وقت کی قدر کریں اور کروائیں۔۔

جمعرات 17 ستمبر 2020

Ashfaq Awan

اشفاق اعوان

ہمارے ہاں بڑے ہی غیر محسوص طریقے سے کچھ منفی روئیے پروان چڑھ چکے ہیں، ہر آنے والے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔آپ کا خواہ کسی بھی شعبے سے تعلق ہو لیکن وقت کی اہیمت ہم سب کے لئے بہت معنی رکھتی ہے۔ لیکن اکثر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ لوگ اپنے وقت کی قدر کرتے ہیں نہ دوسرے کو کرنے دیتے ہیں
اگر آپ کسی دفتر میں کام کرتے ہیں تو تاخیر سے کام پر آنے والوں کو آپ جانتے ہوں گے۔

ہوسکتا ہے آپ خود بھی اس بری عادت میں ملوث ہوں روز تاخیر سے کام پر آنا اور سو طرح کے بہانے بنانا کہ آج یہ ہو گیا تھا آج وہ ہو گیا یا ٹریفک جام تھی کا کہہ دینا بڑے شہروں میں ایک موثر بہانا بن چکا ہے، میرا مقصد تاخیر سے آنے والے حضرات پر تنقید کرنا نہیں ہے۔ یہاں جو سب سے افسوس ناک صورتحال اور منفی روئیہ جنم لے رہا ہے وہ یہ کہ وقت کی قدر کرنے والوں کا الٹا مذاق اڑایا جاتا ہے، جو شخص وقت پر دفتر آتا ہے اپنا کام کرتا ہے اور ذمہ داری سے کرتا ہے دوسرے ساتھی اسکی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے اسے یہ کہتے ہیں کہ تمہیں کونسا تمغہ مل جانا ہے۔

(جاری ہے)

یا پھر باس کے نیچے لگنے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔جو کہ ایک انتہائی غیر مناسب اور منفی رویہ ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ وقت کی پابندی کو یقینی بنانا چاہیے اگرآپ ایسے نہیں کرتے تو کم از کم جو ساتھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں انکو کام کرنے دیں، کیوں کہ شاید وہ یہ سمجھتا ہے کہ رزق حلال کی کیا اہمیت ہے، کام کے دوران اگر کوئی بھی شخص ڈنڈی مارتا ہے خواہ وہ دفتر تاخر سے آکر ایسے کرتا ہے، کام چھوڑ کر خوش گپیوں میں لگا رہتا ہے تو اسکا مطلب یہی ہے وہ جو معاوضہ وصول کر رہا ہے اسکے مطابق وہ اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کررہااور گھر جو کمائی لے کر جا رہا ہے نہ چاہتے ہوئے بھی اس میں حرام کی ملاوٹ کر لیتا ہے۔

تو مشورہ یہی ہے کہ حرام کمائی سے بچنے کی کوشش کریں اور اصول بنا لیں کہ آپ چاہے نوکری کرتے ہیں یا اپنا کاروبار ، آپ وقت کی قدر کرنے والے بنیں گے، اپنا وقت ضائع کریں گے نہ دوسرے کا ہونے دیں گے،
کوئی طے شدہ ملاقات ہے یا میٹنگ، پہلی ترجیح تو یہی ہونی چاہیے کہ آپ مقررہ وقت پر مقررہ جگہ پر ہوں اگر کسی وجہ سے ایسے نہیں ہو پایا تو دوسرے کو اطلاع دیں کہ آپ کو کتنی تاخیر مزید ہو سکتی ہے اگر وہ اتنا انتظار کر سکتا ہے تو ٹھیک ورنہ یہ ملاقات یا میٹنگ کسی اور دن پر رکھ دیتے ہیں،لیکن یہاں ہوتا کیا ہے کہ ہم پانچ منٹ، پانچ منٹ کا کہہ کر دوسرے کو گھنٹوں انتظار کی سولی پر لٹکائے رکھتے ہیں۔

اوپر سے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں کہ ابھی آیا ، اس سے کہیں زیادہ مناسب ہے آپ ایک بار میں دوسرے بندے کو پوری بات بتا دیں اس سے کم از کم یہ ہو گا وہ دوہرےعذاب سے بچ جائے گا، لیکن یہاں پر بھی ہارے ہاں منفی رویہ پایا جاتا ہے ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری کی جاتی ہے، تاخیر سے آکر بھی لوگ ندامت محسوس نہیں کرتے، بلکہ دوسرے کو کہہ رہے ہوتے ہیں ذرا سا انتطار کیا کرنا پڑا آپکو تو موت پڑنے لگ گئی ہے، معذرت کے ساتھ ہمیں اس روئیے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

اسکے لیے وقت کی پابندی کرنے والوں کو آواز بلند کرنا چاہیے، وہ ایسے کہ آپ کا کوئی ساتھی،  دوست ایسے بار بار کرتا ہے تو اس کو واضح کر دیں کہ ایسے دوبار نہیں ہونا چاہیے، اگر دوبار ایسے ہوا تو میں ایک لمحہ بھی انتظار نہیں کروں گا، یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے اگر دوسرے شخص کو آپ کی قدر یا ضرورت ہے تو وہ آئندہ وقت کی پابندی کا خیال کرے گا، ورنہ ایسے منفی رویے رکھنے والوں کا زندگی سے منفی ہو جانا ہی سود مند ہے۔

یہ اصول شاید کچھ سخت سا معلوم ہوتا ہے لیکن خرابیوں کو ٹھیک کرنے کے لئے محنت درکار ہوتی ہے۔ جیسے حکومت کے غلط اقدام کے خلاف شہری احتجاج کرتے ہیں ایسے ہی ہمیں منفی روئیے رکھنے والے دوستوں اور ساتھیوں کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے، تاکہ وہ اس میں سدھار لے کر آ سکیں، تاکہ وہ اپنی مشکلات بڑھائیں نہ دوسرے کی پریشانی کا موجب بنیں۔ آغاز میں بہت سے لوگ اپنی عدات ٹھیک کرنے کی بجائے آپ سے ناراض ہوں گے لیکن آپ نے گھبرانا نہیں ہے مثبت رہتے ہوئے آپ نے اصولوں پر ڈٹے رہنا ہے کیونکہ اگر آپ خود اپنی یا اپنے وقت کی قدر نہیں کرتے تو پھر کسی دوسرے توقع رکھنا بے معنی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :