تاریخ میں صحافت برائے امن

ہفتہ 19 دسمبر 2020

Arham Khan

ارحم خان

تاریخ میں سیاست نفرت و عناد  پیدا کرتی ہے۔جب کہ ثقافتی تاریخ معاشرتی سرگرمیوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ جس میں انسانی رابطوں اور رشتوں کا اظہار ہوتاہے اور جس میں انسانی قدریں اور روایات چھائی ہوئی ہوتی ہیں۔جیساکہ صحافت برائے امن سے مراد صرف تناوٗکے عدم وجود سے نہیں ہوتا۔بلکہ اس کے لئے انصاف کا ہونا ضروری ہے۔تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے۔

تو لگتا یہ ہے کہ ماضی کے لکھاریوں نے تاریخ کو حکمرانوں کے پاوٗں تلے مسخ کردیا ہو۔تاریخ کیوں ضروری ہے؟ تاکہ لوگ ماضی میں ہونے والے واقعات اور تاریخی عمل سے واقف ہوکرزہنی وشعوری طورپرپختگی حاصل کرسکیں۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ پچھلی قومیں جو غلطیاں کرچکی ہیں ان سے بچا جاسکے۔  
تاریخی مطالعہ قوموں کو ایک احساس دلاتاہے۔

(جاری ہے)

ان میں ایک وجدان پیداکرتاہے۔

کہ ماضی کے تجربات سے وہ حال کی رفتار کو سمجھ سکیں۔تاریخ کی سب سے بڑی افادیت اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ یہ معاشرے کی یاد داشتوں کو مجموعی طور پر محفوظ کرتی ہے۔ایک زمانہ تھا۔کہ انسان کے لئے یہ دنیا بہت چھوٹی تھی وہ جس شہر،گاوٗں اور دیہات میں رہتا تھا وہیں پوری زندگی گزاردیتاتھا۔جس کہ وجہ سے اس کے تجربات بڑے محدود ہوتے تھے۔اور اس کی معلومات افواہوں پر ہواکرتی تھیں۔

اس کے مقابلے میں آج کی دنیا بہت پھیل گئی ہے۔اور اس کے ساتھ ہی انسانی زہن بھی پھیلا ہے۔ اب یہ تاریخ کا کام ہے۔کہ وہ دنیاکی قوموں،ملکوں،اور معاشروں کے بارے میں پوری پوری اور صحیع صحیع معلومات فراہم کرے تاکہ یہ انہیں ایک دوسرے کے قریب لائیں۔کیونکہ تاریخ انسان کو صرف انسان کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ اس کے مذہب نسل اور رنگ سے اسے سروکارنہیں ہوتا۔


جو حکمران اور قومیں شکست کھاجاتی ہیں۔تاریخ میں وہ بھی اپنا جائز مقام حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔کیونکہ ان کی جانب سے ان کے حق میں دلائل دینے والا کوئی نہیں ہوتا اور فاتحین کی تاریخ لکھنے والے ان سے ہر برائی کو منسوب کردیتے ہیں۔اس کی مثال ابراہیم لودھی کی شخصیت ہے،پانی پت کی جنگ میں اس کی شکست کے بعد مغل مورخوں نے اس کی شخصیت کو مسخ کرکے پیش کیا۔

اور اسے نااہل اور ظالم حکمران ثابت کیا تاکہ مغل حکومت کے قیام کا جواز پیداہوسکے۔لکھاریوں کی اس مسخ شدہ تاریخ کے نتیجے میں فاتحین کو احساس ملامت اور مفتوح کو احساس جرم سے بھی دور رکھا۔
جاپان میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بموں نے جوتباہی مچائی تو اس کے نتیجہ میں اس کے وہ مظالم جو اس نے مشرقی بعید کے ملکوں میں کئے تھے وہ پس منظر میں چلے گئے۔

اور ان میں اپنے جرائم کے بارے میں احساس جرم نہیں ہوا۔قوموں کے ذہن بدلنے کے لئے اور دنیاسے جنگ وخون ریزی کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے۔کہ فاتحین اور ظالموں میں احساس جرم پیداکیاجائے۔ کیونکہ اس کے بعد یہ ممکن ہوگا۔ کہ لوگ جنگ و جدل سے نفرت کریں گے اور اسی صورت میں دنیامیں پائیدار امن قائم ہوسکے گا۔
صحافت برائے امن کے بانی ڈاکٹر جان گلتونگ نے کچھ اہم اصول قائم کیے جوامن صحافت کے لئے اہم رہنمائی کا کام کرسکتے ہیں۔


1:تنازعات کی تشکیل کو دریافت کریں۔ کون شامل فریق ہیں۔ان کے مقاصد کیا ہیں؟ تنازعہ کا سماجی و سیاسی اور ثقافتی تناظرکیا ہے؟
2:تشدد کی پوشیدہ وجہ کیا ہے؟
3:اس میں شامل فریقوں کی انفرادیت چھین نے سے گریزکریں اور ان کے مفادات کو بے نقاب کریں۔
4:نچلی سطح پر ہونے والے عدم تشدد کے اقدامات کی اطلاع دیں اور مفاہمت کے مراحل کی پیروی کریں۔


 تاریخ کا وسیع تناظر میں مطالعہ نہ کرنے سے ہم عالمی صورتحال اور اپنے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف طاقتوں سے پوری طرح باخبر نہیں ہو پاتے اور نہ ہی اپنے ملک کے حالات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔اس کی مثال اس سے دی جاسکتی ہے کہ جب بنگال ہم سے علیحدہ ہواتو ہمارے ملک کی اکثریت اس شدید دھچکے کے لئے ذہنی طور پر تیارنہیں تھی۔کیونکہ ہمارے شہری اس صحیع تاریخی پس منظر سے واقف نہیں تھے۔

جو پاکستان بنے کے بعد وہاں تشکیل ہواتھا۔
یہی صورتحال آج بھی ہے کہ ہم پاکستان کے چاروں صوبوں کی تاریخ اور وہاں کے بدلتے ہوئے حالات سے ناواقف ہیں اس لئے حالات کے بارے میں صحیع فیصلہ نہیں کرسکتے۔ چنانچہ موجودہ حالات کو سمجھنے کے لئے عالمی تاریخ سے آگہی انتہائی ضروری ہے۔تاکہ تاریخ کو نفرت و تعصب پیدا کرنے کا ذریعہ بنانے کے بجا ئے ا س سے تعمیر و تشکیل کاکام لیاجائے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :