حجاب

پیر 6 ستمبر 2021

Ameema Tariq

امیمہ طارق

حجاب  ایک فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی  حیا ،لحاظ اور پردے کے ہیں.
 عربی زبان میں لفظ حجابا آیا ہے جس سے مراد ڈھانپنے کے ہیں۔
اسلام سے قبل عرب  کی تاریخ  میں بے حیائی  کا وہ دور دورہ تھا جو بیان سے باہر ہے۔ وہ خود کو ایسی فرسودہ رسومات میں الجھا چکے تھے جن کی نہ کوئی دلیل تھی نہ ثبوت ،خود ہی قانون بناتے تھے اور خود ہی ان کو لاگو کرتے تھے۔

ہر  تمیز ،ہر لحاظ سے اور ہر حد سے تجاوز کر گئے تھے۔ ایسے میں اسلام کی روشنی نے ان کو اس  جاہلیت کے اندھیروں سے روشنی کا راستہ دکھایا۔ معاشرے میں بے حیائی کے اس ماحول کو حیا کا لبادہ اوڑھا کر آنے والی نسلوں پر  احسان کیا۔
قرآن میں جب پہلی بار حجاب کا حکم آیا تو دنیا کی سب سے پاک عورتوں نے دنیا کے پاکیزہ ترین  مردوں سے پردہ کیا  بغیر کسی سوال ،کسی جرح ،کسی انکار کے،وہ رب کا حکم بجا لانے میں تاخیر کرتے ہی کہاں تھے اور شاید محبت کا تقاضا بھی یہی ہے۔

(جاری ہے)


اگر منطقی دلائل سے بھی اس موضوع پر بات کی جاۓ تو اس حکم کے پیچھے کی حکمت واضح ہوتی ہے۔ قرآن میں سورہٴ  الاحزاب میں پردے کا حکم آیا کہ " اے نبیﷺ اپنی بیویوں سے کہہ  دیں کے اپنی اورھنیاں اپنے چہروں پر دال لیں تاکہ پہچان لی جائیں اور ستائی نہ جائیں"۔
یہاں پہچان لی جائیں سے مراد ہے کہ جب ان کا گزر گلیوں یا بازاروں سے ہو تو شناخت کر لی جائیں کہ انکا تعلق کسی معقول اور عزت دار گھرانے سے ہے ،کسی کی مجال نہ ہو کہ نگاہ اٹھا کر بھی دیکھے اور حجاب کے لبادے کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ سامنے والی کی نگاہ شرم سے جھک جاتی ہے ۔


 آپکو حجاب میں کیسا محسوس ہوتا ہے؟
جب بھی یہ سوال مجھ سے پوچھا جاتا ہے تو میرے ذہن میں  آنے  والی پہلی بات یہ ہوتی ہے کہ میں حجاب میں خود کو محفوظ محسوس کرتی ہوں، جیسے خود کو اللّه کی پناہ اسکے تحفظ میں دے دیا ہو۔بظاہر نظر یہ آتا ہے کہ شاید حجاب ایک قید ہے لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ حجاب تو آزادی ہے ہر بری نگاہ سے ،ہر برے شر سے اور بری سوچ سے۔


لیکن افسوس ہم دنیا کی رنگینیوں میں کھو گئے اور اس دنیا کی چمک نے ہمیں اندھا کر دیا۔ ہم حسن کی اس دوڑ میں بہت آگے نکل گئے۔ اپنی شناخت اپنی پہچان سب مٹا دی۔
انسان کا پہلا تعارف  اس کا لباس ہوتا ہے اور ایک مسلمان عورت کی پہچان اس کی حیا  سے ہوتی ہے ۔ انسان اس بات کا دعوہ کرے کہ وہ اللّه سے محبت کرتا ہے اور پھر اس کے حکم کو ہی پورا نہ کر پاۓ تو میں پوچھتی ہوں کہ یہ کون سی محبت ہے ؟
محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ محبوب کہ رنگ میں رنگ جاؤ تو کیسے ہم اللّه کی محبت کے دعوے دار ہو سکتے ہیں؟ جب ہم اسکا حکم ہی نہ مانیں۔
میں دعا کرتی ہوں کہ اللّه ہم سب کو حجاب کرنے اور اس لبادے کو اپنانے کی توفیق عطاء کریں(آمین)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :