سچ گونجتا رہے گا

پیر 27 اپریل 2020

Anwaar Ayub Raja

انوار ایوب راجہ

میں تبلیغی جماعت کا نہ تو رکن ہوں اور نہ ہی میرے قریبی حلقہ احباب میں کوئی جماعتی بھائی ،  بہن یا دوست  ہے ، میں ٢٠٠٢ میں لندن کے پاس ایک  یونیورسٹی میں پڑھتا تھا جب میری ملاقات اسکاٹ لینڈ میں ایک پاکستانی  ڈاکٹر  سے ہوئی . اس دور میں جیسے سب ہوتے ہیں میں بھی ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا اور میرے لیے زندگی کا مقصد کچھ اور تھا .

نہ تو تب میں زاہد تھا اور نہ ہی آج میں کوئی بڑا حاجی نمازی ہوں ، بس اب وقت اور عمر کے ساتھ زندگی میں ٹھہراؤ آ گیا ہے یا آپ کہہ لیں کہ یہ ان ادوایات کا کمال ہے جو آپ کو چالیس سال کی عمر کے بعد سالگرہ کے تحفے کے بطور ملتی ہیں کہ آپ اپنے ہر ایڈوینچر سے پہلے دو بار سوچتے ہیں ، جیسے میں کبھی کے ٹو سر کرنا چاہتا تھا مگر اب بس دل کو یہ کہہ کر تسلی دے دیتا ہوں کہ کبھی ہو سکا تو میں بلتستان جاؤں گا اور اگر ان ہڈیوں میں جان باقی رہی تو اپنے پرانے دوست عمران بلتی کے ساتھ کے ٹو کے بیس کیمپ تک جا کر اس محبوب پہاڑ کو اپنی نظروں کا سلام پیش کروں گا اور پھر میں سکون سے بیٹھ کر کوئی سفر نامہ پڑھ لیتا ہوں اور کچھ اورسوچنے  لگ جاتا ہوں.


میں اسکاٹ لینڈ ٢٠٠٢ میں پہلی بار گیا اور یہاں میری ملاقات جب  ڈاکٹر  سعادت  سے ہوئی تو انہوں نے مجھے کچھ آڈیو ٹیپس کا تحفہ دیا جسے میں نے بیگ میں رکھا اور بھول گیا . میں واپس آیا اور میں نے اپنی  پہلی گاڑی خریدی ، میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ، آمدنی محدود تھی اور تعلیم کے بوجھ کے ساتھ اپنے لائف اسٹائل کو برقرار رکھنے کی فکر بھی تھی ، جو کماتا خرچ کر دیتا ، پھر ایک روز  ڈاکٹر  سعادت کا مجھے فون آیا .

انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آیا میں نے ان کی دی ہوئی ٹیپس کو سنا ہے ؟ مجھے یاد بھی نہیں تھا کہ یہ ٹیپس میں نے کہاں رکھی تھیں . میں واپس اپنے کمرے میں گیا ، جہاں بقول میرے بھائی کے کاغذات اور کتابوں کے ڈھیر میں دفن چیزیں ملتی نہیں ڈھونڈی جاتی تھیں. خیر مجھے وہ ڈبہ مل گیا ، یہ ٹی ڈے کے کی ٹیپس تھیں جن پر کالی روشنائی سے لکھا تھا ' بیان مولانا طارق جمیل' .

میں نے یہ ٹیپس اپنی نئی نویلی سیکنڈ ہینڈ فی ایٹ کار میں رکھ لیں جو اس وقت میں نے  تین سو پاونڈ کی خریدی تھی جب مجھے فی گھنٹہ تین پاونڈ  تیس پینس  تنخواہ ملتی تھی  . میں جس یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اس کے پاس ہی بہت خوبصورت جنگل ، کھلا ہرابھرا میدان اور قدرتی مناظر سے بھرپور علاقہ تھا . یہ جگہ بیڈ فورڈ شائر اور ہارٹ فورڈ شائر کے سنگم پر موجود ہونے کی وجہ سے مجھے بہت پسند تھی .

میں اکثر یونیورسٹی کے بعد گاڑی چلانے کے شوق میں اسی کنٹری روڈ پر نکل جاتا جہاں ایک پٹرول پمپ سے میں  ایک  کافی کا   کپ لیتا اور ایک اونچے مقام پر بیٹھ کر دور دور تک  پھیلے  دیہاتوں  اور وادیوں کو  دیکھتا. ہم کشمیری فطرت پسند ہیں اور ایسا شائد سب انسانوں کے خمیر میں ہوتا ہے ، ہمارے آقا انسانوں میں افضل انسان اور الله کے حبیب جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کو ہمیشہ اپنے وطن کی یاد آتی تھی اور جب انہوں نے مکہ چھوڑا تو مکہ کو مخاطب فرمایا اور بولے ' تُو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔

(جاری ہے)

'
بس یہ میری یونیورسٹی  کی  حسین یادوں میں سے کچھ یادیں ہیں جن میں مولانا طارق جمیل کی ٹیپس کا تذکرہ ان مناظر کے ساتھ ساتھ میرے معمول کا حصہ بن گیا .

ایک روز میں اسی پہاڑی پر بیٹھا کافی کا کپ ہاتھ میں تھامے مناظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور میں نے گاڑی کے ٹیپ پلیر میں مولانا  طارق  جمیل کے بیان والی ٹیپ چلائی ، وہ دن ایک عجیب دن تھا ، میں اس روز اس پہاڑی پر کھڑا  یہ بھول گیا کہ سامنے کے مناظر کیا تھے ، میں تھا اور میری آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کا سیلاب تھا . مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں رو کیوں رہا تھا بس  مجھے اتنا احساس ہو گیا تھا کہ میں کچھ غلط کر رہا تھا  اور میں نادم تھا .

میں روحانیت پر یقین رکھتا ہوں اور میرا ماننا ہے کہ الله پاک ہمارے جسمانی نظام کے ساتھ ساتھ ایک مساوی روحانی نظام بھی چلا رہے ہیں مگر اس میڈیم سے اس میڈیم کو سمجھنے اور دیکھنے کے لیے دل نہیں قلب چاہیے جس کے لیے من چلے کا سودا کرنا پڑتا ہے ، جس کے لیے 'میں' کو قتل کرنا پڑتا ہے اور اپنی ذات کو فنا فی حب مصطفی ﷺ کے پیمانے سے گزارنا پڑتا ہے جو مشکل کام ہے ، یہ دنیا داروں کا کام نہیں ، جسے اپنے لباس، خوشبو، محبوبہ ، سواری اور سوشل سٹیٹس کی فکر ہوتی ہے  وہ کیسے اپنے سرنامے پر کسی ایسے پتے کی مہر لگوائے گا  جہاں امتحانوں کے سوا کچھ نہیں .

اس ٹیپ میں  مولانا طارق جمیل   حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور خلافت  پر بات کر رہے تھے اور مجھے  ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی اس آڈیو ٹیپ  سے میرے  غرور اور   بناوٹ سے بھرپور انسان کے تکبر  کے وجود پر   سوٹیاں برسا رہا ہے .   
یہ  بہت سال پرانی بات ہے  مگر اس ایک  بیان نے مجھے میری کافی ساری الجھنوں سے آزاد کر دیا ، مجھے ڈیزائنر ز   لائف اسٹائل  کے تعاقب  سے واپس بلا لیا .

میں اس روز کے بعد کوئی بہت بڑا صوفی، سالک یا   مرید  صادق تو نہ بنا مگر میں نے اس کے بعدبہت  عرصۂ اپنے آپ کو اپنے محدود وسائل میں زندہ رہنے  میں خوش محسوس کیا  . زندگی رکتی نہیں ہے اور اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں . میں کبھی مولانا طارق جمیل کو نہ ملا مگر اکثر سفر میں ان کا بیان سنتا ہوں اور ان کے  علم سے ہمیشہ  سیکھتا ہوں ، بس میرا طارق جمیل صاحب سے اتنا ہی تعارف ہے یا مجھے ہمارے ایک دوست جو بہاولپور کے رہنے والے ہیں اکثر مولانا طارق جمیل کے بارے میں بتاتے ہیں کیونکہ  مولانا  کے خاندان یا دوستوں کے ان کے ساتھ مراسم ہیں .  میں  کبھی کسی تبلیغی اجتماع میں نہیں گیا اور ہمارے پورے خاندان میں کہیں بھی کوئی شخص اس جماعت میں شامل نہیں ہے .

 
آج میں نے مولانا طارق  جمیل  کے خلاف کچھ  ایسے صحافتی مگر مچھوں کو بولتے سنا اور لکھتے پڑھا ہے جن کی اوقات اس گندے رومال  سے کم نہیں ہے جسے استعمال کے بعد گندگی کے ڈھیر پر  پھینک  دیا جاتا ہے . ان  صحافتی بھیڑیوں کو  یہ  تکلیف ہے کہ   مولانا طارق جمیل  نے انہیں جھوٹا کہا ہے   یعنی چور کی داڑھی میں تنکا .
کوئی  سوچ سکتا تھا کہ دنیا ایک ان دیکھے  وائرس کے سامنے گٹھنے ٹیک  دے  گی ، کیا کبھی ہم نے سوچا تھا کہ یورپ اور امریکہ اپنے بھرپور علمی اور فکری  نظام کے باوجود  ایک  ایسے لاک ڈاون  میں  پھنس  جائے گا  کہ  اس سے باہر آنے کی ان کے پاس ترکیب نہیں ہو گی .

آج سے کچھ ماہ   پہلے  تک  لوگ کہتے تھے الله کا انصاف صرف غریبوں کے لیے ہے ، ایسا لوگ اس لیے کہتے تھے کیونکہ ان کےلیے ان کی زندگیوں کے پچاس ساٹھ سال بہت اہمیت رکھتے ہیں اور وہ کبھی ان سالوں کی قید سے باہر نکل کر نہیں دیکھتے ہیں جبکہ  انسانی تاریخ میں بہت سے  تہذیبیں  آئیں اور تباہ ہو گئیں . میرے رب نے اپنے انصاف اور اپنی دائمی پیغام  کی نشانیاں  اس زمین پر جگہ جگہ چھوڑی ہیں ، ان میں سے ایک نشانی   بابل اور نینوا  کی تہذیبیں ہیں .


دو دریاؤں کے درمیان آباد  میسو پوطامیہ کا علاقہ جہاں  طوفان نوح علیہ السلام کے بعد انسان آباد ہوئے ، انہوں نے ریاستیں اور نظام بنائے اور یہاں سے   ایک نمرود اٹھا  جس  نے خدائی کا  دعوی کیا ، اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈلوایا اور  آخر اس کا انجام بھی ایک مچھر  کے ہاتھوں ہوا جو الله رب العزت کے انصاف کی ایک بہت بڑی  نشانی ہے ، آج  کی دنیا کہ جس نے  ظالم کے بجائے مظلوم کا ساتھ دیا اور کاروباری شراکت کی مضبوطی کو انسانی  جانوں پر ترجیح  دی بھی رب  کعبہ کے اسی انصاف کے سامنے بے بس ہے.

آج ایک وائرس ہر روز ہزاروں انسان مار رہا ہے  جبکہ  انسانی سائنس اور ٹیکنالوجی  ابھی تک   ناکام نظر آتی ہے .  
ایسے ہی ہمارے پاکستان کے صحافتی   نمرود ہیں جو   اپنے ذہنوں پر  تکبر کا لحاف چڑھا چکے ہیں  اور ان کے لیے دین ایک    دوسرے درجے  کی پہچان ہے ، یہ کوے ہنس کی چال چل  رہے ہیں اور کبھی ایک  سیٹھ   کے مجاور ہوتے ہیں تو کبھی دوسرے کے ، ان میں سچائی سننے  کا حوصلہ نہیں ہے ، یہ  کالم نگار اور  دانشور ہیں مگر  بکاؤ مال ہیں  ، یہ مہنگی گاڑیوں ، عالیشان محلات اور امپورٹیڈ سوٹوں میں قید بد بو دار جسم ہیں جن میں الله کا خوف ختم ہو چکا ہے اور یہ اپنا قلم کسی بھی نمرود کی خدائی کو سچ ثابت کرنے کے لیے ' فار سیل' بورڈ کے ساتھ گلے میں ڈالے نئے گاہک کی تلاش میں رہتے ہیں .

کوئی ان کی آمدن کا حساب مانگے تو دشمن، کوئی   ان کے جھوٹ  پر تبصرہ کرے تو  مکار اور کوئی ان کی گندی ذاتی زندگیوں کے بارے میں بات  کرے تو  بیک ورڈ کہلاتا ہے .
مولانا طارق جمیل ایک انسان ہیں مگر ایک اچھے انسان ہیں ،  جیسا میں نے پہلے کہا میں ذاتی طور پر انہیں نہیں جانتا  لیکن  یہ  سوچا جا سکتا ہے کہ  وہ ہم انسانوں کی طرح زندگی جیتے ہیں ، ان کی اولاد ہے ، ان کے گھر میں چولہا جلتا  ہے  اور ان  کا  کمائی کا  بھی کوئی  ذریعہ ہو گا ، ان کے گھر بھی غمی خوشی ہوتی ہو گی  اور مجھے پورا یقین ہے کہ وہ بھی  اپنے بیانات اور تبلیغی  کاموں  کے علاوہ  ایک سماجی زندگی  جیتے ہونگے کیونکہ انہیں اپنے  تلمبے سے بہت پیار ہے .

میں کبھی بھی نہیں کہوں گا کہ  مولانا طارق جمیل  کو اس کسوٹی پر نہ پرکھا جائے جس پر ایک  عالم ، صوفی  یا الله کے پرہیز گار شخص کو پرکھا جاتا ہے مگر  کیا کوئی مولانا کی بات  کو جھوٹا ثابت کر سکتا ہے کہ  پاکستان میں میڈیا میں جھوٹ بولا، چھاپا ، بلوایا اور چھپوایا جاتا  ہے کیونکہ میڈیا ایک کاروبار ہے اور یہ  اینکر اور لکھ پتی  کرائے کے     دانشور  اس کے سیلز پرسن .  بقول  اینکر عمران خان ' ایک عالم دین نے سچ بول کر معافی مانگ لی  کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو  مگر اس کا سچ گونجتا رہے گا '.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :