’انسانی صلاحیت‘

بدھ 10 فروری 2021

Amna Ahmad

آمنہ احمد

ہم ''انسانوں'' نے اس دنیا میں جینے کا معیار کچھ اس طرح قائم کیا ہے کہ کسی دوسرے انسان سے رابطہ استوار کرنے سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اُس کی حیثیت کتنی ہے؟ اُس کا رتبہ کیا ہے؟ کیا اُس کا درجہ اتنا ہے کہ تعلقات قائم کیے جائیں؟۔۔۔
حال ہی میں، میں نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ''اگر آپ کسی ایک کام میں بھی اچھے ہو تو کوئی بھی آپ کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتا''۔

لیکن پھر یہ خیال آیا کہ اگر کوئی کسی کام میں اچھا نہ ہو تو کیا اُس شخص کی کوئی عزت نہیں؟ کافی دیر تک سوچنے کے بعد احساس ہوا کہ نہیں! ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ نے کسی انسان کو کسی خاص خُوبی یا صلاحیت کے بغیر پیدا کیا ہو۔ اِنہیں صلاحیتوں کی بنا پر ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

(جاری ہے)

ہر انسان میں کوئی نا کوئی صلاحیت ضرور ہوتی ہے۔ یہ اب انسان پر منحصر ہے کہ وہ اُس صلاحیت کوپہچان کر کیسے استعمال کرتا ہے ۔


 اگر کسی ایک انسان میں کوئی صلاحیت ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرے میں بھی وہی ہو۔ اگر مجھ میں کچھ کرنے کی صلاحیت ہے تو ضروری نہیں ہے کہ کسی اور میں بھی یہی صلاحیت ہوگی تو ہی میں اُس کی قدر کروں گی یا پھر میں یہ سمجھوں کہ اگر کسی میں میرے جیسا کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو وہ کچھ اور کرنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کو خود سے کم تر سمجھتے ہیں۔

انسان اشرف المخلوقات تو ضرور ہے لیکن کسی ایک انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود کو برتر اور دوسرے انسان کو حقیر سمجھے ۔ یہ فیصلہ کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے یہ تو صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کا درجہ کتنا ہے۔ اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں کہ
 ''جو شخص ہمیشہ نکتہ چینی کے موڈ میں رہتا ہے اور دوسروں کے نقص نکالتا رہتا ہے، وہ اپنے آپ میں تبدیلی کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے''۔
 اس لیے بہتر ہے کہ ہم دوسروں کی کمزوریوں کو تلاش کرنے کی بجائے خود کو بہتر انسان بنانے کی کوشش کریں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :