پولیس ریفارمز کیوں ضروری ہیں؟‎

جمعہ 18 ستمبر 2020

Ashfaq Awan

اشفاق اعوان

سی سی پی او لاہور عمر شیخ جس دن سے لاہور پولیس  کے سربراہ بنے ہیں مسلسل خبروں میں ہیں اور مختلف تنازعات کا شکا ر ہیں ۔ حکومت کی غیرمشروط حمایت ان کے ساتھ ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں بالخصوص  تخت لاہور کی دعویدار جماعت مسلم لیگ ن  کو  عمر شیخ کی تعیناتی ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں کی جانب سے   مسلسل اس بات کی نشاندہی کی جارہی ہے کہ عمر شیخ کو لاہور میں  سیاسی مقاصد کے لئے لایا گیا ہے تاکہ مخالف جماعتوں کو زیر عتاب لایا جا سکے مگر حکومت کا کہنا ہے کہ  یہ تعیناتی میرٹ پر کی گئی ہے جس کا بنیادی مقصد  بڑھتے ہوئے جرائم کی بیچ کنی کرنا اور پولیس اصلاحات کرنا ہے۔

عمر شیخ کی تعیناتی میرٹ  پر ہے یا سیاسی مقاصد کے لئے یہ تو وقت ہی ثابت کرے گا۔

(جاری ہے)


ایسے میں لاہور سیالکوٹ موٹروے زیادتی کیس رونما  ہوتا  ہے اور سی سی پی او لاہور کی جانب سے مظلوم خاتون کو  قصووار قرار دینے کا بیان سامنے آتا ہے، اپنے بیان پر  وضاحتیں دینے کے بعد اب وہ پوری قوم سے اپنے بیان پر معافی مانگ چکے ہیں لیکن ان کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ ہے کہ زور پکڑے جا رہا ہے۔

اپوزیشن جماعتوں، کچھ حکومتی حلقوں  اور سماجی کارکنوں کامطالبہ ہے کہ سی سی پی او لاہورکو فوری عہدے سے ہٹایا جائے اور غیرمناسب بیان پر ان  کو جواب دہ بنایا جائے، اب دیکھنا یہ ہو گا کہ حکومت کب تک عمر شیخ کی تعیناتی کو روک پاتی ہے لیکن فی الحال تو  ساری توپوں کو رخ ان کی جانب سے ہے ۔ ان توپوں کا رخ  وہ بیان باز ی   کی بجائے   اپنی پیشہ وارنہ کارکردگی سے ہی موڑ سکتے  ہیں۔


سی سی پی او لاہور عمر شیخ  نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی میٹنگ میں اعلان کیا تھا کہ اب لاہور پولیس کو غیر جانبدار بنایا جائے گا، جو پولیس  اہلکار یا افسر غیر قانونی سرگرمی میں ملوث پایا گیا  وہ اس کو معطل کرنے کے ساتھ ساتھ ہتھکڑی لگا کر حوالات میں بند کر دیں گے۔ مقدمہ کا اندراج بھی کیا جائے گا، اس  پر انہوں نے کام کرنا شروع بھی کر دیا ہے۔

رشوت ستانی، غلط تفتیش، حقائق کو مسخ  کرنے سمیت نجی ٹارچر سیل  بنانے  کی پاداش میں لاہور کے مختلف تھانوں  کے ایس ایچ او ز سمیت چھ اہلکاروں کو حوالات کی  بند کیا جا چکا ہے۔
 یہ ایک اچھا آغاز ہے کیونکہ  جب تک ملک میں پولیس ٹھیک نہیں ہوتی انصاف کا بول بالا نہیں ہو سکتا۔ آپ سب جانتے ہیں  ہمارے ملک میں  پولیس کا نظام کتنا خراب ہے،بیشتر افراد کا ماننا ہے کہ اگر پولیس  ریفارمز  کر لی جائیں تو جرائم کی شرح خود بخود نیچے آ جائے گی۔

بہت سارے جرائم میں کئی تھانوں کے پولیس اہلکار خود ملوث ہوتے ہیں یا  جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی  کر رہے ہوتے ہیں۔ ان حالات میں بیشتر شہریوں کی کوشش یہی ہوتی ہے وہ تھانے ، کچہری سے  جتنا دور  ہو سکتے ہیں دور ہو جائیں، اس کی بنیادی وجہ  ہم ابھی تک وہ ماحول   پیدا ہی نہیں سکے جس میں شہری  انصاف کے حصول کے لئے پولیس پر اعتماد کر سکیں۔

پولیس پر شہریوں کا اعتماد  تبھی بحال ہو سکتا ہے جب پولیس کلچر میں مثبت تبدیلیاں  لائی جائیں گی اور یہ تب تک ممکن نہیں  جب محکمہ پولیس کو درکار فنڈز مہیا نہیں کیے جاتے ، چائے پانی کے پیشے  بھی  شہریوں کی جیبوں سے  لینے  پر مجبور فورس کبھی بھی غیرجانبدار رہ کر تفتیش نہیں کر سکتی، جب تفتیش میں  ہی نقائص  ہونگے تو  عدالتوں سے انصاف   کیسے مل سکتا ہے۔


22 سالہ جدوجہد کے بعد  جب تحریک انصاف کو2018 میں حکومت ملی تو تبدیلی سرکار نعرہ بھی یہی تھا  کہ وہ  ملک میں تبدیلی کے ساتھ پولیس ریفارمز کو بھی یقینی بنائے گی۔ وزیراعظم  عمران خان کی  دو سالہ حکومت میں  اب تک  یہ نعرہ  تعبیر کی تلاش میں ہے ، آئی جیز کی تبدیلی کے علاوہ  حقیقی تبدیلی کوتا  کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ اب دیکھنا یہ ہے  حکومت اپنے باقی دور اقتدار  میں  کتنی سنجیدگی کے ساتھ  پولیس اصلاحات پر کام کرتی ہے اور شہریوں کے مجروح شدہ اعتماد کو کیسے بحال کرتی ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :