انسان برائے فروخت

بدھ 21 اکتوبر 2020

Ameema Tariq

امیمہ طارق

چند روز قبل ایک تصویر  نظروں کے  سامنے سے گزری  جہاں ایک شخص"آدمی براۓ فروخت" کی  تختی  لیے بیٹھا تھا ۔سب سے پہلے تو  اس شخص کی ہمت کو سلام جس نے وہ تصویر کھیچنے کی جرات کی پھر اس کے بعد ان لوگوں پر آفرین جو اس تصویر کی اشاعت کرتے رہے۔میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ ہم بےحسی کے  اس  اعلی درجے پر ہیں جہاں ہمارا مقصود انسان سے ہمدردی نہیں ،اس کی مدد کرنا نہیں بلکہ اس کی مجبوری ،اسکی بے کسی کا تمسخر بنانا ہے ۔

ہم میں سے کسی نے ایک لمحہ یہ نہیں سوچا کے اس شخص کی کون سی  مجبوری ،اس کے گھر میں اٹھتی بھوک کی صدا  یا بیماری میں تڑپتا گھر کا ایسا کون سا فرد ہے جو اسے سڑک کنارے خود کو نیلام کر دینے پر مجبور کر رہا ہے . یہ تو صرف ایک قصہ ہے روز ہزاروں لوگ غربت  کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

کسی کے خالی پیٹ اور خالی جیب کی طرف نظر  نہیں پڑتی لیکن جب وہی پریشان حال شخص خود یا اپنے اہل خانہ کو زہر دے کر جان کی بازی ہار دیتا ہے  تو ہم اس خبر کو نشر کرنے میں ذرا تاخیر نہیں کرتے ۔

یہ سوچے بغیر کے آخر پریشانی کس درجے کی تھی جو اسے یہ  انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے ۔اس بات سے بے خبر کے سر محشر یہ جواب طلبی ہم سے بھی ہونی ہے کہ ہم نے اپنے ارد گرد نظر کیوں نہ رکھی ،کیوں وہ دولت جو ہمیں عطاء ہوئی اس کا ایک حصہ غرباء و مسکین کے لئے مخصوص نہیں کیا؟ لیکن کیا صرف صدقہ ،خیرات یا زکوۃ دے دینا کافی ہے ؟
پھر ایک نظر ان فلاحی اداروں پر جو بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن پھر بھی کیوں پاکستان کا تیس فیصد  سے   زائد طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے ہے؟اگر ضرورت مند ہیں تو عزت نفس کو بالائے تاک رکھ دیں اور اگر سفید پوش ہیں تو اپنی عزت بچاتے بچاتے جان کی بازی دے دیں لیکن کسی کو بھنک نہ پڑنے دیں کہ اپ کے گھر میں کئی دن کا فاقہ ہے ۔

کیوں اس دور کی  نیکی تصاویر اور ستائش کی منتظر ہیں ۔وہ بے لوث نیکی کے جسکی خبر دائیں سے بائیں ہاتھ کو نہیں ہوتی تھی ،وہ نیکی جو کرنے کے بعد دریا میں ڈال دی جاتی تھی کہیں کھو گئی ہے ۔آج کی نیکی سامنے والے کو مجروح کر دیتی ہے۔چاہے کسی کے گھر راشن پہنچانا ہو یا کسی کے  تعلیمی اخراجات اٹھانے ہوں جب تک اس کا علم ،اس کی تصویر نشر نہ ہوں ،وہ  کام  مکمل ہوتا ہی  نہیں۔

    دور حاضر میں جہاں ہر شے کی  قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے،مہنگائی نے ہر ایک کی قمر توڑ دی ہے ایسے حالات میں ایک وقت کی عزت کی  روٹی کمانے والا شخص بہت مشکل کا شکار ہے ۔اپنے ارد گرد اٹھتی پریشانی ،بھوک اور افلاس کی آہوں کو نظر انداز نہ کریں ۔ جب کسی کو  پریشانی میں تڑپتا اور  سسکتا دیکھیں تو اسکی ویڈیو بنانے سے بہتر اس کو تسلی کے چند الفاظ کہہ دینا ہے ،اپنی استطاعت کے مطابق اس کی مدد کر دینا ہے اور معاشرے میں موجود سفید پوش لوگوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ ہم واقعی انکی مدد کرنا چاہتے ہیں انکا تماشا نہیں لگانا  چاہتے۔

کسی کی مدد کر دینے کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ    آپ نے چند پیسے کسی فلاحی ادارے کو دے دیے اور  آپ  کا کام مکمل ہوا بلکہ اس بات کی یقین دہانی کرنا بھی ہے کہ اپکی رقم حق دار تک پہنچ بھی رہی ہے یا نہیں ۔
نیکی صرف کسی کی مالی امداد کر دینے سے مکمل نہیں ہوجاتی نیکی کسی سے عزت سے پیش آنا ،کسی کو  حقیر نہ سمجھنا ،کسی کی سفید پوشی کا بھرم رکھ لینے کا نام ہے۔

کیوں کے ایک بات کا احساس ہمارے اندر لازمی ہونا چاہیے کہ کوئی اپنی مرضی سے غریب پیدا نہیں ہوتا ہے اور امیر پیدا ہونا بھی کسی کے اختیار میں نہیں ۔اس بات کا ہر دم شکر کرنا کے اللّه نے ہمیں باشعور ہونے کے ساتھ ساتھ یہ استطاعت بھی دی کہ ہمارے ذریعے کسی کی مدد ہو سکے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ  ذمے داری کے آس پڑوس میں کوئی بھوکا نہ سوۓ۔ اس بات کی  جواب طلبی کہ وہ دولت جو  اس ربِ ذوالجلال کی عطاء کردہ ہے وہ کہاں خرچ کی ؟
پھر بھی بھڑتی  مہنگائی  کے اس دور میں ،جہاں ہر چیز نہایت قیمتی ہے میں نے سب سے بےمول انسانی جان کو پایا ۔۔آخر کیوں ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :