مشتاق احمد یوسفی کا عہد

ہفتہ 30 جون 2018

Amir Bin Ali

مکتوبِ جاپان۔عامر بن علی

مشتاق احمد یوسفی عہد سازمزاح نگار تھے۔ ان کی موت سے اردو ادب ایک ایسے لکھاری سے محروم ہوگیا ہے جسے فخریہ طور پر عالمی ادب کے کسی بھی مقابلے میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے پیش کیا جا سکتا تھا۔ان کی پیدائش 1923میں راجستھان کے شہرجے پورمیں ہوئی تھی ۔علی گڑھ سے انہوں تعلیم حاصل کی مگرپہلی تحریرپا کستان میں 1955میں حنیف رامے کے رسالے”سویرا“میں شائع ہوئی جس کا عنوان” صنف لاغر“ تھا۔

قیام ِپاکستان کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی منتقل ہوگئے اور بقیہ زندگی اسی شہر میں گزاری جس کے موسم کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس فضامیں صرف تاجر اور مہاجرہی زندہ رہ سکتا ہے۔ ایک درجن کے قریب مزاحیہ مضامین جب سویرا کے علاوہ نصرت ،افکار اور دیگر ترقی پسند رسالوں میں شائع ہوچکے توچند نئے مضامین شامل کرکے ”چراغ تلے “کے عنوان سے 1961میں کتابی شکل میں شائع کیے گئے ۔

(جاری ہے)

اس کے بعد انہوں نے خاکم بدھن 1970میں شائع کروائی تو ادبی دنیا میں اس کی اشاعت نے ایک تہلکہ مچا دیاتھا ۔زبان دانی کے وہ بادشاہ تھے۔ بنک کی نوکری بھی کرتے رہے جس کے تجربات کا نچوڑ”زرگرشت“ کی صورت میں سامنے آیا ۔”آبِ گم“ اردو کی ہمیشہ باقی رہنے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔ زندگی کی 97بہاریں دیکھنے والے مشتاق احمد یوسفی کی آخری کتاب” شام شعریاراں“ تھی۔

اس کتاب پر خاصی تنقید ہوئی کہ یہ یوسفی صاحب کے دیگر مجموعوں کی نسبت بجھی بجھی سی لگتی ہے۔ مگرسچی بات تو یہ ہے کہ اس اعلیٰ معیار کی اردو زبان میں پچھلے دس سال میں مزاح کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔ آدم جی ایوارڈ سے لیکر انہوں نے بے شمار ادبی ایوارڈ اور قومی وعالمی اعزازات حاصل کیے ۔اردو مزاح نگاری میں انہوں نے نئے اور بلند معیارات قائم کیے ان کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔


یہاں دو باتوں کی وضاحت کر تا چلوں۔ ایک تو یوسفی صاحب کی عمر کے بارے ان کی سرکار ی دستاویزات کے مطابق سن پیدائش1923ہے جبکہ ان کا بیان تھا کہ دراصل 1921یعنی کہ دو سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ دوسری وضاحت ان کے تخلیقی سفر کی ابتدا کے بارے میں ہے ۔اشاعت کے لیے اپنا پہلا مضمون انہوں نے ادبی ماہنامہ ادب لطیف کو ارسال کیاتھا، مگر میگزین کے ایڈیٹرمرزاادیب نے اسے مسترد کر دیا ،ان کے نزدیک یہ شائع ہونے کے قابل نہیں تھا ۔

میں یہ واقعہ اس لیے درج کر رہا ہوں تاکہ نئے لکھنے والے اہل قلم کی حوصلہ فزائی ہوسکے۔ بقول ڈاکٹرفرمان فتح پوری ”ہم مزاح کے عہد یوسفی میں زندہ ہیں“ با الفاظ دیگر ہمارا عہد ادب میں مشتاق احمد یوسفی کے نام سے موسوم ہے۔ نوجوان لکھاریوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عہد ساز مزاح نگار کا پہلا مضمون مدیر نے نا قابل اشاعت قراردیا تھا مگر آج بد ترین ناقد بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبورہیں کہ مشتاق احمد یوسفی ہمارے عہد کا سب سے بڑامزاح نگارہے۔


زرگرشت کسی حد تک سوانح حیات بھی کہی جاسکتی ہے۔ زندگی کا غالب حصہ یوسفی صاحب نے بنک ملازمت میں گزارا۔ بینکنگ کی دنیا کے معتبر ترین لوگوں کے ساتھ کام کیا۔ بی سی سی آئی کے مالک آغاحسن عابدی سے تو ان کا دوستانہ تھا، اسی سلسلے میں ایک عشرہ لندن بھی گزارآئے۔ بنک کی دنیا میں وہ مشتاق احمد خان تھے ،انتہائی پروفشنل بنک کار، یہاں تک کہ جوش ملیح آبادی نے اپنے خطوط میں ان کے عدم تعاون کاذکر کیا ہے۔

ادبی دنیا میں انہوں نے کبھی سماجی تعقات بڑھانے کی کوشش نہیں کی ۔میری نظرمیں وہ ایک تنہائی پسند شخص تھے۔ محفل کے آدمی نہیں تھے۔ ہمارے خانیوال کے ادیب دوستوں نے ایک دفعہ انہیں مدعو کیا تو آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہنے لگے، مگر شرط یہ کہ سامعین چھ سات لوگوں سے زیادہ نہ ہوں۔ اس صورت حا ل میں احباب نے فیصلہ کیا کہ ہم خود ہی کراچی ان کے گھر اتنے افراد چلے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔

ایک ہزار کلومیٹر سفر کر نے کی زحمت انہیں نہ دی جائے ۔ایک دفعہ انٹرویو کے دوران مزاح نگاروں کی کمی کا تذکرہ کیا تو کہنے لگے ”اچھا ہے، ڈنک مارنے والے جتنے کم ہوں اتنا اچھا ہے “۔
ان کی آخر ی کتاب کے بارے میں شنید ہے کی ان کے اہل خانہ نے بچی کھچی تحریروں کو یکجا کرکے شائع کروادیا۔ اس کتاب میں شامل تحریریں مختلف انواع کی ہیں۔ مختلف مواقع پر کی گئی تقریریں بھی اس کتاب شامل کر دی گئی ہیں۔

بھلے اس کتاب کے ناشر اور یوسفی صاحب کے بچوں کے مقا صد ادبی سے زیادہ معاشی نوعیت کے ہوں،مگرشام شعر یاراں میری نظر میں یہ ایک مثبت اقدام تھا۔ با الخصوص قائداعظم پر لکھا گیاان کا مضمون تو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہنے والی تحریروں میں شامل ہے۔قائداعظم محمد علی جناح جیتے، جاگتے ،باتیں کر تے ،عدالت میں دلائل دیتے ہم یوسفی کی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں ۔

شام شعریاراں کی تحریریں گزشتہ چار کتابوں کے مقابلے میں گرچہ پھیکی پھیکی لگتی ہیں ،مگر قائداعظم کے متعلق ان کا مضمون تو ان کی تمام کتابوں پر بھاری نظر آتا ہے۔ امجد اسلام امجد# بتاتے ہیں کہ بیوی کی وفات کے بعد مشتاق احمد یوسفی نے زمین پر سونا شروع کر دیا تھا۔کہتے تھے کہ زیادہ جدائی برداشت نہیں ہوتی ۔شہرت سے ایسا بے نیاز شخص ادبی دنیا میں کم ازکم میں نے تو کم کم ہی دیکھا ہے۔

یہ اہم بات ہے کہ انہوں نے تمام عمر اپنی توجہ اپنی تخلیق پر ہی مرکوزرکھی ۔شہرت اور سماجی روابط ان کی تر جیح نہیں رہے۔ چند دوستوں کے نزدیک وہ مردم بیزارشخص تھے،مگر میرے خیال میں فنکار کو اس کے فن کے حوالے سے پرکھنا چاہئے نہ کہ اس کی شخصیت اور بشری رجحانات کی روشنی میں۔وہ ایک عام آدمی کی زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ایک عام آدمی کے مسائل اور غم ،خوشیاں ان کی تحریروں کا موضوع رہا۔

اور ایک عام آدمی کی طرح وہ رخصت ہوئے۔سچ مگر یہ ہے کہ وہ بہت خاص آدمی تھے۔بہت بڑے آدمی ،باصلاحیت فنکا راور درددل رکھنے والے ہمدرد انسان ۔ان کی انسان دوستی ان کی تحریروں سے چھلکتی ہے۔اس قحط الرجال میں ان کی رخصتی کا غم اس لئے بھی زیادہ ہے کہ ان جیسااور کوئی بھی نہیں ہے۔ان کا طرزتحریرجداگانہ اور موضوعات بے مثال تھے۔اپنی تحریروں میں توہمیشہ زندہ رہیں گے،مگر ہم تو ان کے عہد کے لوگ ہیں ۔ان کی ذات کی کمی بھی ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے۔اب ایسا کون بچا ہے جو قائداعظم،جواہرلال نہرواور گاندھی جی سے باالمشافہ ملا ہو۔مشتاق احمد یوسفی اس تاریخی عہد کے آخری آدمی تھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :