
فیصلہ آپ نے کرنا ہے
اتوار 26 جون 2016

عمار مسعود
امجد صابری مرحوم ایک خوش ا ٓواز ، خوش مزاج، خوش اطوار اور خوش خواراک فنکار تھا۔ ساری عمر اس نے حمد ، نعت اور منقبت پڑھی، اللہ رسول کا نام لیا اور اسے اسی ڈھنگ میں قبولیت عام حاصل ہوئی۔نرم مزاج، نرم گفتار اور ہنستا مسکراتا گلوکار ہر ٹی وی شو کی جان تھا۔ شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض ہونے کے باوجود کھانے میں میٹھا کھانے سے نہیں چوکتا تھا۔ اس ملک کے لوگوں نے اس سے بہت محبت کی۔ بہت پذیرائی کی۔بہت سراہا۔ یہی شہرت، محبت اورخوشگوار شخصیت اس کی موت کا سبب بن گئی۔
امجد صابری کے والد غلام فرید صابری اور چچا مقبول صابری کی جوڑی پاکستان کی مقبول ترین قوال جوڑی تھی۔
(جاری ہے)
شہرت کا ہما سرصابری برادرز کے سر پر ایسا بیٹھا کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔ روپے پیسے کی ریل پیل شروع ہو گئی۔ اس جوڑی کے نام پر لالو کھیت کے گھر میں کئی غریب گھرانے پلنے لگے۔ چونکہ بنیادی طور پر ان کا تعلق دہلی سے تھا تو وہی انکسار اور اقدار لوٹنے لگیں۔ صدقہ و خیرات میں پہل ہونے لگی۔ کئی گھرانوں کے چولہے ان بھائیوں کے فن سے جلنے لگے۔اسی دوران دونوں بھائیوں میں اختلاف کی خبریں سامنے لگیں۔ مقبول صابری نے اپنی ایک الگ قوال پارٹی بنا لی۔انکی غزلوں اور ٹھمریوں کی سولو کیسٹس منظر عام پر آنے لگیں۔ ان حالات میں حاجی غلام فرید صابری پس منظر میں چلے گئے۔ انکے حالات مالی طور پر خراب ہونے لگے۔ صحت بھی زیادہ محنت کی اجازت نہیں دیتی تھی اور دنیاوی معاملات سے حاجی صاحب کو کوئی خاص لگاو بھی نہیں تھا۔یہ وہی نامسائد حالات تھے جب بڑے حاجی صاحب کی قوال پارٹی کے لوگوں نے ننھے امجدصابری کا حوصلہ بڑھایااور انکی تیاری شروع کروائی گئی۔ معروف ستار نواز نفیس احمد خان نے اس سارے واقعے کو اس طرح ایک جملے میں سمو دیا کہ امجد صابری نے غربت میں اپنے فن کا آغاز کیا اور پھر وہ غریب پرور بن گئے۔ والد کے دوستوں نے انکو والد کی چیزیں یاد کروائیں۔ حاجی غلام فرید صابری کے ہنر مند دوستوں نے امجد صابری کو ایک بڑا قیمتی مشورہ دیا کہ بیٹا اپنی آواز کو زیادہ سے زیادہ والد کی آواز سے مشابہت دے دو۔جو لوگ امجد صابری کو قریب سے جانتے ہیں وہ مانتے ہیں کہ امجد صابری کی آواز اپنے والد کی آواز سے کچھ مختلف تھی مگر جب وہ گاتے تھے تو بڑی سمجھداری سے اپنے والد کی آواز کو کاپی کرتے تھے۔ قوالی کی دنیا میں امجد صابری کا اپنا کام بہت ہی کم ہے۔ انہوں نے زیادہ تر اپنے والد کا گایا ہوا کلام پڑھا۔ اب یہ قسمت کی بات ہے کہ امجد صابری کے مقدر میں شہرت اور دولت والد اور چچا کی نسبت کہیں زیادہ تھی۔
امجد صابری نے کسی ایک مسلک اور فرقے کے ساتھ ناطہ نہیں جوڑا ۔ اسکا فن سب کے لیئے عقیدت کا سبب رہا۔اسکی شخصیت میں وہ کشش تھی کہ ایک زمانہ اسکا گرویدہ ہو گیا۔ ٹی وی شوز میں جب قوالی کا محل نہیں ہوتا تھا تو امجد صابری گیت بھی گا لیتے تھے، رفیع کو بھی گنگنا لیتے تھے۔ ہنسی مذاق بھی کر لیا کرتے تھے۔ لباس کے معاملے میں بھی قدامت پسندی کو ترک کیا۔ جینز اور کرتا پہن کر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور روایتی قوال پارٹی کا لباس بھی زیب تن کیا۔اس ہر دلعزیز فنکار نے ساری زندگی کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جو انکے بہیمانہ قتل کی وجہ بنے۔نہ کسی سے جھگڑا، نہ کسی مسلک کی پیروی نہ کوئی رقم کا تنازعہ اور نہ کسی سے ذاتی عناد۔پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امجد صابری کو کیوں قتل کیا گیا؟ امجد صابری کا قصور کیا تھا؟ جرم کیا سرزد ہوا تھا ؟ خطا کیا ہوئی تھی؟ ایسا کیا ہواتھا کہ نوبت قتل تک پہنچ جائے؟ گناہ ہی کیا تھا اسکا؟
معروف لوگوں کو قتل کرنے کا فائدہ دہشت گرد یہ اٹھاتے ہیں کہ انکے مارے جانے کی خبر لمحہ بھر میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔ چینلوں پر بریکنگ نیوز بنتی ہیں، اخباروں میں شہ سرخیاں چھپتی ہیں، سوشل میڈیا چیخ اٹھتا ہے۔اداریئے لکھے جاتے ہیں، کالم تحریر ہوتے ہیں، ٹاک شوز میں ان سانحات کا ہفتوں ذکر رہتا ہے ۔ بے چینی پھیلتی ہے۔ بدامنی کا دور دورہ ہوتا ہے خوف اور دہشت کی فضا قائم ہوتی ہے۔کاروبار زندگی متاثر ہوتا ہے۔ امور زندگی ادھورے رہ جاتے ہیں۔بے یقینی معاشرے کا مقدر بنتی ہے۔روشنی کے راستے میں پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔
وہ سارے لوگ جو زندگی کا اثبات تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔بہتر مستقبل کی امید لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ امن عامہ کے خواہاں ہوتے ہیں۔ حالات کی بہتری کے خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے ایک واقعے سے پھر سے مایوس ہو جاتے ہیں۔انکی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ امید ختم ہوجاتی ہے۔ پاکستان کی ان واقعات سے بین الاقوامی سطح پر بدنامی ہوتی ہے۔ جس دہشت سے اس خطہ پاک کو دیکھا جاتا ہے۔ جس خوف سے ہمیں پکارا جاتا ہے وہ درد مند محب وطن لوگوں کے لیئے اذیت کا باعث ہوتا ہے۔ ان کو دکھ دیتا ہے ان کو توڑ دیتا ہے۔
ہم بحیثت قوم ایک عرصے سے دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ہزاروں نوجوان ہم اس جنگ میں گنوا بیٹھے ہیں۔ بے شمار قیمتی جانیں آئے دن ہونے والے دھماکوں میں ضائع ہو چکی ہیں۔ املاک کا نقصان ہو چکا ہے۔ ملک ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔اب حالات پہلے
سے بہتر ہونے شروع ہوئے ہیں۔ کچھ امن کی بحالی کی امید لگی ہے۔ دھماکوں کی تعداد اور رفتار میں کمی ہونے لگی ہے۔ امن کی امید بندھی ہے۔ اب فیصلہ مثبت لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چایہیں تو اس سانحے سے ملک کے مستقبل سے مایوس ہو جائیں یا پھر غم کی اس گھڑی میں اک دوجے کی ہمت بندھائیں ۔ ایک پرامن پاکستان کے خواب دیکھتے جائیں۔ اثبات کو اپنائیں۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.