جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلےتو جان سےگزرگئے

پیر 31 مئی 2021

Asia Anwar

آسیہ انور

ٹھرٹھراتی،کپکپاتی سردی میں آریان شام کےوقت بیڈپہ لیٹا دیواروں کودیکھ رہاتھا۔ایسےمعلوم ہورہاتھاجیسےمن ہی من میں وہ ان بےجان دیواروں سےباتیں کررہاہو۔اچانک اس کی آنکھ لگ گئ وہ ابھی کچی نیندمیں ہی تھاکہ اسکوحسب معمول آوازیں سنائی دینےلگی۔مانوکوئی اسکانام پکاررہاہو۔ بار بارجیسےکوئی دستک دےرہاہو۔کوئی اپنی طرف بلارہاہو۔

وہ ہڑبڑاہٹ میں جلدی سےاٹھ بیٹھا۔اپنی ادھ کھلی آنکھوں سےدیکھاتوآس پاس کوئی نہیں تھا۔اسنےساینڈمیزپرپڑےجگ کواٹھایالیکن جیسےہی گلاس میں پانی ڈالنےکی کوشش کی۔سارے کاساراپانی فرش پہ بچھےقالین پرجاگرا۔اتنےمیں اسکے اباجان کمرےمیں کھانستےہوئےداخل ہوئے۔
"اباجی!! وہ میں نےآج۔۔۔" (آریان تیزی سےبیڈسےنیچےاترتاہوا بولا)اباجان نےآریان کووہیں بیٹھنےکااشارہ کرتےہوئےکہا "بیٹا،جاوعشاءکی نمازکاوقت ہوگیاہے،نماز اداکرلو۔

(جاری ہے)

"اباجی وہ۔۔۔میں۔۔ آریان دائیں بائیں کرنےلگا۔اباجی نے روزکی طرح ماتھےپر تیوری چڑھائی اور آریان کو نالائق اورکاہل کہہ کرکمرےسےرخصت ہوگئے۔آریان پریشانی کی حالت میں کتاب کوسینےپہ رکھ کردیواروں کودیکھنےلگا۔وہ اپنےاندر چھڑی جنگ کو اکیلا لڑ رہا تھا۔ کبھی انکھوں سے جاری آنسووں کو پونچھتا تو کبھی انکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرتا۔

وہ دل میں دعا کر رہا تھا کہ اے مالک میں تھک گیا ہوں یاتومجھے میرے نفس سے لڑنے کی ہمت عطا کر دے یا مجھےاپنے پاس بلا لے۔
بلاآخر وہ سو گیا۔ رات کے دو بجے پھر اس کی انکھ کھل گئ۔ جانے اس کو خواب میں کیا نطر آیا کو وہ اس بار گھبرائے بغیر اٹھا اور وضو کر کے جائے نماز پہ جا کھڑا ہوا۔ دو نفل شکرانے کے ادا کئے اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لئے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اس کو کوئ راہ مل گیا ہو وہ اپنے مالک کا بارہاں شکر ادا کررہا تھا۔

اس کی انکھوں سے نکلنے والےآنسواسکے چہرے کی مسکراہٹ کو مات نہیں دے پا رہے تھے۔جیسے وہ اب زندگی کی سختیوں اور تلخیوں سے  اپنے نفس کو مار کر لڑنے کے لئے تیار ہو۔
کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ آریان پانچ وقت کا نمازی ہونے کے ساتھ ساتھ اب دو دفعہ ناکامی کے بعد بارھویں کا امتحان پاس کرگیا۔ اس کے اندر سیکھنے کی لگن اس کو اگے بڑھنے سے روک نہیں پا رہی تھی۔

وہ اس بات کو بھول چکا تھا کہ اس کو اسکے اپنے کاہل اور نالائق کہا کرتے تھے۔ اب وہ اپنی زندگی میں آنے والی ہر چٹان کا ڈٹ کر سامناکرتااور روزبروزترقی کی منازل طہہ کرتاجارہاتھا۔سننے میں آیاکہ آریان کو عالمی سطح پر کام کرنے والی ایک فلاحی تنظیم میں کام کرنے پر ایواڑ سے نوازا گیا۔ آریان کا اس بات پہ یقین پختہ ہو گیا تھا کہ نفس سے لڑائی صرف اور صرف ڈٹ کر اور پختہ عظم سے ہو سکتی ہے۔

آریان کو سنائی دینے والی آواز اس کے اندر کی آواز تھی جو گہے بگہےہر انسان کو سنائی دیتی ہے۔کوئی اسکواپنےنفس کی چیخ سےخاموش کرادیتاہے تو کوئی پہاڑ کی طرح ڈٹ کر جان سے گزر جاتا ہے۔ آریان جب تک اپنے نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر رکا ہوا تھا تو تو ایک میشن کی مثل کام کر رہا تھاجسے جو چاہے اپنی مرضی سے چلا لے لیکن جیسے ہی اس نے چلنا شروع کیا وہ اپنےآپ میں آیک مثال بن گیا۔ اب اس کو لوگ مفتی آریان کے نام سے جانتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :