
کھٹے آم
ہفتہ 3 اپریل 2021

عائشہ سلیری
موسم سرما کا آغاز اور کچے آم ۔ جب تازہ تازہ مرطوب ہوا درختوں پر لگے ہرے بھرے آموں سے ٹکراتی ہے تو فضا تُرش گرم کے امتزاج سے مہک جاتی ہے۔ کچھ عرصہ پیشتر اور اب بھی بعض علاقوں میں اس موسم کی حدّت کو بالٹیوں میں برف ڈلے آموں سے لطف اندوز ہو کر گزارا جاتا تھا۔ تاہم بچے اس انتظار اور تکلف میں نہیں پڑتے تھے اور درختوں پر چڑھتے دوڑتے ُامبییوں ٗ کا مزہ لیا کرتے تھے،اور کبھی پکڑے جانے پر اِس کھٹائی کا مزہ کُٹائی سے دوبالا بھی ہو جاتا تھا۔
معروف صحافی اور کالم نگار رؤف کلاسرا سمیت بعض لوگوں نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے ُ توسط ٗ ملتان میں ُ قتلِ آم ٗ کی طرف توجّہ مبذول کی ہے کہ ملتان کی بڑھتی ہوئی رہائشی کالونیوں کے نتیجے میں یہاں آموں کے باغوں کو اُجاڑا جا رہا ہے ۔
صرف کچھ عرصہ پہلے تک ایک ڈیفنس سوسائٹی کا ہی پتہ تھا جو تن تنہا نظر آتی تھی۔، لیکن جیسے ہی مَلِک ریاض کی معروف بحریہ ٹاؤن وجود میں آئی تو اس ُجوڑی ٗ نے سنپولوں کی طرح جنم دیا ۔ حکومت کی توجہ صرف کنسٹرکشن پر ہے، اور کنسٹرکشن والوں کی توجہ رہائشی کالونیوں پر۔لگتا ہے پاکستان میں اب یہی کام ہو رھا ہے؛ کوئی بنا رہا ہے تو کوئی خرید رہا ہے۔ آج یہ کہنا بجا ہے کہ مملکت ِ خداداد اب ان پرائیویٹ رہائشی کالونیوں کا مرکّب ہے۔
حیرت انگیز طور پر سول سوسائٹی ، مین سٹریم میڈیا ، ہر موقع پر پیٹیشن ڈالتے وکلاء اور از خود نوٹس لینے والے ججوں نے اس انتہائی غور طلب مسئلے کی طرف توجّہ مبذول نہیں فرمائی۔ شاید ان میں سے اکثر خود کسی نہ کسی طرح اِس ُپرائیویٹ ہاؤسنگ ٗ سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں یا خود ان کی رہائش ادھر ہے۔ نچلے طبقے کو چھوڑ کر جس کے پاس گھر بنانے جتنا پیسہ آیا، اس نے بے ہنگم گھروں ، ختم ہوتی گلیوں ، ابلتے گٹروں اور ناقص سیکورٹی والے محلّوں کو چھوڑ کر اِن رہائشی کالونیوں میں ُپناہ ٗ لی۔ انتہائی نچلے طبقے کے لیے حکومت اب شیلٹر ہومز بنا رہی ہے۔ یعنی اب پورا ملک ہی پناہ گاہوں کا امتزاج ہے۔ کہیں ریڈزون ایریاز ، کہیں ہاؤسنگ سوسائٹیز اور کہیں احساس پروگرام کے شیلٹر ہومز۔
ابھی چند ماه قبل سیالکوٹ جانے کا اتفاق ہوا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ چھوٹا سا شہر جو اِرد گرد دیہاتوں کے بیچ میں واقع تھا اور مشہور ُڈرمّاں والے چوک ٗ سے گھوم پھر کر وہیں ختم ہو جاتا تھا، اب وہاں اِرد گرد کھیتوں ، نالوں اور گٹروں تک کے اوپر طرح طرح کے ناموں کی سوسائٹیز کے ڈرم بجتے ہیں۔ وہ چوک جو سیالکوٹ شہر کی نشانی اور نمایاں پہچان تھا، اب سوسائٹیز کے بیچ ایک نشان ہی بن کر رہ گیا ہے۔
کلاسرا صاحب نے آموں کے حوالے سے ملتان کا ذکر کیا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ملتان کی دو چیزیں خاص شہرت حامل ہیں: گرمی اور آم۔ آم یوں تو بہت سے علاقوں میں کاشت کیے جاتے ہیں ، لیکن اپنے الگ ذاٰؑٓءیقے اور خاص کر ملتانیوں کی مہمان نوازی کے با وصف ایک خاص پہچان رکھتے ہیں ۔خیر ان باغوں کے اجڑنے کے بعد نہ رہیں گے آم، نہ ملک کے طول و عرض میں بھیجے جانے والی ملتانی پیٹیاں اور نہ ہی مہمان نوازی۔ اس کے بعد اب گرمی ہی باقی رہ جائے گی، بلکہ اُجڑے درختوں اور لوہا کنکریٹ کی بدولت شدید گرمی۔ بحرحال ان رہائشی کالونیوں کے مالکان اور مکین اپنے ٹھنڈے گھروں اور کمروں میں اِس ٹینشن سے محفوظ رہیں گے۔ ۔۔کب تک؟
لگتا یہی ہے کہ ایسے بنیادی مسئلے میں پانی سر سے گزرتا جا رہا ہے، اور کچھ دردمند و ہوشمند سواۓ کُڑھنے اور خون جلانے کے کر ہی کیا سکتے ہیں۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ کسان اپنی کم آمدنی کی بدولت زمین بیچنے میں عافیت جان رہا ہے، تو مڈل کلاس اپنا ٹھکانہ محفوظ کر رہی ہے۔اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ چھوڑیں جی بننے دیں یہ ُماڈرن پناہ گاہیں ٗ ۔ ویسے بھی اِس موسم میں آم کھٹّے ہی ہوتے ہیں!
معروف صحافی اور کالم نگار رؤف کلاسرا سمیت بعض لوگوں نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے ُ توسط ٗ ملتان میں ُ قتلِ آم ٗ کی طرف توجّہ مبذول کی ہے کہ ملتان کی بڑھتی ہوئی رہائشی کالونیوں کے نتیجے میں یہاں آموں کے باغوں کو اُجاڑا جا رہا ہے ۔
(جاری ہے)
مُلتان شہر جو یہاں لگے آموں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے ، نہ صرف یہ تعمیرات شہنشاہی پھل اور اس شہر کی خاص نشانی کی تباہی کا ذریعہ ہیں بلکہ ملکی زراعت ، آباد زمین کا بھی نوحہ ہیں۔
چھوٹے کسانوں سے لے کر کالونیوں کے بڑے بڑے مالکوں تک ہر کوئی اپنے چھوٹے بڑے ُ قریبی ٗ مفاد کے لئے اِس ظلم اور ناقص منصوبہ بندی میں شریک ہے اور معاشرے کے مجموعی مستقبل اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک خاموش تباہی سے صرف نظر کیے ہٰوٰۓ ہے۔صرف کچھ عرصہ پہلے تک ایک ڈیفنس سوسائٹی کا ہی پتہ تھا جو تن تنہا نظر آتی تھی۔، لیکن جیسے ہی مَلِک ریاض کی معروف بحریہ ٹاؤن وجود میں آئی تو اس ُجوڑی ٗ نے سنپولوں کی طرح جنم دیا ۔ حکومت کی توجہ صرف کنسٹرکشن پر ہے، اور کنسٹرکشن والوں کی توجہ رہائشی کالونیوں پر۔لگتا ہے پاکستان میں اب یہی کام ہو رھا ہے؛ کوئی بنا رہا ہے تو کوئی خرید رہا ہے۔ آج یہ کہنا بجا ہے کہ مملکت ِ خداداد اب ان پرائیویٹ رہائشی کالونیوں کا مرکّب ہے۔
حیرت انگیز طور پر سول سوسائٹی ، مین سٹریم میڈیا ، ہر موقع پر پیٹیشن ڈالتے وکلاء اور از خود نوٹس لینے والے ججوں نے اس انتہائی غور طلب مسئلے کی طرف توجّہ مبذول نہیں فرمائی۔ شاید ان میں سے اکثر خود کسی نہ کسی طرح اِس ُپرائیویٹ ہاؤسنگ ٗ سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں یا خود ان کی رہائش ادھر ہے۔ نچلے طبقے کو چھوڑ کر جس کے پاس گھر بنانے جتنا پیسہ آیا، اس نے بے ہنگم گھروں ، ختم ہوتی گلیوں ، ابلتے گٹروں اور ناقص سیکورٹی والے محلّوں کو چھوڑ کر اِن رہائشی کالونیوں میں ُپناہ ٗ لی۔ انتہائی نچلے طبقے کے لیے حکومت اب شیلٹر ہومز بنا رہی ہے۔ یعنی اب پورا ملک ہی پناہ گاہوں کا امتزاج ہے۔ کہیں ریڈزون ایریاز ، کہیں ہاؤسنگ سوسائٹیز اور کہیں احساس پروگرام کے شیلٹر ہومز۔
ابھی چند ماه قبل سیالکوٹ جانے کا اتفاق ہوا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہ چھوٹا سا شہر جو اِرد گرد دیہاتوں کے بیچ میں واقع تھا اور مشہور ُڈرمّاں والے چوک ٗ سے گھوم پھر کر وہیں ختم ہو جاتا تھا، اب وہاں اِرد گرد کھیتوں ، نالوں اور گٹروں تک کے اوپر طرح طرح کے ناموں کی سوسائٹیز کے ڈرم بجتے ہیں۔ وہ چوک جو سیالکوٹ شہر کی نشانی اور نمایاں پہچان تھا، اب سوسائٹیز کے بیچ ایک نشان ہی بن کر رہ گیا ہے۔
کلاسرا صاحب نے آموں کے حوالے سے ملتان کا ذکر کیا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ملتان کی دو چیزیں خاص شہرت حامل ہیں: گرمی اور آم۔ آم یوں تو بہت سے علاقوں میں کاشت کیے جاتے ہیں ، لیکن اپنے الگ ذاٰؑٓءیقے اور خاص کر ملتانیوں کی مہمان نوازی کے با وصف ایک خاص پہچان رکھتے ہیں ۔خیر ان باغوں کے اجڑنے کے بعد نہ رہیں گے آم، نہ ملک کے طول و عرض میں بھیجے جانے والی ملتانی پیٹیاں اور نہ ہی مہمان نوازی۔ اس کے بعد اب گرمی ہی باقی رہ جائے گی، بلکہ اُجڑے درختوں اور لوہا کنکریٹ کی بدولت شدید گرمی۔ بحرحال ان رہائشی کالونیوں کے مالکان اور مکین اپنے ٹھنڈے گھروں اور کمروں میں اِس ٹینشن سے محفوظ رہیں گے۔ ۔۔کب تک؟
لگتا یہی ہے کہ ایسے بنیادی مسئلے میں پانی سر سے گزرتا جا رہا ہے، اور کچھ دردمند و ہوشمند سواۓ کُڑھنے اور خون جلانے کے کر ہی کیا سکتے ہیں۔ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ کسان اپنی کم آمدنی کی بدولت زمین بیچنے میں عافیت جان رہا ہے، تو مڈل کلاس اپنا ٹھکانہ محفوظ کر رہی ہے۔اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ چھوڑیں جی بننے دیں یہ ُماڈرن پناہ گاہیں ٗ ۔ ویسے بھی اِس موسم میں آم کھٹّے ہی ہوتے ہیں!
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.