لہو سے گیلا آنچل

جمعرات 7 فروری 2019

Asif Masood

آصف مسعود

میرے عزیز محافظو! یہ جان کر آواز گھٹ گئی اور آنکھیں فرات بن گئیں کہ تم نے ماں کو بھی مار ڈالا! کیوں؟ ماں اتنی خطرناک ہو گئی تھی؟ کیا خطرہ تھا اس سے؟ پہلے تو یہ رویہ صرف باپ سے روا تھا۔تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ جس بچے کی وہ ڈھال بنی، اور اپنے محبت بھرے سینے پر تمہاری گولیاں روک کر اپنی ممتا کی لاج رکھی اور اپنے خون آلود جسم سے تمہاری عقابی نگاہوں سے اوجھل کر کے اپنے لخت جگر کی جان بچائی، اب وہ کس سینے پر سر رکھ کر قرار پائے گا؟ اور یہ کہ آسمانوں کی بلندیوں سے زمیں کی پستیوں پر وہ کیوں اترا؟تو میرے عزیز ترین محافظو! اس کے زمین پر اترنے کی وجہ صرف اور صرف اس کی ماں تھی۔

اس سے پہلے کہ تمہاری بندوق ایک اور ماں پر گولیاں اگلنے کا قصد کرے، ذرہ ماں پر اس کا مان ملاخطہ فرما لیجئے۔

(جاری ہے)

وہ شیر خورہ اگر چاہے تو ایک جست میں بیکنٹھ باشی (بہشت بریں کا باسی) ہو جائے۔وہ ہم جیسے ظالموں سے دور کیوں نہیں جانا چاہتا؟اس لئے کہ وہ اپنی ماں کے سینے پر سر رکھ کر ابدی قرار چاہتا ہے۔اس لئے کہ ماں کا سینہ بلند و بالا صدا دیتا ہے کہ تم سب جو محبت کرتے ہو، اور بوجھ سے لدے ہوئے ہو، آوٴ میرے پاس آوٴ، میں تم کو قرار دوں گا۔

وہ کسی قیمت پر اس شفیق مجسمے کے دلکش نظارے سے محرومی نہیں چاہتا۔یہ بچہ ہر ہیئت کی عقلی سخنوری سے آگاہ ہے۔وہ الگ بات کہ روئے زمیں پر اس کو سمجھنے والا کوئی نہیں۔
یہ بے سود نہیں ہے کہ وہ اپنے لب وا کرنا نہیں چاہتا؟اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ وہ اپنی پیاری ماں کے لبوں سے اترنے والے الفاظ کے جھرنے سے سیراب ہونا چاہتا ہے۔اسی لئے وہ اتنا معصوم دکھائی دیتا ہے۔

اور باتوں پر آن و ادا کو ترجیح دیتا ہے۔اس بچے کے پاس سونے اور موتیوں کا ایک انبار تھا۔پھر بھی وہ زمین پر ایک بھکاری کے روپ میں اترا۔پر یہ کون سمجھے کہ اس بھیس میں وہ کیوں آیا؟یہ پیارا سا ننگا اور ننھا سا منگتا اپنے آپ کو اتنا مجبور محض کیوں ظاہر کرتا ہے؟اس لئے کہ وہ ماں کے خزان محبت سے بھیک چاہتا ہے۔وہ ننھی سی سرزمین ہلال کا باسی جو ہر زنجیر سے آزاد تھا۔

یہ کون سمجھے کہ اپنی اس آزادی سے وہ دستبردار کیوں ہوا۔اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ ماں کے دل کے اْس ننھے سے گوشے میں مسرتوں کا بحر بیکراں مستور ہے۔ماں کے نرم و ملائم بازووٴں کی زنجیروں میں جکڑے جانے کو اس نے آزادی سے بڑھ کر شیریں جانا۔شیر خوار کیا جانے کہ نالا کیسے کرنا ہے؟وہ تو سمپورن محبت کی دھرتی کا باسی ہے۔پھر یہ کون جانے کہ اس نے آنسو بہانے کو کیوں ترجیح دی؟جبکہ اگر وہ چاہے تو اپنے معصوم چہرے کی دل لبھاتی مسکراہٹ سے ماں کے دل مشتاق کے تار ہلا دے۔

لیکن چھوٹی چھوٹی مشکلات پہ اس کی یہ آہ و زاریاں دلبری کا دوہرا بندھن بْنتی ہیں۔اور پریم کے دھاگے زیادہ بہتر انداز میں ترتیب پاتے ہیں۔رات ہر چند کہ سازش کی طرح ہے گہری صبح ہونے کا مگر دل میں یقیں رکھنا ہے۔میرے عزیز محافظو! اپنی بندوقوں کی نالیاں اب صاف کر لو اور آئندہ انہیں ماوٴں کی حفاظت کے لئے بروئے کار لائیے گا۔ کہ بیٹے اپنی ماوٴں سے شدت سے پیار کرتے ہیں۔ آئیے اس حقیقت پر سوچیں اور چپکے چپکے احمد فراز کو پڑھیں۔
اس عہد ظلم میں میں بھی شریک ہوں جیسے
مرا سکوت مجھے سخت مجرمانہ لگا 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :