
سول ملٹری تعلقات کوتماشہ نہ بنایا جائے
اتوار 14 مئی 2017

عمار مسعود
اس معاملے کے خوشگوا ر انجام سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جہاں میاں صاحب نے ماضی سے بہت سبق سیکھ لیا ہے وہاں اب اداروں کو بھی حکومت گرانے کا کوئی شوق نہیں رہا۔
(جاری ہے)
ماضی میں یہی حالت ہوتی تو میاں صاحب ٹی وی پر نظر آتے، ہاتھ میں کاغذ لئے بلند آواز میں کہتے میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لے سکتا اور چند دن کے بعد حکومت سے فارغ کر دیئے جاتے۔
دوسری جانب اگر سول ملٹری تعلقات ماضی میں اس نہج پر پہنچ جاتے، تو اب تک عزیز ہم وطنو کا طبل بج چکا ہوتا، ٹرپل ون برگیڈ حرکت میں آ چکا ہوتا، پی ٹی وی کی عمارت فتح کر لی گئی ہوتی اور ملک میں ایمرجنسی نامی مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ہوتا۔ اس دفعہ معاملہ ہماری تاریخ کی مثالوں سے مختلف نکلا۔ جمہوریت کا بول بالا ہوا۔ آئین کا وقار بلند ہوا۔ ووٹ کاا حترام ہوا۔ پارلیمان کا جھنڈا اونچا ہوا۔ پاکستان کامرتبہ بلند ہوا۔اس معاملے کے افہام و تفہیم سے ختم ہونے میں سول حکومت سے زیادہ کریڈٹ ملٹری قیادت کو جاتا ہے۔ماضی میں اس سے کم باتوں پر اختلافات ہوئے۔ بچوں کی طرح بول چال بند ہوئی۔دل ہی دل میں طعنے دیئے گئے۔ ایک دوسرے پر الزام لگائے گئے اور سول حکومت کا بوریابستر گول کر دیا گیا۔ جنرل قمر باجوہ کی جمہوریت پسندی نے اس دفعہ معاملے کو ایک مثبت رخ دیا جس سے نہ صرف جمہوریت کا استحکام ممکن ہوا بلکہ حالیہ اقدامات سے ۔ قوم کی نظروں میں ، فوج کا وقار بھی بلند ہوا۔ وزیر اعظم کے امکانی نوٹیفکیشن پر جو مسترد والا ٹوئیٹ آیا اس کی وضاحت دینے سے، اس کو واپس لے لینے سے، ملک کے سنجیدہ ، جمہوریت پسند حلقوں میں ایک اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ اب لوگوں کو کچھ کچھ یقین آتا جا رہا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کی گاڑی چلتی رہے گی۔ دو ہزار اٹھارہ میں آذادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں گے۔ جمہوری ادارے مضبوط ہوں گے اورجمہوریت کش لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار جب بھی مختصر پریس کانفرنس کرتے ہیں تو یقینا کوئی اہم بات ہوتی ہے۔ اس طرح کی پریس کانفرنس میں عموما چوہدری صاحب کوئی نقطہ ایسا چھوڑ جاتے ہیں جس پر پھر بہت بات ہوتی ہے۔ ڈان لیکس کے معاملے پر چوہدری صاحب نے جو پریس کانفرنس کی اس میں ایک جملے کی بازگشت ہم نے چینلوں پر بار بار سنی۔انہوں نے واشگاف الفاظ میں تنبیہ کی کہ سول ملٹری تعلقات کو تماشا نہ بنائیں۔ کسی ایک شخص، ادارے یا شعبے کی طرف انہوں نے واضح اشارہ نہیں کیا۔ بس تماشا نہ بنانے کی مناہی کر صحافیوں سے سوالات مانگے، صحافی بیچارے بیس منٹ تک سوال لکھواتے رہے اور جب جواب کی باری آئی تو چوہدری نے صاحب نے مسکرا کر صحافیوں کی طرف دیکھا اور پریس کانفرنس ختم کر کے چلے گئے۔
اسی پریس کانفرنس میں چوہدری صاحب نے ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب کا بھی ذکر کیا جو تجزیہ کار بنے چینلوں پر حکومتوں کو سبق سکھا رہے ہوتے ہیں۔ فوج حکومت گرانے کے نت نئے گر بتا رہے ہوتے ہیں۔ا پنے تئیں فوج کے ترجمان بن کرسول حکومت کو عبرت ناک انجام کی خبر سنا رہے ہوتے ہیں۔ تو کیا وزیر داخلہ کے اس جملے کا شارہ ایسے دفاعی تجزیہ کاروں کے بارے میں تھا تو جو اب سیاسی تجزیہ کار بھی ہو چکے ہیں۔شائد ان کی مراد کوئی ایک شخص نہیں ہوگا بلکہ بہت سے چینلوں پر ایسے بہت سے تجزیہ کار وں کی طرف اشارہ کیا گیا ہوگا۔میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ چند چینلوں نے اپنے سارے پروگرام ہی اسطرح ترتیب دیئے ہیں کہ ریٹائرڈ فوجی افسران اس میں سیاسی تجزیہ کار بن کر شریک ہو سکیں۔شائد پس منظر میں ان چینلوں کے مالکان کے ذہنوں میں یہ خیال ہو کہ اس طرح فوج کی خوشنودی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن چوہدری نثار کے بیان نے اس خام خیالی کا بت بھی توڑ دیا۔ میری ذاتی رائے میں اگر کوئی سابق فوجی افسر ٹی وی کے کسی پروگرام میں شرکت کرتا ہے تو اس کے لئے کوئی باقاعدہ طریقہ کار وضع ہونا چاہیے اورفوج کے محکمہ تعلقات عامہ سے پیشگی اجازت درکار ہونی چاہیے۔چینلوں کو بھی دفاعی تجزیہ کار اور سیاسی تجزیہ کار میں فرق کو سمجھنا چاہیے۔
ہو سکتا ہے کہ چوہدری نثار کے اس جملے کا مخاطب میڈیا ہو۔ اس لیے کہ جس بری طرح میڈیا پر ڈان لیکس کے حوالے سے سول ملٹری تعلقات کا تماشہ بنایا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔چینلوں میں واضح تقسیم نظر آئی۔ چند چینل ان لیکس کے سہارے مارشل لاء کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان کے اینکر منسٹر بننے کا سوچ رہے تھے۔ چند مالکان شاباش کی تھپکی کے منتظر تھے۔کچھ پروگراموں میں عوام کو یقین دلا دیا گیا تھا کہ حکومت غدار ہے، یہ جمہویت ڈھکوسلہ ہے، یہ عوام کے نمائندئے فراڈہیں۔عوامی حکومت ریاست کے خلاف سوچی سمجھی سازش ہے۔خصوصا ایک چینل کی جانب سے تو حد ہی کر دی گئی۔ پیمرا نے اس بات پر احتجاج کرنے کی کوشش کی تو اس کو بھی دھمکیوں سے چپ کروانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن سول ملٹری مصالحت کی پالیسی نے ان میڈیا ہاوسز کے ناپاک عزائم کا ناکام بنا دیا ۔
چوہدری نثار کی گفتگو کی رمزیں جاننے کے لئے بڑی ریاضت چاہیے ہو تی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ چوہدری نثار نے جب یہ کہا ہو کہ سول ملٹری تعلقات کو تماشہ نہ بنایا جائے تو ان کا مخاطب نہ اینکر ہوں نہ بے صبرے چینل ، اس جملے کے ممدوح نہ دفاعی تجزیہ کار ہوں نہ چینل کے مالکان ۔ بلکہ ہو سکتا ہے چوہدری نثار ان لوگوں سے مخاطب ہو ں جو خود اپنے حق میں اسلام آباد کی سڑکوں پر بینر لگواتے تھے اور اپنے آپ سے ہی خدارا نہ جانے کی دردمندانہ درخواست کرتے تھے۔ ہو سکتا ہو چوہدری نثار کا اشارہ ان وٹس ایپ گروپس کے سر غنوں کے بار ے میں ہو جو ان حوالدار اینکرز کو ہر پروگرام سے پہلے اور بعض اوقات دوران پرواگرام بھی بریفنگ دیا کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے چوہدری نثار ان لوگوں سے مخاطب ہوں جنہوں نے شکریئے کی ایک عظیم الشان ناکام مہم چلائی تھی۔ ہو سکتا ہے وزیر داخلہ کا بیان ان لوگوں کے بارے میں ہوجو اپنے آپ کو کو میڈیا اور فوج کے درمیان ایک پل بتاتے تھے۔ہو سکتا ہے چوہدری نثار ان لوگوں کی بات کر رہے ہوں جو دھرنوں کے پیچھے چھپے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ ہو سکتا ہے چوہدری نثار ان لوگوں سے مخاطب ہوں جو چینلوں میں ان لوگوں کو بھرتی کروانے پر مامور تھے۔
چوہدری نثار کا مخاطب جو بھی ہو ایک بات یقینی ہے کہ فوج نے ڈان لیکس پر اپنے اقدامات کی وجہ سے اس ملک میں اپنا وقار بڑھا لیا ہے۔ ایک ٹوئیٹ کی وجہ سے جو اس ملک کی ، اس جمہوریت کی، جوبدنامی ہوئی اس کو کمال دانش مندی سے دور کر دیا گیا۔اس پر فوج یقینا مبارکباد اورخراج تحسین کی مستحق ہے۔
آخر میں ایک چھوٹی سی استدعا کہ جہاں جمہوریت کے لئے اتنی قربانیاں دی گئیں ہے وہاں اگر ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹائم لائن سے وہ ٹوئیٹ بھی ڈلیٹ کر دیا جائے تو جمہوریت پسند لوگوں کی نگاہ میں پاک فوج کی توقیر میں اضافہ ہوگا۔جمہوریت کی تضحیک کا یہ سیاہ داغ تاریخ کے چہرے سے مٹادینا ہی اصل جمہوریت کی طرف ایک مظبوط قدم ہے۔عوام کی حاکمیت مان لینے کا عزم ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.