
کریں تو کیا کریں
اتوار 17 دسمبر 2017

عمار مسعود
(جاری ہے)
مدارس تخریب کا منبع بن گئے۔
جہادی دہشت گرد کہلانے لگے۔ اپنے لوگ پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے ہونے لگے۔ جنرل مشرف نے قوم کی گاڑی کو تو ریورس گیئر میں ڈال دیا لیکن یہ بات بھول گئے کہ تیز رفتاری سے الٹی گاڑی چلانے کا نتیجہ حادثہ ہو تا ہے۔ وہ حادثہ اس مملکت کے ساتھ ہو چکا ہے اور ہمیں اس کا ادراک بھی نہیں ہے۔ہم ناکامی کی جس نہج کی جانب بڑھ رہے ہیں وہ ہماری سوچ کے دائرے میں فی الحال سما بھی نہیں سکتی۔جن لوگوں کی ہم نے دہائیوں پرورش کی انہی لوگوں کے خلاف جب آپریشن ہوئے، ڈرون ان کے سروں پر برسنے لگے تو انکا جہاد ہمارے اپنے خلاف شروع ہو گیا۔ ہر روز بم دھماکے ہونے لگے۔ معصوم شہری مارے جانے لگے۔ معتدل سوچ رکھنے والے معاشرے کے سب سے بڑے مجرم ہوگئے۔امن کی بات کرنے والے غدار کہلانے لگے۔ اقلیتوں کے حقوق کے بات کرنے والے کافر قرار دئیے جانے لگے۔اس سارے سماج نے ایک قلابازی کھائی اور ہمیں ہر چیزا الٹا دکھائی دینے لگی۔ متوازن سوچ معاشرے سے مفقود ہونے لگی اور شدت پسندی ایک نئے روپ سے ہم کو جکڑنے لگی۔
المیہ تو یہ ہے کہ ہم اتنے بدل گئے ہیں کہ اب ہمیں اپنے بدلنے کا گمان تک نہیں ہو رہا۔ اب ہم تواز ن کی کیفیت اس حد تک کھو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی ناہمواریوں کا احساس بھی نہیں ہو رہا۔ طاہر القادری سے لے کر خادم رضوی تک ایک نیا پاکستان تخلیق ہو چکا ہے۔ اور اب اس مملکت خدادا میں توازن کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ستانوے فیصد مسلم آابادی والے ملک میں اسلام کے نام پر جنگ و جدل کا سلسلہ جاری ہے۔اب مسئلہ مذہب کا نہیں رہا اب جنگ فرقوں کی بن چکی ہے۔ پہلے ہم فرنگیوں کے خلاف جنگوں پر فخر کرتے تھے، پھر یہ تفاخر ہندو بنیوں تک جا پہنچا اور اب یہ تفریق فرقوں کی بنیاد پر ہوگئی ہے۔اب ہر شخص کفر کے فتوے سے خوفزدہ نظر آتا ہے۔ہر شخص کے ایمان پر شک کیا جا سکتا ہے۔ ہر شخص مرتد کہلا سکتا ہے۔ ہر کسی سے اسکے ایمان کا سربازار امتحان لیا جا سکتا ہے۔
مذہب توازن کا پیغام دیتا ہے۔ شدت سے اجتناب سکھاتا ہے۔ نفرت کی مناہی کرتا ہے۔ امن کا درس دیتا ہے۔ آشتی کا سبق سکھاتا ہے۔ عفو ودرگذر کی تبلیغ کرتا ہے۔ معاف کرنے کو مستحسن سمجھتا ہے۔ رحیم اور کریم کی صفات بتاتا ہے۔ علم اور دانش کی طرف رجوع سکھاتا ہے۔ تحقیق اور تشکیک کی طرف توجہ دلاتا ہے ۔ خواتین کا احترام سکھاتا ہے۔ معذور افراد کے حقوق بتاتا ہے۔بچوں سے شفقت بتاتا ہے۔
انسانوں کی حرمت کا یقین دلاتا ہے۔اقلیتوں کے حقوق کی تہذیب سکھاتا ہے۔ ہمارا لمیہ یہ ہے کہ ہم نے سب باتوں کو پس پشت ڈال کر صرف دوسروں کے ایمان کے امتحان کو مذہب سمجھ لیا ہے۔ دوسرے کی ذات میں کیڑے نکالنے کو اپنے ایمان کی مضبوطی مان لیا ہے۔محبت کے درس کوبھلا کر ہم نے نفرتوں کا سبق ذہنوں میں ڈال دیا ہے اور قبیح فعل کے لئے ہم نے مذہب کو استعمال کیا ہے۔ مبارک ہستیوں کا نام لیا ہے۔ یہ نفرت ، یہ شدت دراصل ردعمل ہے اس یو ٹرن کا جو جنرل مشرف نے ایک فون کال پر لیا تھا۔اب ہم اتنے شدت پسند ہو گئے ہیں کہ گردن زنی ہماری سوچ بن گئی ہے۔اس سوچ کا اب کوئی حل سامنے نہیں آ رہا۔ اب یہ معاملہ کم نہیں ہو سکتا اب بات صرف بڑھ سکتی ہے۔
جب ریاست ایسے شدت پسند عناصر کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔ جب حکومت ایسے عناصر سے خوفزدہ رہنے لگے۔ جب صاحب علم زبان کھولنے سے ڈرنے لگے، جب استاد کو اپنی دستار کی فکر ہونے لگے۔جب شاعر ادیب خوفزدہ رہنے لگیں، جب اہل دانش چپ سادھ لیں تو یہ ناکامی صرف ایک فرد کی نہیں رہتی ۔ اس کا الزام ہم ایک حکومت کو نہیں دے سکتے۔ یہ پورے سماج کی شکست ہوتی ہے۔ یہ پورے عہد کی شکست بنتی ہے۔ یہ ساری ریاست کی شکست کہلاتی ہے۔
مجھے خوش گمان رہنا پسند ہے ۔ لیکن اب ساری خوش گمانی ہوا ہوتی جا رہی ہے۔ اب مسئلے کا کوئی حل سجھائی نہیں دے درہا۔ اب گاڑی گذر چکی ہے اور پٹڑی چمک رہی ہے۔حکومت کی ناکامی کا اب گلہ نہیں ہے اب ریاست کی بنیاد خطرے میں پڑ گئی ہے۔اب مسئلہ نواز شریف ، زرداری اور عمران خان کا نہیں ہے۔ اب بات بہت بگڑ چکی ہے۔اب مستقبل کا نقشہ دھندلا ہے۔اب ہمارے سامنے صرف ایک تابناک ماضی ہے۔
بہت سوچتا ہوں کہ کیا ہو گا تو ہزار فکریں دامن گیر ہو جاتی ہیں۔ اس دفعہ شائد الیکشن سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوجائے ۔ اگلا الیکشن کہیں فرقہ واریت کی بنیاد پر نہ ہو جائے۔ ایک فرقے کی دوسرے فرقے کو گالی دینا ہی انتخابی نعرہ نہ بن جائے۔ مٹی میں ملی ہوئی علماء کی دستار کہیں انتخابی نشان نہ ہو جائے، ووٹرز لسٹوں پر ایمان کا امتحان نہ ہونے لگ جائے۔ مذہبی تفریق اس حد تک نہ بڑھ جائے کہ ایک فرقہ دوسرے فرقے کے خون کا پیاسا ہو جائے۔نفرت کہیں اس شدت سے نہ در آئے کہ کچھ بھی نہ بچ پائے۔ جو کھیل شروع کیا گیا تھااب اس کے اختتام کا منظر شائد ہم سے نہ دیکھا جائے۔
اس ملک کی ظالم ڈکٹیٹروں کی پالیسیاں ہمیں اس مقام پر لے آئی ہیں کہ اب نہ کچھ بولا جا سکتا ہے نہ چپ رہا جا سکتا ہے۔اب نہ اس شدت کا حصہ بنا جاسکتا ہے نہ اس سے چھٹکارا ممکن نظر آتا ہے۔ اب نہ نفرت کی جا سکتی ہے نہ محبت کا پرچار ممکن ہے۔آخر اب کریں تو کیا کریں۔
اب بہت سوچ بچار کے بعد ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ سیاست اور مذہب کو الگ کیا جائے۔ تمام سیاسی پارٹیاں متفقہ طور پر سیاست میں مذہب اس اجتناب کی پالیسی اپنا ئیں۔ مذہبی جماعتوں کے کام مختلف ہونے چاہیں۔ سیاسی جماعتوں کے افعال مختلف ہونے چاہیں۔ اس مسئلے پر قومی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ ہر طبقہ فکر سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ مشترکہ ہونا چاہیے۔ اس کا مقصد کسی سیاسی جماعت کو فوقیت یا کسی کی نفی نہیں ہونا چاہیئے۔ ریاست کی بقاء اور تابندگی کے لیئے یہ قومی فیصلہ درکار ہے۔کھلے دل اور روشن دماغ کے ساتھ کیا گیا مشترکہ فیصلہ ہی مستقبل کی کوئی نوید سنا سکتا ہے۔ وگرنہ موجودہ صورت حال تو صرف آنے والے دنوں کی تاریکی کی غمازی کرتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمار مسعود کے کالمز
-
نذرانہ یوسفزئی کی ٹویٹر سپیس اور فمینزم
پیر 30 اگست 2021
-
گالی اور گولی
جمعہ 23 جولائی 2021
-
سیاسی جمود سے سیاسی جدوجہد تک
منگل 29 جون 2021
-
سات بہادر خواتین
پیر 21 جون 2021
-
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے نام ایک خط
منگل 15 جون 2021
-
تکون کے چار کونے
منگل 4 مئی 2021
-
نواز شریف کی سیاست ۔ پانامہ کے بعد
بدھ 28 اپریل 2021
-
ابصار عالم ہوش میں نہیں
جمعرات 22 اپریل 2021
عمار مسعود کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.