تاریخ

پیر 29 اپریل 2019

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

کسی بھی واقع، چیز،  حادثے  یا شخصیت کے بیان سے پہلے اُس کی تاریخ جاننا ضروری ہے۔ جب تک ہمیں تاریخ کا علم نہ ہوگا ہمارا بیان ادھورا اور نامکمل ہوگا۔ تاریخ ا سم مونث ہے اور اُسکے معنی و مطالب کسی چیز کے ظہور پذیر ہونے کا وقت ، جگہ کا تعین اور ماحول ہے۔ تاریخ کے لغویٰ معنی کی درستگی کے لیے  دن کی اصطلاح  استعمال ہوتی ہے۔

اگر دن کی اصطلاح کو مدانظر رکھیں تو لغت کے   مطابق مختلف ممالک میں دن کا حساب مختلف اوقات سے شروع ہوتا ہے۔ یونانیوں کا دن دوپہر سے لیکر دوسری دوپہر تک قائم رہتا ہے۔ یورپ میں آدھی رات سے لیکر آدھی رات تک، ہند میں صبح سے لیکر دوسری صبح تک جبکہ خطہ اراضی پر ایسے بھی ملک ہوئے   جہاں دن کا شمار  کسی  خاص ستارے کے  طلوح و غروب یا پھر کسی مقدس پرندے یا جانور کی آواز سننے تک شمار ہوتا تھا۔

(جاری ہے)

ہندوستان، چین اور مشرق بعید میں صبح کا آغاز مرغ کی ا ذان سے ہوتا اور جب پرندے اڑ کر واپس اپنے گھونسلوں میں پہنچ جائیں یا پھر گھر یلو چڑیاں چہچہانا  بند کردیں تو دن کا اختتام تصور کیا جاتا ہے۔
اسی  طرح اچھے اور بر ے دن کا بھی تعین کیا جاتا۔اگر پرندے وقت سے پہلے گھروں کو لوٹ آئیں، جانور سہم جائیں، کتے  اور بلیاں آسمان کی طرف منہ کر کے آواز  نکالیں، سورج ڈھلتے ہی آسمان پر سرخی جم جائے ، گیدڑیاں اور لومڑیاں سرشام بول اُٹھیں تو اس دن کو نہوست  کا دن شمار کیا جاتا جس کے اختتام پر کسی بڑے حادثے، طوفان، زلزلے یا آفات کے آغاز کا انتظار  شروع ہو جاتا۔

کائنات میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کی تاریخ نہ ہو۔ علوم ظاہر یہ وباطنیہ  کی الگ الگ تاریخ ہے۔ پیدائش، موت، قبل ازپیدائش اور بعد از موت کی بھی ایک تاریخ ہے۔ ادیان، اعمال، قد روقضا سے لیکر ستاروں، سیاروں، بادلوں، ہواؤں، کہکشاؤں کی تاریخ بھی موجود ہے اورہیت  دانوں کا قدیم مشغلہ ہے۔
تاریخ دانوں نے اپنی سہولت اور سمجھ   کے لیے  تاریخ کو سماجیات، سیاسیات، معاشیات اور اخلاقیات کا علم قرار دیا ہے۔

اُن کے نزدیک تاریخ کا  بنیادی  عنصر انسان کا رویہ اور دیگر علوم ہیں  جو  انسانی رویے  کے گرد گھومتے  ہیں۔ ہر گزرے ہوئے دن کے انسانی  افعال تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان افعال واعمال کے نتیجے میں معاشرے اور ماحول پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ  ہی تاریخ ہے۔ وہ لوگ جوان واقعات کو یاد رکھتے ہیں  یا لکھ لیتے ہیں وہ مورخ کہلاتے ہیں اور گزر ا  ہوا واقعہ یا فعل تاریخی عمل کہلاتا ہے۔


تاریخ ایک وسیع علم ہے اور علوم ظاہر یہ و باطنیہ کا لامحدود بیان ہے۔ قرآن کریم میں خالق  کائنات نے انسانی عقلی وشعوری قوتوں کی ایک حد مقرر کر رکھی ہے اور کوئی انسان چاہے  وہ کتنا ہی دانا و حکیم کیوں نہ ہو اس حد سے آگے بڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انبیاء کرام اور اولیاء حق کے علاوہ کوئی بھی شخص زندگی کے پہلے اٹھارہ یا پچیس سال تک علم حاصل کرتا ہے اور پھر اپنی عقلی و شعوری قوتوں کو حاصل  کردہ علم کی روشنی  میں مختلف حوالوں سے بیان کرتا ہے۔

پچیس سے پچاس سال کی عمر میں وہ کسی ایسے نقطے کو تلاشنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جسے ہم ایجاد ، نظریہ یا نتیجہ کہتے ہیں۔ساٹھ سال کی عمر کے بعد یا اس سے قبل وہ کسی نہ کسی عارضے میں مبتلا ہو کر جسمانی، عقلی، شعوری قوتوں میں کمی محسوس کرتا ہے اور پھر موت کی دہلیز پر پہنچ جاتا ہے۔
قرآن کریم میں انسانی سوچ و عقل کے بیان میں فرمایا اے نبی ﷺ یہ لوگ روح کے متعلق پوچھتے ہیں توا نہیں بتاؤ کہ روح امر ربی ہے اور انسان کی عقل محدود ہے۔

روح کا بیان اور امر ربی کی پہچان کسی سائنسدان، حکیم یا دانشور کے بس میں نہیں۔ روح، امر ربی اور حکمت الہٰی کی بھی تاریخ ہے جس کا بیان  ظاہری، مادی یا ناسوتی علوم سے ممکن نہیں۔ تاریخ کے علم پر تحقیق کرنے والوں نے الہٰی حکمت اورحکم کو سر تسلیم خم  کیا  اور اس عظیم اور لا محدود علم کی ایک حد مقرر کر دی۔ مورخین عالم نے تاریخ کوتین حصوں میں تقسیم کیا اور اسکا سب سے بڑا حصہ خدا کے سپر د کرتے ہوئے اسے  زمانہ قبل از تاریخ قرار دے دیا۔

قرآن کریم میں فرمان ربی ہے کہ میں نے چھ دن میں آسمان اور زمین بنائے اور ساتویں روز تخت پر قائم ہوا۔ اس  سے پہلے میرا تخت پانی پر تھا۔ مختلف مفسرین، علمائے حق اور اولیائے کاملین نے اپنے اپنے انداز اور علم کے مطابق ان چھ دنوں اور ان  کی  ساعتوں کی تشریح کی ہے۔ قرآنی تاریخ کے مطابق دن کا آغاز صبح صادق سے ہوتا ہے اور اختتام سورج کی کرنیں ختم ہونے اور اندھیرا چھا جانے پر ہوتا ہے۔

سورۃ السجدہ اور  یونس میں دنوں   اور سورۃ التوبہ میں بارہ مہینوں کا بیان ہے۔ سورۃ الحج اور انعام میں  بڑھاپے اور موت تک کے مراحل  بیان ہوئے جوا نسانی تاریخ کی بنیاد ہے۔
الہٰی بیان پر غور کریں تو تخلیق کائنات سے پہلے اللہ کا تخت پانی پر تھااور پانی بھی مخلوق میں ہی شمار ہوتا ہے یعنی خود خالق نے ہی پانی تخلیق کیا جس سے ظاہر ہے کہ تخلیق کا عمل آسمانوں اور زمین کے خلق ہونے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا جس کا تعین کرنا انسانی ذہنی، عقلی اور شعوری دسترس سے باہر ہے۔


یہی وجہ ہے کہ تاریخ دانوں نے  اسے  زمانہ قبل از تاریخ قرار دیکر اپنے علم کی ایک حد مقرر کی اور اُس سے آگے دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ زمانہ  قبل از تاریخ  سے مراد وہ  ساعت، وہ دن ، وہ مہینہ  اور جگہ ہے جب پہلا واقع،  عمل یا حادثہ رونما ہوا اور کسی انسان نے اسے یاد کر لیا یا پھر لکھ لیا ۔دیکھا جائے تو اس پہلے عمل یا واقع کی بھی کوئی مستند تاریخ نہیں یہ تاریخی عمل بھی ایک مفروضہ ہے ۔

بگ  بینگ تھیوری پر کام نیکرنے والے  سائنسدان، ماہرین فلکیات و ارضیات بھی آج تک کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے کہ یہ واقعہ کب ہوا، کتنی دیر تک اس کے اثرات باقی رہے اور پھر اس کے درست  ہونے کے بعد پیدائش کا عمل کب شروع ہوا۔ ٹموتھی فیرس Timothy Ferrisکی  تحقیق
 Banged “  The Whole She “ایک دلچسپ کتا ب ہے۔ کتاب کے پہلے باب روشنی کی   حدیں          Shores of Lightمیں وہ ایک دانشور کا قول دھراتا ہے اور پوچھتا ہے کہ  ہم کہاں سے آئے؟ ہم کون ہیں؟ اور ہم کہاں جارہے ہیں؟ .جواباً وہ قدیم یونانی فلاسفہ کے اقوال و نظریات دہراتا ہے جو محض مفروضات  پر مبنی ہیں۔

قرآن کریم نے انسانی تجسس اور ذہنی خلل کے جواب میں کہا، جب اُن سے سوا ل کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کی طرف سے آئے اور اُسی کی طرف لوٹ جائینگے.  کائنات کے پھیلاؤ، خلاؤں کی ہیت، کائنات  کے حجم، اجسام فلکی میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے ذکر کے بغ بعد و ہ اعتراف  کرتا ہے کہ فزکس کا علم ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگر ایسا کیا گیا تو فزکس کا علم افادیت کھو دیگا۔


سوائے روحانی علوم کے ہر علم ایک انتہا کے بعد زوا ل کی طرف لوٹ آتا ہے یا پھر وہ ایسا رخ اختیار کر لیتا ہے کہ جو انسانی ذہنی و عقلی قوت کے دائرے  سے نکل جاتا ہے۔ علمی بے راہ روی ایک خطرناک مرحلہ ہے جہاں علم اپنی افادیت کھوکر مضریات کا مرکب بن جاتا ہے۔ فزکس کے علم کا تعلق مادے کے تغیر ات سے ہے جبکہ میٹا فزکس (Meta Physics) فلسفے کی ایک شاخ ہے۔

میٹا فزکس اور فزکس کسی حد تو ساتھ چل سکتے ہیں مگر ایک حد کے بعد فزکس یا طبیعات کا وجود تحلیل ہو کر مابعد طبعیات میں کھو جاتا ہے۔ سائنسدان اور ہیت دان ایسا خطرہ مول نہیں لے سکتے جس سے اُن کے تحقیقی عمل  میں خلل آئے یا مطلوبہ نتائج سے پہلے ہی  اُن کی متعین منزل کی راہ بدل جائے۔
ٹموتھی فیرس کو انٹم  تھیوری  کو آخر کار کوانٹم خوف اور ہولناکی سے    تشبہہ دیتا ہے وہ اسے خوفناک آوازوں اور مسلسل اور ہیبت ناک تبدیلیوں کا سمندر قرار دیتا ہے جس کے نتائج اخذکرنا کسی حد تک دشوار ہے۔

طبیعات کے علم اور اُس کی افادیت و مضریت پر ہر طرح کی بحث کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچاکہ خالق کائنات  نے  زمین کا ایک گوشہ انسانوں کے لیے مختص کیا تاکہ وہ کائناتی عمل کے مشائدے سے خوشی حاصل کریں۔ ٹموتھی فیرس کہتا ہے کہ  ہمیں اپنی تحقیق میں خدا کو  بھی شامل کرنا چاہیے  تا کہ پتہ چلے کہ  آخر ہمارا خالق کون ہے . افلاطون، ارسطواور دیگر فلاسفہ و حکما کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ سب اس بات پر متفق تھے کہ کائناتی ماحول میں تبدیلیاں لانے والا خدا ہے مگر ہم اس کی تلاش سے محروم ہیں. ایک اور حوالے  سے لکھتا ہے کہ  جوطاقت  خدا کہلاتی ہے اور تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے اس کی ایک منشا، ایک مقصد اور اٹل ارادہ ہے۔

جب ہم ایک ایسی قوت کے قائل ہو جائیں تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ جو قوت مسلسل تبدیلیوں کا باعث ہے وہی خالق بھی ہے۔ عام زندگی میں جو شخص جو چیز بناتا ہے وہی اس کی مرمت یا پھر آلٹریشن کا ہنر بھی جانتا ہے۔ وہ چا ہے  تو یہ ہنر کسی دوسرے کو منتقل کر دے یا اپنے ہی پاس رکھے یہ اُس کی رضا و منشا پر منحصر ہے۔
وہ سوال کرتا ہے کہ کیا ہم فزکس کی مدد سے خدا کی تاریخ معلوم کر سکتے ہیں؟.  پھر خود ہی جواب دیتا ہے نہیں۔

۔۔
فلسفے  کی  کہانی مصنف  کا ول ڈیورنت  Will Durantاس علم کو خوشیوں کا خزانہ اور بعد از طبیعات  کو  سرابوں کی دنیا  قرار دیتا ہے. وہ کہتا ہے کہ فلسفے کا طالب علم ایک ایسے علمی سمندر میں غوطہ زن ہو جاتا ہے  جہاں کیف وسرور کی منازل سے گزر کروہ گوہر نایاب تلاشنے کی جستجو کرتاہے۔ اس کے نزدیک منطق، تصورات، اخلاقیات، سیاسیات ، جمالیات اور بعد از طبیعاب علم فلسفہ کے بنیادی ستون ہیں۔

اس کے برعکس حضرت امام غزالی ؒ نے اقلیدس (علم ہند سہ و ریاضی )، منطق، الہٰیات اور طبیعات کو فلسفے کی بنیاد قرا ر دیا اور فرمایا کہ فلسفہ بذات خود کوئی علم نہیں۔ ول ڈیورنٹ نے یونانی اور مغربی فلاسفہ کی سوچ پر کام کیا جس کا فائدہ اہل مغرب بھی نہیں اٹھا سکتے۔ ول ڈیورنٹ  کی  کہانی تاریخی لحاظ سے کمزور  اور علم الالہیات سے خالی ہے. ول ڈیورنٹ نے اس علم کی افادیت کو محدود اور آسان کیا تاکہ انسان ایک ایسی  خوشی  کی تلاش میں سرگرداں رہے   جس کا کوئی وجود ہی  نہیں۔

 
 کیرن آرم سٹرانگ Karen Armstrongکی کتاب ”خدا کی تاریخ“ ایک دلچسپ مگربے نتیجہ تحریر ہے۔ کتاب کے مترجم یاسر جو اد نے ابتدا ہی میں مصنفہ کی کتاب کو فضول قرار دیتے ہوئے لکھا ''نہ تھا کچھ تو خدا تھا،کچھ نہ ہوتا، تو خدا ہوتا ''(غالب )اس کتاب میں ابتدائی لوگوں کے خدا سے لیکر یہودیوں، عیسائیوں، مسلمانوں، صوفیو ں اور مصلحین کے خداؤں کا ذکر کیا گیا اور بعض مقامات پر قرآنی آیات کا بھی حوالہ دیا مگر مصنفہ کو روشن خیالوں کا خدا نہ مل سکا۔

مصنفہ کا کتاب لکھنے کا مقصد دہشت گردوں اور بنیاد پرستوں کے خداؤں کو تلاش کرنا تھا۔ جب  ایسا کوئی خدا ہے ہی نہیں تو اس کی تلاش بے مقصد ہے۔
نانین سمارٹ(Ninian smart) کی کتاب مذاہب عالم The Word's Religionsبھی ایک ایسی  ہی  با  تصویر  کاوش ہے۔ کتاب کے تعارف میں لکھا ہے کہ مذاہب عالم کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے چونکہ اسکا تعلق انسانی تخلیق کی کہانی اور تہذیب سے ہے۔

فلسفہ، تاریخ اور دیگر علوم پر تحقیق کرنے والے طالب  علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانی تخلیق، تہذیب اور اس سے متعلق دیگر علوم پر نظر رکھے۔ کوئی بھی انسان عقیدے اور نظریے سے جدا نہیں ہوسکتا۔ عقیدےاور نظریے کو زیر بحث لاتے ہی خدا کا نظریہ سامنے آجاتا ہے .اس نظریے کے  دو راستے ہیں .ایک خدا کی طرف اور دوسرا انسان اور اس کے متعلقہ علوم کی طرف جاتا ہے. خدا کی طرف جانیوالا راستہ مذہب اور عقیدے کی روشنی میں تلاش کیا جاتا ہے اور انسانی تہذیب و  تمدن کا راستہ تاریخ کی روشنی کا محتاج ہے۔

دیکھا جائے تو یہ ایک دائرہ ہے جو گھوم کر ایک ہی نقطے پر آملتا ہے۔
ٹموتھی فیرس فزکس سے متعلقہ تھیوریوں اور فا ر مولوں پر بحث کے بعد تاج محل کی مثال دیتا ہے . کہتا ہے کہ آ گرے میں ایک عظیم الشان عمارت ہے .درحقیقت یہ عمارت سلطان الہند شاہجان نے اپنی محبوب بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروائی۔ اس عمارت کا دوسرا نام ممتاز محل کا مقبرہ بھی ہے۔

ہم نے سنا ہے کہ بادشاہ نے جمنای پا ر ایک ایسی ہی عمارت بنانے کا اردہ کر لیا تھا جس کا رنگ  سیاہ تجویز کیا تھا۔ سفید سنگ مرمر سے بنا تاج محل تو زمین پر موجود ہے مگر سنگ سیاہ سے بنا تاج محل مجوزہ جگہ موجودہ نہیں۔
اگر ہم فزکس کے کسی فارمولے کی مدد سے یہ ثابت کر دیں کہ سیاہ محل مجوزہ جگہ پر موجود ہے مگر ظاہری آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا تو یہ خبر دنیا کے لیے ایک عجیب اور حیر ت ناک خبر ہوگی .دنیا کے بڑے بڑے اخبار اسے پہلے صفحے پر جلی حروف میں چھاپیں گے، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ایک ہنگامہ ہوگا ، محقیقن اور مورخین سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس خبر کی کھوج میں چل نکلیں گے مگر دریائے  جمنا  کے پا رسفید تاج محل کے مقابل سیاہ تاج محل پھر  بھی نظر نہیں آئیگا۔


درحقیقت یہ  ایک تصوراتی تاج محلے ہے جس کا وجود خیال کی لہروں پر تو موجود ہے مگر مادی  و ظاہری وجود نہیں.  طبیعات کا علم مادے کی مختلف اشکال اور اس کی   تبدیلیوں  کی کھوج لگاتا ہے. بعد از طبیعات کا علم  طبیعات کی اگلی اور آخری منزل ہے۔ سائنس اب تک اس بات کا کھوج نہیں لگا  سکی  کہ جہاں روشنی کا سفر ختم ہوتا ہے وہاں موجود بلیک ہول یا سیاہ پردہ کس قدد  بیز ہے اور اس کے پیچھے کا منظر کیسا ہے۔

ٹموتھی نے سیاہ تاج محل کی مثال دیتے ہوئے جہاں سائنس کی حد اور سائنسدانوں کی سوچ پر سوال اٹھایا وہی دوسرے دانشوروں اور یونانی فلاسفہ نے کائناتی  عمل میں مسلسل تبدیلیوں کا باعث بننے والے خدا کے وجود کو تسلیم کرنے اور اُس کی کھوج کا عندیہ بھی دیا ہے ۔
”بائیل، قرآن اور سائنس“ کا مصنف لکھتا ہے کہ قرآن کریم کی خوبی ہے کہ جوں جوں یہ کلا م حضرت جبرائیل امین کے ذریعے نبی آخر الزمان ﷺ پر اتر تا رہا،  کاتبین وحی اسے لکھتے اور یاد کرتے رہے .خلفیہ سوئم حضرت عثمان کے دور میں  قرآن پاک    حفاظ کی ایک بڑی جماعت کی موجودگی میں پھر لکھا گیا اور کئی بار تلاوت کرنے کے بعد اسکا سرکاری ایڈیشن جاری کیا تاکہ آئندہ زندگی میں کوئی دشوار ی نہ ہو۔

یہ کام حضور ﷺ کے وصال سے بارہ سال بعد شروع ہوا اور چوبیس سال تک نہایت باریک بینی اور عرق ریزی کے بعد اختتام پذیر ہوا . قرآن پاک  کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ عروج وزوال کے کسی بھی دور میں قرآن کا مسلمان سے رشتہ منقطع نہیں ہوا بلکہ مادی عروج کے بعد یہ رشتہ مزید مضبوط ہوگیا۔ قرآن کے تراجم  و تفاسیر  ہر زبان میں موجود ہیں اور لاکھوں مسلمان اس کلام کو خوش الحانی سے تلاوت کرتے اور سرور حاصل کرتے ہیں۔

دیکھا جائے تو تورات اور انجیل مقدس کو یہودیوں اور عیسائیوں نے اتنی اہمیت نہ دی اور اپنی سہولت کے لیے ان مقدس کتابوں کا اصل متن ہی بدل دیا۔
قرآن جس  دور میں نازل ہوا وہ دور سائنسی ترقی کا دور نہ تھا جوں جوں سائنس کا سفر ترقی کی جانب شروع ہوا تو قرآن کے خفیہ راز انسان پر کھلنے شرو ع ہوگئے۔ مفسرین اور  محد ثین نے قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں سائنسدانوں کی سوچ و فکر کا رخ ہی بدل دیا۔

دنیا میں کوئی سائنسی علم ایسا نہیں جس کی بنیاد  مسلمانوں نے نہ رکھی ہو۔ حضر ت علی ؓ اور حضرت امام جعفر صادق ؓ   نے  سائنسی علوم محقیقین کے دلوں  میں منتقل کر دیے جس کی روشنی میں آئندہ تحقیق، تفسیر اور تقسیم علم کا راستہ کھل گیا۔
آج  مغرب ذدہ مسلمان علماء کی ایک بڑی جماعت اور اُن کے پیروکار دانشور قرآن کی روحانی حکمت کے نہ صرف منکر  ہیں بلکہ یہ کہہ تمسخراڑاتے ہیں کہ قرآن فزکس، کیمسٹری ،بیالوجی، حساب، الجبرے یا کمپیوٹر سائنس کی کتاب نہیں .ہاں یہ درست ہے اور کند ذہنوں کی تشریح ہے۔

حال ہی میں امام جعفر صادق ؓ کے علم وبیان پر دانشوروں کی ایک جماعت نے تحقیق کی جس کا نام لائٹ ہاؤس آف نالج رکھا گیا۔ یہ مسودہ امام جعفر صادق ؓ کے سائنسی علوم سے متعلق بیانات کا مجموعہ ہے۔ ابوالحہثم، بو علی سینا اور دیگر محقیقن نے امام جعفر صادق ؓ سے جو کچھ حاصل کیا اسی کی بنیاد پر آج   سائنس ترقی کی معراج پر ہے۔ کیرن آرم سٹرانگ کی تصنیف  '' یورپ پر عرب سائنسدانوں کے احسانات'' اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔


سابق ڈائریکٹر جنرل آف  پاکستان اٹامک انرجی کمیشن جناب سلطان بشیر محمود کی تصنیف ’’قیامت اور حیات بعد الموت“ اور شائد محمود ملک کی ''انکشافات حق'' اہل مغرب کی پسندیدہ کتابیں ہیں مگر اہل وطن کو ان سے واقفیت ہی نہیں۔
جناب سلطان بشیر محمود نے اپنی تصنیف میں عالم غیب کے حقائق کا روحانی اور سائنسی تجزیہ قرآن کریم کی روشنی میں پیش کیا جو اسلام، انسانیت اور سائنسی علوم کے طالب علموں کی عظیم خدمت ہے۔

شائد محمود ملک نے قرآن کریم کے انگنت  انکشافات جنہیں  جدید علوم نے دور حاضر میں جانا. نہایت آسان اور سادہ زمان میں بیان کیے تاکہ ہر شخص اسے سمجھ سکے اور فیض حاصل کر ے۔
یورپ جہالت، وحشت، بربریت اور فلاکت کی دلدلوں میں تابفرق ڈوبا ہوا تھا  کہ ہم نے اسے ان غلاظتوں سے نکالا  اور علوم وفنون سے روشناس کیا۔ تہذیب و تمدن کا سبق دیا اور عروج میں عظمت  کی راہوں پر ڈالا۔

یہ ایک انوکھی داستان ہے جسے ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے پیش کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی قابل فخر تصنیف ''یورپ پر اسلام کے احسانات''  کے فلیپ پر لکھا یہ تبصرہ اُن علماء کی ذہنی پستی یک درجہ بلند  کرنے کے لیے کافی ہے جنہیں قرآن میں سائنس کا کوئی نقطہ نظر نہیں آتا۔
''سو کتنی بستیاں ہم نے غارت کر ڈالیں اور وہ گنہگاروں کی تھیں ۔اب وہ گری پڑی ہیں اپنی چھتوں پر ۔

کتنے عالیشان محل اور عمارتیں کھنڈروں میں بدل گئی ہیں۔ کیا تم نے سیر نہیں کی ملک کی اگر ان کے دل  ہوتے تو یہ سمجھتے یا کان ہوتے جن سے سنتے ۔کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر اُن کے سینوں میں دل اندھے ہو جاتے ہیں''۔ (القرآن سورۃ الحج 45/46)
قرآن کریم کا یہ بیان ایسے  ہی اندھوں اور مردہ دلوں کی طرف اشارہ ہے جو مسلمان اور مہذب  ہونے کے باوجود  تاریک راہوں کے مسافر ہیں اور جن کی کوئی واضح منزل نہیں . بقول ٹموتھی فیرس کے ، ہر شخص کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کہاں سے آیا ہے ، وہ کون ہے  ، اور کہاں جا رہا  ہے.  فرمایا : -  جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا ، گویا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا .  تاریخ کائناتی  تخلیق و عمل کی پہچان کا نام ہے . تخلیق و عمل کی تحقیق  علوم ظاہریہ و باطنیہ  کے بغیر ممکن نہیں .   ہر دو علوم کے لیے ضروری ہے کہ انسان ایک نقطے پر اپنی توجہ مرکوز کر لے  اور پھر اسی  نقطے کے ظاہری و باطنی مشاہداتی عمل پر اپنی راہ کا تعین کرے. مشاہدے کی درستگی اور   عمل کی فضیلت کے لیے ضروری ہے کہ وہ  ایک ایسے عامل باعمل یا شیخ اکمل سے رہنمائی حاصل کرے جس کا اثاثہ حقیقی قرآ نی تاریخ کا علم ہو - 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :