آخر کافر کون ؟

بدھ 2 ستمبر 2020

Ameema Tariq

امیمہ طارق

یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر شاید میں کبھی لکھنا نہیں چاہتی تھی لیکن کچھ ایسے معملات نظروں سے گزرے کہ  میں  اپنے قلم کو نہ روک سکی اور یہ تحریر پیش کر رہی ہوں۔
سب سے پہلے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ ہم دین کہ معاملہ میں اتنے انتہا پسند کیوں ہیں؟ جو مذہب امن و سلامتی کا درس دیتا ہے ہم اسی مذہب کو انتشار پھیلانے کا سبب بنا رہے ہیں آخر کیوں ؟
میرا جتنا مختصر مطالعہ رہا اور میں نے جتنا قرآن ،احادیث اور دینی کتب پڑھیں باالخصوصی طور پر سیرت النبویﷺ  میں نے کہیں دین اسلام کو مشکل نہیں پایا ۔

حضور اکرم ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کی جو بےمثال داستان ہے اس کے کسی ورق پر مجھے  نفرت،کدورت،بغض،حسد ان کا کوئی عنصر نظر نہیں آیا اور ہر بات مجھے ان کی ذاتِ  اقدس  سے محبت پر قائل کرتی چلی گئی انکی ذاتِ پاک کے مختلف پہلو دیکھے   مکی زندگی کا مشکل دور  ،ہجرت کا مشکل وقت ، جنگ بدر کی ثابت قدمی ،جنگ احد کی حکمت عملی ،جنگ خندق کی وہ بھوک پیاس ، فتح خیبر،فتح مکہ،جنگ حنین کی بھگڈر اور پھر آخری خطبہ۔

(جاری ہے)

بہت مشکلات سے دو چار ہوے ،اپنوں کا ساتھ نہ دینا  اور انصاریوں کا اپنا بنا لینا،بھوک ،پیاس ،سفر کی مشکلات پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی تکلیف دہ شہادت ایسا کیا تھا جو آپ نے نہ سہا لیکن کہیں ایک بار بھی مشرکین ،کفار اور منافقین کے لیے تحقیر آمیز جملے اپنی زبان سے ادا نہ کئے چاہے آپ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں ،کسی بھی فرقہ کا حصہ ہوں میری اس بات سے اتفاق کریں گے یہ تو وہ باتیں ہیں جس پر کفار بھی آپ ﷺکی تعریف کرنے پر مجبور ہیں۔


قرآن میں اس بات کا درس تو ملتا ہے کہ  امر بالمعروف و عنہی المنکر  سے کام لینا ہے لیکن کہیں بھی دین فی الجبر کا حکم نہیں دیتا جس نے دین پھیلانے کا  تو مشن سونپا ہے لیکن اس مقصد میں آپ کا کام حق کو حق اور باطل کو باطل کہنا ہے کسی کو مسلمان یا کافر کی سند دینا آپ کے فرائض میں شامل نہیں ہے کیوں کہ نہ تو آپ نے کسی کے  گناہوں کا بوجھ اٹھانا ہے اور نہ سرِمحشر کسی کا حساب دینا ہے ۔

اختلاف کرنا آپ کا بنیادی حق ہے لیکن کسی کے لیے تحقیر آمیز جملے اور گالم گلوج کا استمعال کہیں  آپ کے اپنے ایمان کے لیے مسئلہ نہ بن جاۓ ۔وہ نبی ﷺ جو فتح مکہ کے موقع پر حضرت حمزہ کا کلیجہ چبانے والی ہندہ کو معاف کر دیتےہیں کیا اس نبی کا دین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ان کے صحابیوں کو نفرت و تحقیر کا نشانہ بنایا جائے ؟
آپ کی اپنی مرضی ہے آپ جس طرح اپنی عقیدت و ممحبت کا اظہار کریں۔

لیکن اس بناء پر کہ کوئی ماتم کرتا ہے یا نہیں ،کوئی نیاز کرتا ہے یا نہیں ،کوئی ہاتھ باندھ کر یا چھوڑ کر نماز پڑتا ہے یا نہیں ،کوئی رفع دین کرتا ہے یا نہیں ،کوئی میلاد پڑھتا ہے یا نہیں اسے کافر قرار نہیں دے  سکتے اور نہ ہی اسکی محبت و عقیدت پر شک کر سکتے ہیں
 اللہ نے آپ کو اپنا قبلہ درست کرنے بھیجا ہے دوسروں پر تنقید کرنے نہیں ۔اپنا راستہ سیدھا رکھیں ایک دن تو حق ویسے بھی کھل ہی جانا ہے۔


اللہ بیٹھا ہے اسے حساب کر لینے دیں یہ زمہ داری آپ کی نہیں ہے ہاں البتہ آپ کو اس کا حق نہیں کہ آپ اللہ کے بندوں کو رسوا  کریں غلط کو غلط صحیح کوصحیح کہنا اپکا حق ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب  کسی کو لعن طعن کرنا ہے
آخر میں بس یہی کہنا ہے کہ کسی کو بھی حضور اکرم ﷺ، ان کے صحابہ ،اہل بیت سے جتنی محبت ہے اسکا  ثبوت  دینا اس پر  فرض نہیں یہ اس کا اپنا ذاتی فعل ہے اس کا اندازہ آپ نے  نہیں لگانا ۔گزارش ہے کہ محبتیں پھیلائیں نفرتیں نہیں ۔اللہ  ہم سب کو ہدایت کی راہ پر چلائے (آمین )۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :