جہیز۔۔اسبابِ شادی یا بربادی؟

منگل 16 فروری 2021

Amna Ahmad

آمنہ احمد

بظاہر تو بہت سے لوگ ایسے ہیں جو جہیز کو ایک لعنت کہتے ہیں اورجہیز لینے والے کو برا بھلا لیکن بہت کم لوگ ایسے ہیں جو خود بھی اس سے دُور رہتے ہیں۔ وہ کیا ہے نہ جب بات دوسروں کی ہوتی ہے تو ہمیں دین کا درس بھی یاد آ جاتا ہے اور صحیح غلط میں فرق بھی لیکن اسے خود پہ لا گُو کوئی کوئی کرتا ہے ۔
 والدین اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو کچھ تلخ برداشت نہ کرنا پڑے اور اِسطرح وہ کچھ لوگوں کی لالچ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

کچھ والدین اِس آس میں جہیز دیتے ہیں کہ اُن کی بیٹی خوش اور آباد رہے گی یا اُس کے سسرال میں اُس کی عزت بڑھے گی۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا شخص جواپنی ہونے والی بیوی کے لیے اتنا نہیں کر سکتا کہ ضرورت کی بنیادی اشیاء لے سکے، تووہ اُس لڑکی کو وہ خوشیاں کیسے دے گا جس کی وہ حقدار ہے۔

(جاری ہے)

کیا وہ شخص واقعی اُس لڑکی کے قابل ہے؟
اس معاشرے میں اس طرح کے لالچی لوگوں کی تین اقسام پائی جاتی ہیں :
 ایک وہ جو کھلے عام مطالبہ کرتے ہیں بلکہ ایک مکمل فہرست بنا کر پیش کرتے ہیں کہ انہیں کیا کیا درکار ہے۔

دوسرے وہ جو اشارتا ًمطالبہ کرتے ہیں یہ کہہ کرکہ ”ہمیں کچھ نہیں چاہیے لیکن پھر بھی آپ اپنی بیٹی کو اپنی مرضی سے جو چاہیں دے سکتے ہیں‘ ‘۔پھر آتے ہیں تیسری قسم کے لوگ جو خود مطالبہ تو نہیں کرتے لیکن لینے سے انکار بھی نہیں کرتے۔
ایک بات واضح کرتی چلوں کہ یہ سب وہی لوگ ہیں جو بظاہر تو جہیز کو ایک لعنت کہتے ہیں لیکن اس لعنت کو اطمینان سے قبول بھی کر لیتے ہیں۔

اور اگر کسی طرح کچھ لوگ اسے حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں تو پھر ایک اور قسم کے لوگ آتے ہیں جو شادی کے بعد یا تو اُن بیٹیوں کو طعنے دے دے کر اُن کا جِینا محال کر دیتے ہیں یا پھر بیٹیوں کی خوشی کے نام پر بلیک میل کرکے اُن کے والدین سے بھیک مانگتے ہیں ۔اور اِس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ اِتنا سب کچھ دینے کے بعد بیٹی اُس گھر میں خوش رہے گی۔

اِسی سے متعلق اٹھاریویں صدی کے مشہور شاعر” میر تقی میر# “کی زندگی کا ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گی۔
کہتے ہیں کہ میر تقی میر# نے اپنا گھر بیچ کر اپنی اکلوتی بیٹی کو جہیز دیا تھا۔شادی کے بعد بیٹی کو کسی نے کہا تیرے باپ نے اپنا گھر اُجاڑ کر تیرا گھر بسا دیا ،بیٹی بہت حساس تھی وہ یہ صدمہ برداشت نا کر سکی اوراِنتقال کر گئی۔ میر تقی میر# بیٹی کا آخری دیدار کرنے گئے،کفن اُٹھا کر بیٹی کو دیکھا اور ایک شعر کہا:(کہا جاتا ہے کہ یہ اُن کی زندگی کا آخری شعرہے)
اب آیا ہے خیال اے آرام جاں اس نامُرادی میں
کفن دینا تمھیں بھولے تھے ہم اسبابِ شادی میں
لوگوں کی اِس جہیزکی لالچ کی وجہ سے بہت سے گھر بسنے سے پہلے اور متعد بسنے کے بعد اُجڑے ہیں،اوربہت سی بیٹیوں کی زندگی برباد ہوئی۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :