ریفلیفکٹ بیک

منگل 8 جولائی 2014

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

صبح کا آغاز ہوتے ہی دنیا پر تشدد ہو جاتی ہے۔ ٹی وی کے ریموٹ کا بٹن دباتے ہی بریکنگ نیوز کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کسی دور میں صبح کا آغاز بہت شاندار ہوتا تھا۔ بہت سی خوبصورت یادوں میں ایک یاد ٹی وی کے وہ پروگرام تھے جو چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے اور عوام کو سٹریس جیسی بیماری سے افاقہ بخشتے۔ ہم وقت کو روک نہیں سکتے مگر ہم کبھی کبھار ماضی کا سوچ سکتے ہیں۔

ہمیں ہمیشہ آگے دیکھنے اور پلٹ کر نہ دیکھنے کا کہا گیا ہم آگے بڑھتے گئے اور تاریخ کو بھول گئے۔ اخبارات ، جریدے اوردیگر مواد جو آج سے بیس پچیس سال پہلے چھپا اس میں اور آج کے اخبارات اور جرائد میں بھی وہی فرق ہے جو آجکل کے ٹی وی پروگراموں میں ہے۔ ٹی وی پروگرام آج کے دور کے انسان کا وہ عکس ہے جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔

(جاری ہے)


ہم پیچھے مڑ کر کیوں نہیں دیکھتے ؟ہم تاریخ کیوں نہیں پڑھتے؟ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے اور یہ کہ تاریخ ایک کرش پلانٹ ہے جو جب چلتا ہے تو سب کچھ فنا ہو جاتا ہے۔

ہم " ریفلیفکٹ بیک" کیوں نہیں کرتے ؟ ہمارے ذاتی معاملات سے لیکر ریاستی معاملات تک کا حل ہمارے ماضی میں ہی ہوتا ہے مگر ہم اسے پڑھنا نہیں چاہتے۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟
آج انقلاب آ رہے ہیں ، ملک ٹوٹ رہے ہیں ، محل جلائے جا رہے ہیں ، انسان انسان کی نسل کشی کر رہا ہے۔ کیا یہ سب نیا ہے ؟ نہیں ماضی میں یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ سائنس کہتی ہے دنیا کسی زمانے میں ایک بہت بڑا خشکی کا ٹکڑا تھا مگر پھر دنیا ٹوٹی اور مختلف ٹکڑوں میں بٹ گئی کچھ روز پہلے میں ایک شہر میں گم ہو گیا۔

مجھے میرا" ٹام ٹام" پورے شہر میں گھما رہا تھا ، جب مجھے میری "ڈیسٹی نیشن " قریب نظر آئی تو میں نے گاڑی تھوڑی دور کھڑی کر دی اور اس بلڈنگ کی جانب چلنا شروع کر دیا۔ میں ایک پل پر سے گزرا تو یہاں ایک گائیڈ بہت سے لوگوں کو بتا رہا تھا کہ یہ پل بہت تاریخی ہے یہاں سے سینکڑوں سال پہلے ایک بادشاہ کی لاش کو اس کے مخالفین نے دریا میں پھینک دیا تھا۔

کیا آج بھی یہی نہیں ہو رہا۔ کیا آج بھی کسی ملک پر قبضے کے بعد اس کے حکمرانوں کی قبروں کو کھودا نہیں جاتا ؟
ہم تاریخ ڈھونڈتے ہیں پڑھتے نہیں ورنہ جہاں میں بیٹھا ہوں اور جہاں آپ بیٹھے ہیں نہ جانے کتنے لوگوں کی لاشیں ہمارے قدموں تلے دفن ہیں اس کا علم کسی کو بھی نہیں۔ کسے پتا ہے کہ کل ہمارے ساتھ کیا ہو۔ ہمارے پاس سب کچھ کرنے کا وقت ہے بس پیچھے مڑ کر دیکھنے کا وقت نہیں۔


ہم جتنے نابلد ہیں اتنے ہی " چیپ " ہیں ، ہم بس نعروں کی دنیا میں جیتے ہیں۔ ہمیں " ٹائیٹل" پسند ہیں ، ہم اپنی اونچی دستار کے لیے کہیں بھی بک جاتے ہیں۔ آج ہم سب "ڈکٹیٹر "بھی ہیں اور چور بھی۔ ہم اپنے اپنے " یو ٹوپیا " میں خوش ہیں مگر حقیقت میں بہت اداس ہیں ، کیونکہ ہم پیچھے مڑکر دیکھنا بھول گئے ہیں۔ ہم اس " ٹاپ سٹوری " یا بریکنگ نیوز " کا حصہ ہیں جو صرف سنسنی پھیلا سکتی ہے۔


میں چلتے پھرتے تاریخ کو بدلتا دیکھ رہا ہوں ، کہیں شام ٹوٹ رہا ہے تو کہیں عراق کا وجود تحلیل ہو رہا ہے ، کہیں ہند و چین میں جھگڑا ہے تو کہیں پاکستان میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہے، کہیں یورپ اور روس میں کشیدگی ہے تو کہیں امریکہ اور مسلم دنیا ایک دوسرے سے نالاں ہیں۔ دنیا کے مسائل گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ساری دنیا کی خبریں پڑھنے اور مسائل سننے کہ بعد جب میں اپنے وجود کو دیکھتا ہوں تو ڈر سا لگتا ہیکبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر میں اپنے ماضی میں کچھ وقت گزاروں تو شائد اپنے مستقبل میں کچھ بہتری لا سکوں در حقیقت ہم کوئی نیا کارنامہ سر انجام دینے کے قابل تو ہوتے نہیں ہیں اور اس خوف سے ہم آنکھ کھول کر چاروں طرف نہیں دیکھتے کہ کہیں ہماری خود فہمی کا بلبلا پھٹ نہ جائے
بادشاہوں کی کہانیاں ، سفری داستانیں ، ناول ، ڈرامے ، لوک داستانیں ہمارے آج میں ہمارے کل کی وہ تاریخ ہے جسے ہم صرف تفریح کے لیے پڑھتے ہیں یا کچھ کاغذ کالے کرنے کے لیے حوالوں میں استعمال کرتے ہیں۔

کیا ہم نے اپنے ماضی سے کبھی کچھ سیکھا ؟ آپ کسی بھی ملک میں چلے جائیں آپ کسی بھی قوم کی تاریخ پڑھ لیں ، آپ کوئی بھی مذہب اپنا لیں ، آپ کسی بھی نسل سے تعلق قائم کر لیں ، آپ رہتے وہی انسان ہیں جس کی ضرورت کل بھی وہی تھی جو آج ہے۔ ہمالہ کی بلند ترین چوٹیوں سے افریقہ کے تپتے صحراوٴں اور انٹارکٹیکا کی سرد ترین سر زمین تک آپکو کہیں بھی کوئی ایسی مخلوق نہیں ملے گی جس کے وجود کی ضروریات ایک سی نہ ہوں مگر ہم پھر بھی " ریفلیفکٹ بیک" نہیں کرتے ہم کبھی بھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھتے ، ہم کبھی بھی یہ نہیں سوچتے کہ وہ سب جو آج ہمارے ماضی کا حصہ اور ہمارا اثاثہ ہے اس میں کیا کچھ ایسا تھا جو آج سے بہتر تھا اور وہ کون سی غلطیاں ہیں جو ہم دہرا رہے ہیں۔


ہم نے کبھی بھی " مسنگ لنک " ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ بس ہم چلتے جا رہے ہیں۔ ہمارا سفر اب "انسانی ریس "کے اس مرحلے میں داخل ہو گیا ہے جہاں تشدد پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہے ، اس سفر میں اعتماد جیسی دولت سے سب ہی محروم ہیں۔ ہر کوئی تنہائی کا شکار ہے۔ پچاس ہزار کا مجمع ہو یا ایک لاکھ کا جلسہ حکمران تنہا لگتے ہیں۔ اب بات لاکھوں کی اور کروڑوں کی ہوتی ہے مگر ہم پھر بھی تنہا ہیں۔

پوری دنیا کو "انٹرٹین " کرنے والے جب گھروں کو لوٹتے ہیں تو اداس ہوتے ہیں ، دوسروں کو کامیابی کے سبق دینے والے ذاتی زندگی میں ناکام ہوتے ہیں۔ کیا وجہ ہے ؟ ہم شائد "ریفلیفکٹ بیک" کرنے سے ڈرتے ہیں۔ آبشاروں سے کبھی ایک دھن نکلا کرتی تھی ، زمین پر رینگنے والے حشرات کبھی کچھ آوازیں پیدا کرتے تھے، پرندوں کی آوازوں میں کبھی ایک عجیب سی تکرار ہوتی تھی۔

کہاں ہے وہ سب ؟ آج تو ایسا کچھ بھی نہیں۔ امریکہ سے افریقہ اور روس سے چین تک ہر ملک میں لوگ چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں کا سفر کرتے تھے تا کہ وہ اپنے خواب پورے کر سکیں۔ اب یہ "سائیکل" ریورس ہے۔ اچھی صحت اور لمبی زندگی کے لیے یہ سفر شہروں سے گاوٴں کی طرف نظر آتا ہے۔
آج کا انسان جہاں تنہا ہے وہیں بہت بیمار بھی ہے۔ یہ بیماری صرف جسمانی نہیں ہے کہ پیرا سیٹا مول سے اس کا علاج ہو جائے یا کسی اینٹی بائیوٹک سے اس ناسور کو اندر ہی جلا کر ختم کر دیا جائے۔

یہ ایک روحانی بیماری ہے جس کی جڑیں بہت مضبوط اور علاج بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ توکل کا درس دینے والے کو بلٹ پروف گاڑی اور امن کی بات کرنے والے کو جب ہتھیار بردار محافظ کی ضرورت پڑی تو اس بیماری نے مزید تقویت پائی اور انسان نے امن کی تلاش ظلم کی چھاوٴں میں ڈھونڈنا شروع کر دی مگر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کبھی"ریفلیفکٹ بیک" نہیں کیا۔


پہلی دوسری اور تیسری دنیا میں لوگ جینا شروع ہو گئے ، پہلی دنیا ظالم کی ، دوسری مظلوم کی اور تیسری خود فہمی کی۔ اس دنیا سے ہم نے اپنا ناطہ توڑ لیا جو ہماری اصل دنیا تھی۔ میں آج بھی تیسری دنیا میں رہتا ہیں ، میرے کچھ احباب دوسری دنیا میں آباد ہیں اور میرے حکمران پہلی دنیا کے شہری ہیں مگرہم سب اس قدر بیمار ہیں کہ ہمیں نہ تو اپنے مسائل کا کوئی حل کہیں ملتا ہے اور نہ ہی ہمیں کوئی ایسا مشورہ دیتا ہے جو ہمیں اس غلام گردش سے نکال سکے۔

پہلی دنیا میں بسنے والا ظلم کرنے پر مجبور ہے ، وہ جس تیر سے دوسروں کا شکار کرتا ہے ا یک دن اسی سے خود شکار ہو جاتا ہے دوسری دنیا میں بسنے والا جان بوجھ کر کسی ظالم کا مجاور بن جاتا ہے اور پوری زندگی اس بھٹی میں جلتا ہے جو اسے ورثے میں ملتی ہے اور تیسری دنیا کہ جس میں میں بستا ہوں اور مجھے امید ہے کہ میرے جیسے اور بھی بہت سے ہونگے خود فہمی کے غلاف اوڑھ لیتے ہیں ، کاغذ کالے کرتے ہیں ، کہانیاں لکھتے ہیں ، دوسروں کو بڑے بڑے لیکچر دیتے ہیں مگر ہم لوگوں کا ذاتی سکور صرف صفر ہوتا ہے۔ اپنے باطن میں ہم اس قدر غریب ہوتے ہیں کہ ہم اس میں جھانکتے ہوے ڈرتے ہیں۔ بس عجیب ہی سلسلہ ہے ، نہ ختم ہونے والی داستان ، کبھی نہ سمجھ آنے والی مسٹری کیا ہم اس سے کبھی نکل پائیں گے ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :