اے امت مسلمہ ذرا بیدار تو ہوں‎

منگل 25 مئی 2021

Afifa Tariq

عفیفہ طارق

ہم بہت ہی خوش قسمت ہیں جو ایک ایسی امت میں اس دنیا میں آئےجس کے سربراہ آقا دوجہاں محبوب خدا محمد مصطفی صلی الله عليه واله وسلم ہیں جہنوں نےاپنی امت کی خاطر اپنی جان کی پرواہ نہیں کی اور سب کچه وار دیانواسہ رسول گوشہ بتول نے اپنی جا نیں نانا کے دین کے لیے قربان کر دی کیونکہ وہ جانتے تهے کہ میرے نانا کی امت میں کچهہ لوگ کچهہ قومیں کچهہ مذہب ایسے بهی ہوں گےجو مسلمانوں پر ظلم و تشدد کریں۔


اگر کشمیر کے نوجوانوں بچوں بوڑهوں اور عورتوں کو دیکها جائے تو ان کی حالت نا قابل برداشت ہو تی ہےتقر یبا دو سال کا دورانیہ گزر چکا ہےاس دوران مکمل لاک ڈاون چل رہا ہے نا ہی ان کے پاس کهانے کو کچهہ ہے اور نا ہی پینے کو کچهہ  میں سو چوں بهی تو میری سوچ کے بالا تر بات ہےکہ میرے مالک نےان کو زندہ کیسے رکها ہوا ہے لیکن میرے اللہ کی لاٹهی با آواز ہے کیوںکہ اللہ ذوالجلال تو اپنے بندوں کا ساتهہ دیتا ہے
حضور نبی مکرم صلى الله عليه واله وسلم نے ارشاد فرمایا:
"کہ مسلمان مسلمان آپس میں بهائی بهائی ہیں"
تو پهر ہمیں یہ بات گوارہ ہے کہ ہمارے بهائی خون میں نہا رہے ہوں تو ہم یوں ہاتهہةر پہ ہاتهہ رکهہ کر بیٹهے رہیں اگر ہم اپنے بهائیوں کا ساتهہ نہیں دیں گے تو میرا رب تو ہے جو کسی حال میں بهی اپنے بندے کو اکیلا نہیں چهوڑتاکیوں کہ جب سب ساتهہ چهوڑ جاتے ہیں تو اللہ ہی کی ذات واحد ہے جو بندے کا ساتهہ دیتی ہے۔

(جاری ہے)


اللہ تعالی نے پوری انسانیت کے اوپرکرونا جیسا وبائی مرض بهیجا تاکہ جو لوگ میرےبندوں پر ظلم و تشدد کر تےہیں شاید ہی وہ سید هی راہ پر آ جائیں اور سب سے زیادہ مرض پهیلا بهی تو ہندوستان میں ہی لیکن اس کے با وجود انہوں نے کشمیری عوام کو سکهہ کا سانس نہیں لینے دیا۔
کشمیر اور کرونا کا مسئلہ ابهی ختم ہونے کو ہی نہیں پہنچا تو ساتهہ ہی ایک اور واقعہ رو پذیر ہوا جو عالم اسلام کے لئےپر نم ہے آخر ہو کیا رہا ہے کیا یہ ہمارے ہی گناہوں کی سزا ہے؟کیا دوسری امتو ں کی طرح امت محمدیہ پر عذاب ہی کی صورت ہے؟لیکن اس کے باوجود ہم کچهہ نہیں کر رہےیہ واقعات اپنے احتتام کو ہی نہیں پہنچا۔

 
                  اسرائیل نے فلسطین پر ظلم و تشدد شروع کر د یا ہے معصوم بچے اپنی جانیں قر بان کر تے نظر آرہے ہیں خوش قسمت ہیں وہ بستیاں جنہیں رب تعالی اپنے مقامات کے لئے چن لیتا ہے فلسطین میں ہر چهو ٹے بڑے کا خون ایسے بہتا ہوا نظر آرہا جیسے عیدالاضحی کے دنوں میں قربانی کے جانوروں کا خون نظر آتا ہے
مسجد اقصی کی جس طرح بے حر متی کی جا رہی ہے کیا اس کو دیکهہ کر سکون کی نیند سو نا چا ہیے بلکل نہیں ارے امت مسلمہ ذرا بیدار تو ہوں جس طرح مسجد اقصی جو کہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہےاگر ہم دنیا بهر کے مسلمان اس کی خفاظت نہیں کر سکے تو کل کو کیا ہم بیت اللہ شریف کی خفاظت کر سکیں گےبلکل نہیں! ہمیں ابهی سے اپنے دین کے لئے لڑ نا ہو گا ہمیں قبلہ اول کو بچا نا ہو گا ہمیں فلسطین کے مسلما نو ں کے سا تهہ کهڑے ہو کر کفار کا مقا بلہ کرنا ہو گا ان کو بتانا ہو گا کہ ایک مسلمان کی جا ن پر حملہ دنیا بهر کے مسلما نوں کی جا نوں پر حملہ ہے۔


ہمیں اپنے ذہن کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ جو ابهی سے مسلم ممالک ہی مسلمانوں کا ساتهہ نہیں دے رہے کل کو کیا وہ بیت اللہ کی خفاظت کر سکیں گے ہمیں اس بات کو د یکهہ کر یک جان ہو نا ہے اور مل کر ان درندوں کا مقابلہ کرنا ہو گا کیو نکہ یہ درندے امریکی صدر کے آگے مجبور ہیں جس کی وجہ سے ان کی گولیاں ٹهہر نہیں سکتی ۔ان  کو بتانا ہے کہ اپ کو ایک ایسے شحص کا سہارا جو اپنی جان کی بهی خفاظت نہیں کر سکتاتو امت مسلمہ کے ساتهہ ایک ایسی ذات ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے جو واحدہ لاشریک ہےاگر اس پاک ذات کا ساتهہ شامل حال ہو تو کوئی چیز آپ کو کسی قسم کے مقابلہ سے روک نہیں سکتی۔


کیا آپ جانتے ہیں کہ بیت المقدس کی بے حرمتی کب سے شروع ہے، چلیں میں آپ کو بتاتی چلوں کہ
پاکستان 14 اگست 1947ء کو بنا اور  14 مئی 1948ء کو رات دس بجے چند یہودیوں نے فیصلہ کیا کہ ہم فلسطین کے اندر جائیں گےاور آپ جانتے ہیں کہ ہیلوکاسٹ انگریزوں نے کیا تها اگر ان کو بدلہ لینا تها تو انگریزوں سے لیتے لیکن یہودیوں نے فیصلہ کیا کہ ہم فلسطین کے اندر جائیں گے اور اپنی ریاست قائم کریں گے14 مئی کو جب انہوں نے فیصلہ کیا اس وقت یونائیٹد نیشن کا جو اجلاس تها وہ ہورہا تهااس وقت یا اس کے بعد جتنا خون بہا میں اس کی بات نہیں کرتی بلکہ میں یہ کہتی ہوں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک لاکهہ چوبیس ہزار پیغمبروں نے ماتها اور ناک زمین پر لگایا ہے آج اگر ہما رے پاس  آقا صلى الله عليه واله وسلم کی کو ئی چیز آجائے تو ہم اس پر گندی نظر بهی نہیں پڑنے دیتے ہم کہتے ہیں گستاخی ہوگی یہ وہ جگہ ہے جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےاپنا ناک اور ما تها زمین پر لگایایہ ساری باتیں بتا نے کا مقصد پتہ کیا ہے 1948ء میں یہودیوں نے جب قبضہ کیااس نے ہمیں غیرت دلانے کے لئے ساری عورتوں کو اکٹها کیا اور کہا کہ اپنا لباس اتار دواور جب ساری عورتیں بچیاں بے پردہ  ہو گئ تو اس نے کہا اب اس جگہ کا طواف کرو جہاں تمہارے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سجدہ کیا تهاتو ان عورتوں نے بے پردگی میں اس جگہ کا طواف کیا تو اس ساری مملکت میں کوئی غیرت مند مرد نہیں تها جو اٹهہ سکتا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے کو ئی روک نہیں سکا اور بیت المقدس قبلہ اول ہے  اگرآج ہم وہاں بے پردہ عورتوں کےناچ گانوں کو نہیں روک سکےتو کل کو ہم کیا کریں گے،کیونکہ وہ مسلمانوں کی غیرت کو پامال کر رہے ہیں ۔


 1948ء سے 2014ء تک صرف ایک غیرت مند مرد امام سومئی  ہے جس نے اسرائیل کے خلاف ایک بیان دیا : "جس نے کہا کہ مسلمانوں کے سینے میں خنجر کی طرح ہے اسرائیل" ۔اور آج 2021ء میں کچهہ ممالک  ترکی ،پاکستان، ملائیشیا وغیرہ صرف سوشل میڈیا پر ہی بیانات جاری کر رہے ہیں جو یہودیوں ہی کی بنائی ہوئی ہے ارے اس سے بهی تو انہی ہی کو فا ئدہ ہے اب بات اتنی آگے پهنچ گئی ہے اب یہاں بیٹهہ کر بیان نہیں دینے ہونگے بلکہ یک جان ہو کر کچهہ ایسا قدم اٹهانا ہوگا کہ ان  کو نست و نابود کر دیا جائے اور ہم ابهی تک کچهہ نہیں کر سکے ہم بے شرم اس لئے ہو گئے ہیں کہ ہم مسلکوں میں بٹ گے ہیں  یااللہ بیتالمقدس کی اور مسلمانوں کی خفاظت فرما اور کفار کو نست و نابود کر۔

(آمین )جو اللہ کے راستے میں اپنی جانیں قربان کر ر یں ان کو میں سلام عقیدت پیش کرتی ہوں۔
میں جہاں پر بهی گیا ارض وطن
تیری تذلیل کے داغوں کی جلن دل میں لئے
تیری حرمت کے چراغوں کی لگن دل میں لئے
تیری الفت، تری یادوں کی کسک ساتھ گئی
تیرے نارنج شگوفوں کی چمک ساتھ گئی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :