
سندھ کے عوام اور ابصار عالم
جمعہ 12 مئی 2017

عمار مسعود
(جاری ہے)
کبھی آپ نے اندرون سند ھ کی حالت دیکھی ہے۔ لوگ غربت کے مارے پس رہے ہیں، کھانے کو روٹی نہیں، پینے کو پانی نہیں، علاج کے لئے شفا خانے نہیں، تعلیم کے لئے سکول نہیں۔ لیکن نعرہ بھٹو کا لگتا ہے۔ووٹ بھٹو کو ملتا ہے۔ دور کی بات جانیں دیں اگر کبھی لاڑکانہ ہی جانا ہو تو دیکھ لیں وہاں صدیوں سے کچھ نہیں بدلا۔ کئی کئی وزراء اعظم اس قصبے کے باشندے تھے۔ ملک کی تقدیر بدلنے کا دعوی کرتے تھے۔ بین القوامی حالات پر تبصرے کرتے تھے۔ انٹرنیشنل کانفرنسز میں اچھی شستہ انگریزی میں تقریر کرتے تھے، انسانی حقوق کی پاسداری کا سبق پڑھاتے تھے۔ خواتین کے حقوق پر رطب اللسان رہتے تھے۔بچوں کی صحت اور تعلیم پر قوم سے خطاب کرتے تھے۔ انٹرنیشنل قوانین کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ لیکن انہوں نے آج تک سندھ کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔ اس لئے کہ انہیں ادراک تھا کہ جیسے ہی یہاں تعلیم آگئی، آگہی مل گئی ،لوگ بوسیدہ رسم و رواج سے بغاوت کر دیں گے۔ پرانے گلے سڑنے نظریات کو مسترد کر دیں۔ ترقی ہونے سے لوگ نئی روشنی کو دیکھنے لگیں گے۔ اختلاف کرنے لگیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کے لوگون کے ذہنوں میں وہی نظریات ٹھونسے جائیں جن کے وہ عادی ہیں۔ ان کو بتایا جائے کہ ترقی گناہ ہے، لالچ ہے، طمع ہے۔ غربت بہادری ہے ، عظمت ہے۔ جہالت سہرا ہے۔ مانگ کا سیندور ہے۔ روایات عظیم ہیں۔ تبدیلی انتشار ہے۔ حرام ہے۔
جنرل مشرف کے دور میں میڈیا کو آزادی ملی۔ یہ ہمارے لئے اچھنبے کی بات تھی۔ چینلز مشروم کی طرح بڑھنے لگے۔ کام چونکہ مہنگا تھا اس لئے صرف رئیس لوگوں کے ہاتھ پڑے۔ جن کو صحافت کا تجربہ بھی نہیں تھاوہ بھی اپنے کاروبار کے تحفظ کے لئے اس کام میں کود پڑے۔ یہ کام ہمارے لئے نیا تھا کہ حکومت وقت پر حکومت کی آنکھوں کے سامنے تنقید ہونے لگی۔ وکلاء تحریک یاد ہی ہو گی آپ کو۔میڈیا سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرنے لگا۔جلد ہی اس ملک کے لوگوں اور اداروں کو احساس ہوا کہ وہ صحافی جس کو اخبار میں تین تین ماہ قلیل تنخواہ نہیں ملتی تھی وہ اب قوم کے مستقبل کے فیصلے کرے گا۔ اس زمانے کی عدلیہ ہو، ادارے ہوں ، اپوزیشن لیڈر یا حکمران سب ہی رات کے پروگرام دیکھ کر اپنے فیصلے صادر کرتے تھے۔ یہ موقع کچھ طالع آزماوں کے لئے اچھا تھا انہوں نے دھیرے دھیرے ان چینلز پر اپنی حکمرانی جمانا شروع کر دی۔چند لوگوں کو خرید کر انکے ذریعے وہی بوسید نظریات ، وہی جہالت ، وہی ازلی بے بسی اب ان چینلز پر فروخت ہونے لگی۔وہی داغدار چہرے سامنے آنے لگی۔ غربت کی کہانی اور شدت سے بکنے لگی۔نفرت ازراں نرخوں پر ملنے لگی۔شدت اب سکرینوں پر پنپنے لگی۔
چینلوں کی بے مہار روش دیکھ کر حکومت نے ایک ادراہ پیمرا کے نام سے قائم کیا۔ جس کا مقصد الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنا تھا۔ لیکن یہ ادارہ ہمیشہ سے بے بس سا رہا تھا۔ ہم نے اس کے بہت سے چیئرمینوں کوچینلوں کی منتیں کرتے ہی دیکھا ہے۔ وہ چینلز سے درخواستیں ہی کرتے رہے کہ حکومت وقت پر ہاتھ ہولا رکھیں۔ لیکن چینلز ان منتوں کو کبھی خاطر میں نہ لائے۔اس دارے کے سابقہ سربراہ زیادہ تر بیوروکریٹ تھے جو اپنی ملازمت کی معیاد پوری کرنے کے لئے یہاں آتے۔ چین کے چند سال گزارتے اوریٹائرمنٹ کی راہ لیتے۔نہ کوئی پیمرا کی طرف سے کوئی خاص کام کیا گیا نہ چینلوں نے اپنی روش بدلی۔لوگوں کی ذہنیت مریضانہ ہوتی گئی۔ اس ملک سے لوگ بدظن ہوتے رہے۔ نفرتیں پھیلتی رہیں۔ اختلاف بڑھتے رہے۔ایک خاص قسم کی ذ ہنیت بنائی جاتی رہی۔ بوسیدہ خیالات لوگوں کے ذہنوں میں ٹھونسے گئے۔ ایک خاص نظریئے کو پالتے رہے۔ خال خال اختلاف کی صورت نظر آئی مگر ایسی آوازوں کو ہجوم میں معدوم کر دیا گیا۔
موجودہ حکومت کی جانب سے پیمرا کے احیاء کے لئے سنجیدہ کوشش سامنے آئی۔ پہلی دفعہ یہ کام کسی صحافی کے سپرد کیا گیا۔ ابصار عالم کا نام صحافیوں کے لئے نیا نہیں تھا۔ ان کا ماضی بھی داغدار نہیں اور جمہوریت ،صحافت اور صحافیوں کی ترقی کے لئے ان کی کوششیں بھی کسی سے چھپی نہیں۔ابصار عالم نے چیئر مین پیمرا کی حیثیت سے کئی ایسے کام کیئے جو بڑے ناگزیر تھے۔ کرائم شوز میں ری اینکٹمنٹ پر پابندی لگانا از حد ضروری تھا۔ پروگراموں میں عدلیہ اور اداروں کا تمسخر اڑانے کی روایت کا خاتمہ از حد ضروری تھا۔ جھوٹ پر مبنی خبروں کو روکنا بہت لازمی تھا۔ شر اورنفرت انگیز تقریروں پر پابندی نہائت ضروری تھی۔ دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی روایت توڑنا لازمی تھا۔مارننگ شوز اور ٹی وی ڈراموں میں پھیلائی جانے والی فحاشی کی روک تھام لازمی تھی۔ رمضان کی ٹرانسمیشنز میں اس ماہ مبارک کی تقدیس ضروری تھی۔ایسے جنازوں کی کوریج کو روکنا ضروری تھا جن کے نتیجے میں فساد خلق ہو۔ابصار عالم نے یہ سب کام کیئے۔ لیکن اب مرحلہ اور ہے۔
میرے خیال میں اب ابصارعالم کو سزا ملنی چاہیے اس لئے کہ وہ بوسید خیالات کو روک رہا ہے۔ وہ نفرت کی تلقین کی مناہی کر رہا ہے۔ وہ لوگوں کو بے وجہ غدار کہنے پر پابندی لگا رہا ہے۔ وہ اینکروں کو اسلام کی فروخت سے روک رہا ہے۔ وہ لوگوں کو توہین کے جھوٹے الزامات کے ذریعے کافر کہنے سے روک رہا ہے۔ وہ جمہوریت کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ وہ سیاسی نہیں ہے مگر سیاست کو سمجھتا ہے۔اس ملک کے تاریخ کو سمجھتا ہے۔ اس ملک کے لوگوں کو جانتا ہے۔اس کا مسئلہ حکومتی جماعت نہیں ہے ،جمہوریت ہے۔ وہ نئی جمہوری قدروں پر یقین رکھتا ہے۔وہ جبر کے خلاف ہے۔ نفرت اس کا شعار نہیں۔ وہ اس ملک میں حقیقی تبدیلی کا خواہش مند ہے۔ اب اگر اس کا منہ ، ٹانگ توڑنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں تو اس میں سراسر قصور ابصار عالم کاہے۔ اس کو یہ سب تبدیل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اسکو ہمیں نفرتوں سے نکالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی اسکو کفر کے بلاوجہ فتووں کو نہیں روکنا چاہیے تھا۔ اس لئے کہ کچھ لوگوں کو علم ہے جب تک ہم نفرت اور جاہلیت میں رہیں گے ان کی حکومت قائم رہے۔ ان کا ڈنڈا چلتا رہے گا۔ ان کا سکہ قائم رہے۔ میرے خیال میں ابصار عالم کا اب نفرت کو روکنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، جہالت کے فروغ سے منع نہیں کرنا چاہیے، جھوٹ کی ترویج پر پابندی نہیں لگانی چاہیے کہ اس اندھیر نگری میں ہم پل کر جوان ہوئے ہیں اور بہت سوں کی خواہش ہے ہم اسی اندھیرے میں مر جائیں ۔ روشنی کی کوئی قمق ہم تک نہ پہنچے۔ ترقی کا کوئی ہنر ہمارے نام سے معتبر نہ ہو۔ جمہوریت ہمارے ملک میں گالی بنی رہے۔ سفلی خواب بکتے رہیں اور خبر کبھی حق کے مرتبے تک نہ پہنچے۔
اس صورت حال پر پریشان یا پشیمان ہونے کی ضرورت نہیں۔ سندھ کے عوام سے سبق لیں۔ جہاں جہالت ایسے عروج پر ہے کہ سب مر جائیں گے پھر بھی بھٹو زندہ رہے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.