
وزیر خزانہ صاحب ہمارا مذاق نہ اڑائیں
منگل 30 مئی 2017

عمار مسعود
(جاری ہے)
ٹی وی پر آنے والے والی نابغہ روزگار شخصیات کے لئے ہر موضوع پر باکمال گفتگو کرنا انتہائی لازمی ہے۔
ان میں سے بیشتر اصحاب ان موضوعات پر حتمی اور اٹل رائے دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ وزیر خزانہ اور وزارت خزانہ کے پرخچے اڑانا جانتے ہیں۔ موقع ملتے ہی بجٹ کو غریب کش بجٹ ثابت کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔ مہنگائی کے بڑھ جانے کے شماریاتی ثبوت دینا جانتے ہیں۔ میں فی الحال اس قابلیت سے محروم ہوں اور اپنی نااہلی کو حق گوئی کے لبادے میں چھپا کر گذارا کرتا ہوں۔اسحاق ڈار آج پھر سکرین پر جگمگا رہے تھے۔ بجٹ تقریر کا شہرہ کچھ دنوں پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ چینلوں نے نئے نئے گرافکس تیار کر لئے تھے۔ غربت کے بڑھ جانے والے وڈیو پیکج پہلے ہی تیار کر لئے گئے تھے۔ دالیں ، گوشت، اور سبزیوں کے نرخ آج کی سب سے اہم خبر ہو رہے تھے۔سیمنٹ کی بوری کی قیمت، سگریٹ پر لگنے والی متوقع ڈیوٹی، موبائل فون پر کم ہونے والا ٹیکس، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی شرح ، دفاعی اخراجات میں ہونے والا اضافہ، خام تیل کی قیمت اور بجلی کی فی یونٹ کے نئے نرخ سامنے آ رہے تھے۔ کچھ لوگ ڈیسک بجا رہے تھے۔ کہیں سے حکومت مخالف نعروں کی آ واز آ رہی تھی۔اچھا خاصہ تماشہ لگا ہو اتھا۔ میں عموما بجٹ تقریر کے وقت کوئی اچھی سی فلم دیکھنا پسند کر تا ہوں۔ اب اسے شومئی قسمت ہی کہیے کہ جب فلم ختم ہوئی تو ابھی ہمارے وزیر خزانہ کی تقریر جاری تھی۔ بس دو جملے کان میں پڑے۔ اسحاق ڈار یہ جملے کہہ کر تیزی سے آ گے بڑھ گئے۔ لیکن اتنا ضرور ہوا تھا کہ ان دو جملوں پر ڈیسک بجنے کی آواز ذرا تیز ہو گئی ۔ شائد کچھ حکومت کے حق میں نعرے بھی لگے ہوں مگر بات جس برق رفتاری سے ہو رہی تھی اس میں احباب کو خوشامد موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔
اسحاق ڈار کی تقریر کے جن دوجملوں کا ذکر میں کر رہا ہوں ان کا تعلق معذور افراد کے حوالے سے تھا۔وزیر خزانہ نے فرمایا کہ معذور افراد کی ملازمتوں میں دو فیصد کوٹے کو اب لمیٹڈ کمپنیو ں تک وسیع کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ معذور افرد کو بچت کے ضمن میں شہدا اور بیواؤں کی طرح بہبود اور ڈیفنس سرٹیفکیٹ جیسی سکیموں سے زیادہ منافع دیا جائے گا۔اب مجھے اتنا علم نہیں کہ جب ملازمتوں میں دو فیصد کوٹے کو لمیٹڈ کمپنیوں کی طرف وسیع کیا جائے گا تو کیا اس سے مراد پبلک لمیٹڈ کمپنیاں ہیں یا پرائیوٹ کمپنیوں پر یہ پابندی ہوگی۔ یہ ابھی تجویز ہے یا حکم نامہ ہے؟ اسی طرح اگر بچت میں زیادہ منافع دینے کا سوچا گیا ہے تو کیا یہ سرٹیفکٹ معذور افرادکو مہیا کیا جائیں گے یا جمع شدہ سرٹیفکیٹس پر ہی منافع بڑھا دیا جائے گا۔میرا معاشیات کا علم یہ جواب دینے سے قاصر ہے۔ نہ ہی بجٹ کی یہ تفصیلات میری نظر سے گزری ہیں کہ ان کے بارے میں دوجے ماہرین کی طرح اپنی حتمی رائے کا ظہار کر سکوں۔
ابھی تک اس کالم میں ، میں نے پوری صراحت سے اپنی کم علمی کا رونا رویا ہے، اور بجٹ کے بارے میں کوئی بھی رائے دینے کی نااہلیت کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ لیکن جسطرح میں وزیر خزانہ کومعاشیاتی پالیسیوں کے بارے میں کوئی تجویز نہیں دے سکتا اسی طرح وزیر خزانہ بھی ایکدم معذور افراد کے بارے میں ایک ایسی پالیسی کا اعلان نہیں کر سکتے جس کا حقیقت حال سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔۔ معذور افرد کے لئے ملازمتوں میں دو فیصد کوٹے سے بڑا ظلم اس ملک میں کوئی ہے ہی نہیں۔ مجھے کوئی ایک ادارہ بتا دیں جہاں اس قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہو۔ ہو تا یہ ہے جب اسطرح کے کوٹے حکومتوں کی طرف سے سامنے آتے ہیں تو یہ نااہل لوگوں کے لئے سونے کی کان بن جاتے ہیں۔ آپ سب کو پتہ ہے اس معاشرے میں ڈاکٹر سے ایک جعلی سرٹیفکیٹ لینا کتنا ہی دشوار ہے؟ہرچوک ، ہر گلی میں یہ کام سر عام ہو رہا ہے۔جس کی چھوٹی انگلی کٹ گئی ہے اس نے بھی یہ سرٹیفکیٹ بنوا لیا ہے ، جس کی کمر میں درد ہے وہ بھی ڈس ایبلٹی سرٹیفکیٹ بنوا چکا ہے۔دھونس ، دھاندلی سے اس کوٹے پر مدت سے نااہل لوگ براجمان ہیں اور کتنے ہی حقدار معذور افراد کا حق مار رہے ہیں۔ او اگرر قسمت سے کسی معذور شخص کو اس کوٹے پر ملازمت مل بھی جائے تو کیا ادارے میں اسکی سہولت کا کوئی اہتمام کیا گیا ہے یا پھر گھر بیٹھے تنخواہ دینے کا ارادہ ہے؟کیا نابینا شخص کو ٹاکنگ کمپیوٹر فراہم کیا گیا ہے۔کیا جسمانی معذور افرد کے لئے ریمپس اور باتھ روم موجود ہیں۔ کیا قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد کے لئے اشاروں کی زبان سمجھنے والوں کا انصرام ہے؟لیکن یہ سب تو بہت بعد کی باتیں ہیں۔ پہلا مرحلہ تو تعلیم کا ہے۔ کیا اتنے سپیشل سکول ہیں جہاں یہ بچے تعلیم حاصل کرکہ اس ملازمت کے لئے اپلائی بھی کر سکیں؟ کیا ان بچوں کے لئے کتابیں دستیا ب ہیں؟ کیا ان سکولوں میں ان نچوں کو صرف کو صرف نمائش کے طور پر رکھا جاتا ہے یا انکو تعلیم بھی دی جاتی ہے؟ کیا اس ملک سے نابینا حافظ کا کلچر ختم ہو گیا؟ کیا ان بچوں کے لئے موبائل پر اردو سافٹ وئیر ریڈر ایجاد ہو گیا ہے؟کیا نارمل سکولوں میں ان بچوں کے داخلے کو یقینی بنایا گیا ہے؟ کیا گھروں میں رسیوں سے بندھے بے شمار معذور بچوں کو اس دو فیصدکوٹے کی بناء پر نوکری مل سکتی ہے؟
بات یہاں ختم نہیں ہوتی اب بہبود سرٹیفکیٹ پر منافع پر بات کر تے ہیں۔ کیا وزیر خزانہ جانتے ہیں ان میں سے بے شمار بچوں کو بھکاری بنا دیا جاتا ہے، بے شمار دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں، بے شمار بچیوں کی شادی نہیں ہو سکتی۔ بے شمار بچے ایسے ہیں جن کی ہر اہلیت پر لوگ ٹھٹھے کرتے ہیں۔ بے شمار بچے صرف مدرسوں میں صدقے خیرات پر پلتے ہیں۔بے شمار بچوں کے والدین اور رشتہ دار انہیں کسی گناہ کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ معاشرے میں ان لوگوں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ بے شمار بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جتا۔بے شمار بچے گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ان بچوں کے لئے سرٹیفکیٹ پر منافع میں اضافہ کرنے سے پہلے ان کو بنیادی حقوق دے دیں ، دو وقت کی روٹی دے دیں، پڑھنے کے لئے سکول بنا دیں ، علم حاصل کرنے کے لئے کتابیں دے دیں پھر منافع پر بھی بات کر لیں گے۔ پھر دو فیصد کوٹے کا سوال بھی اٹھا لیں گے۔ وزیر خزانہ صاحب ان محروم بچوں کا تمسخرنہ اڑائیں۔ ڈرائنگ روموں میں بنائی ہوئی ایسی پالیسیوں سے ان بچوں کو اور نہ رولائیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.