لاہور سیالکوٹ موٹروے زیادتی کیس: کیا اب انصاف ہو گا؟

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Ashfaq Awan

اشفاق اعوان

پاکستان میں  جنسی زیادتی کے واقعات  کوئی نئی بات  نہیں ہے،آئے روز  جنسی درندگی  کے   خبریں  پرنٹ و الیکڑوک میڈیا پر چلتی ہیں۔ لیکن کچھ ایسے ہولناک واقعا ت بھی ہوتے ہیں جو پورے ملک  کوجھنجوڑنے کے ساتھ ساتھ شرمسار بھی کر جاتے ہیں ایسا ہی ایک  واقعہ لاہور سیالکوٹ موٹروے پر پیش آیا  جہاں   ایک کار سوار خاتون  کو اسکے بچوں  کے سامنے  ریپ کا نشانہ بنا دیا گیا، خاتون لاہور سے گوجرانوالہ جا رہی تھی راستے میں پیٹرول ختم ہوا تو گاڑی  روک کر مدد کا انتظار کرنے لگی، ایسے میں  دو نامعلوم افراد نے اسکی مدد کرنے کی بجائے ڈکیتی کی واردات کے ساتھ اسے زیادتی کا نشانہ بھی بنا دیا۔

۔ ایسے میں سی سی پی او لاہور عمر شیخ کا یہ بیان کہ تین بچوں کی ماں اکیلی رات گئے اپنے گھر سے اپنی گاڑی میں نکلے تو اسے سیدھا راستہ لینا چاہیے ناں؟ اور یہ بھی چیک کرنا چاہیے کہ گاڑی میں پیٹرول پورا ہے بھی یا نہیں، اس واقعے  اور سربراہ لاہور پولیس کے بیان کے  بعد ایک  بار پھر یہ بحث چل نکلی ہے کہ کیا پاکستان خواتین کے لیے محفوظ ہے، کیا ریپ ہونے کی ذمہ  ہم متاثرہ خاتون پر ڈال کر خود کو بری الذمہ  سمجھ سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

سوچیں اگر آپ گھر سے نکلیں اور راستے میں کچھ لوگ آپ کو گھیر لیں، آپ کے ساتھ زبردستی کریں اور پھر آپ کا بٹوا، فون، گھڑی چرا کر بھاگ جائیں۔۔۔ تو اس میں قصور آپ کا ہوگا یا پھر ان مجرموں کا؟ لیکن  پولیس کے اعلی افسر کی جانب سے یہی تاثر دیا گیا ہے کہ پہلا قصور زیادتی کا شکار خاتون کا ہے جو غلط راستے پر گئی اور اسے اپنی غلطی کو خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔

سوشل میڈیا پر خواتین کی جانب سے  یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں  کہ پاکستان میں زیادہ تر مرد ایسا ہی سوچتے ہیں۔ وہ ہمیشہ عورت کو ہی قصوروار ٹھہرانے کا کی کوشش کرتے ہیں کبھی عورت کے کپڑے ٹھیک  نہیں ، یا ان کا رویہ  مناسب نہیں تھا  جس  کیو جہ سے اس کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا ۔خواتین کی جانب سے یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ خواتین کے لیے اکیلے سفر کرنا، اکیلے رہنا اور اکیلے سانس لینا کب محفوظ ہو گا۔

سی سی پی او لاہور کی  جانب سے مظلوم  خاتون کو قصور وار  کہنا  متاثرہ خاندان   کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترداف ہے، حکومت پنجاب  کو سی سی پی او  کے بیان کا سختی سے نوٹس لینا چائیے اور متاثرہ خاندان فوری انصاف کی فراہمی یقینی  بنائی چاہیے۔ وزیراعلی پنجاب سردار عثمان  بزدار نے  بھی ٹویٹ کرتے ہوئے  کہا ہے کہ شہریوں کو تحفظ اور انصاف کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے. ہمارا منشور ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جہاں دن ہو یا رات، خواتین/بچے اکیلے ہوں یا اپنےخاندان کے ساتھ، وہ خود کو محفوظ سمجھیں موٹروےکیس میں ہر صورت انصاف ہو گا اور متاثرہ خاتون کےساتھ ظلم کرنےوالوں کو سخت سزا بھگتنا ہو گی۔

لیکن حکومت کا سابقہ ریکارڈ دیکھیں تو  ان بیان بازیوں سے ڈر ہی لگتا ہے۔ کیونکہ  وزیراعلی پنجاب نے سانحہ ساہیوال، صلاح الدین قتل میں بھی ایسے ہی کہا تھا کہ  ہر صورت انصاف ہو گا اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے گا، پھر جیسا  انصاف  ہوا اس سے انصاف آج بھی شرمندہ ہے۔لیکن دینا امید پر قائم ہے  ہم اس بار پھر  امید کرتے ہیں کہ حکومت متاثرہ خاندان کی تکلیفوں میں اضافہ کرنے کی بجائے اس کو فوری انصاف فراہم کرے گی،  دوسری جانب  پاکستان میں جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات  حکومت کے ساتھ  بطور معاشرہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔

  خرابی کہاں ہے  یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔جب ایسے واقعات تواتر سے ہو رہے ہوں تو وقتی مرہم پٹی سے کچھ نہیں ہوگا، ایسی پالیساں اور قوانین لیکر آنے ہونگے جس سے  ایسے جرائم پر قابو پایا جا سکے، لیکن پاکستان میں قوانین تو پہلے سے ہی  موجودہیں  مگر مسئلہ صرف ان پر عملداری اور ذمہ داری کا ہے ۔جرائم پیشہ  عناصر کے دل سے قانون  کا خوف کیوں ختم ہو گیا ہے ، حکومت اپنی رٹ کیوں نہیں  قائم کر  پارہی۔کیا ہمیشہ ایسے ہی ہوتا رہے گا  جب کوئی واقعہ رونما  ہوگا ، چند دن کے لئے  ادارے حرکت میں آئیں گے پھر سو جائیں گے۔یہ  وہ سوالات ہیں  جوآج  ہر باشعور شہری پوچھ رہا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :