اگر عوامی خدام کو اپنے "نیک اعمال" کی ناکامی یا راز افشا ہوتے نظر آئیں، یا جواب دہی پر مجبور کیا جائے تو سول بالا دستی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
(3) سول حکومت کو عوام کی "خدمت" کے لیے تو فری ہینڈ مل جاتا ہے لیکن سول بالادستی کے قیام کے لیے "فری ہینڈ" میسر نہیں آتا۔ اس "سوئے اتفاق" کی اصل جاننے کے لیے درج بالا دونوں حقائق دوبارہ پڑھ لیے جائیں تو حقیقت واضح ہو جائے گی۔
ان زمینی حقائق سے آگاہی کے بعد سول بالا دستی کے علَم برداروں کے لیے دو ہی راستے باقی بچتے ہیں:
(1) عوامی خادم جس طرح کی بالا دستی کا خواب دیکھتے ہیں، جدید جمہوریت کے ہوتے ہوئے اس کا وجود تو صرف "عنقا" ہی ہے۔

لہذا ان کے لیے عوامی عہدوں کو چھوڑ کر گھر چلے جانا ہی واحد راستہ معلوم ہوتا ہے۔ بصورت دیگر یہ بھی ممکن ہے کہ عوام اپنے نمائندوں کی محبت میں خود ہی اس انقلاب کا علَم تھامے اپنے گھروں سے نکل پڑیں اور اس "عنقا" کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے یہ کہتے پائے جائیں کہ جس طرح کی عوامی بالادستی ہمارے خادم چاہتے ہیں، ہمیں وہ دل وجان سے "قبول ہے، قبول ہے، قبول یے۔

"
(2) عوامی نمائندوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اخلاقی طور پر صرف اتنا برتر بنا لیں کہ کم از کم "میر تیر" کو پس پشت ڈالتے ہوئے سول یا آئین کی بالا دستی کی بات کر سکیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب زمینی مخلوق یا "کمائی مخلوق" خود اپنی اصلاح کر لے گی تو "خلائی مخلوق" کو یہ "فریضہ" سر انجام دینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ صرف اُس عوامی بالا دستی کے خواب دیکھے جائیں، جو دنیا کے دیگر جمہوری ممالک میں نافذ ہے۔
خلاصئہ تحریر کچھ اس طرح ہے کہ پاکستان میں سول بالا دستی کے "جن" کو بوتل میں بند کرنے کی بابت عوام کے خادموں کا کتنا کردار ہے، اس کو جان لینے کے بعد اس حقیقت کو جان لینا ضروری ہے کہ دنیا کے کسی بھی عوامی نمائندوں کی حکومت والے ملک میں درِ پردہ "اوپر" والوں کا اثر ورسوخ بھی قائم ہوتا ہے۔

فرق صرف اتنا ہے کہ ملک پاکستان میں اس اثر ورسوخ یا طاقت کو باقاعدہ نشانہ بنایا جاتا ہے، جب کہ دیگر ممالک میں ایسا رویہ اپنانے کی "اجازت" نہیں دی جاتی۔ مختصرا پاکستان کے علاوہ دیگر جمہوری ممالک میں جمہور کے نمائندوں کے علاوہ بھی طاقت کے مراکز کا وجود ایک حقیقت ہے، جس سے انحراف ممکن نہیں۔ البتہ اس بات کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے کہ مختلف طاقت کے مراکز کے ما بین توازن کس طرح قائم رہ سکتا ہے اور حدود کا تعین اور اس پر عمل در آمد کس طرح ممکن ہو سکتا ہے، لیکن اس بارے دو رائے کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ صرف اسٹیبلشمنٹ، "خلائی مخلوق" یا "محکمہ زراعت" کی وجہ سے سول بالا دستی قائم ہونے سے قاصر ہے۔

اس رائے کے متاثرین کے لیے ضروری ہے کہ وہ درج بالا معروضات کے تحت اپنے نظریات کا جائزہ لیں اور بطور ذکر خاص معاصر دنیا کی جدید جمہوریت میں ایک سے زائد طاقت کے مراکز کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد سول بالادستی کی "تحریک" کا منصفانہ تجزیہ فرمائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :