اس گھر کی کون دیکھ بھال کرے؟

منگل 5 فروری 2019

Asif Masood

آصف مسعود

ٹنڈو محمد خان کا نیلا آسمان تنا ہوا تھا اور سکول کی طرف جاتے کچے راستے کی دونوں جانب آم کے باغوں کے درخت باد صبا میں جھوم رہے تھے۔ جب اس کے والد نے اسے تعلیم دلوانے کیلئے سکول داخل کرایا۔ انہیں رشتہ داروں اور مقامی لوگوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑا اضطراب تھا، شام میں، موسم میں، اور ان کے دلوں میں۔ اس تباہ کن اور خود شکن خرابی کی وجہ سے یہ فیصلہ ہوا کہ ہجوم کے ساتھ غلط راستے پر چلنے سے بہتر ہے کہ درست راستے پر تنہا سفر کیا جائے۔


اس نے ان پرجوش باتوں پر ٹھنڈا چھینٹا مارا اور پھر اس دعا کے ساتھ، کہ اے اللہ تو ہمیں کوئی وسیلہ عطا کر، جو ہماری ناطاقتی، ناسمجھی اور نااہلی کا بوجھ اٹھا سکے، اور پھر اس بات سے بے نیاز کہ آنے والے کل کی بند مٹھی میں کیا ہے۔

(جاری ہے)

 انھوں نے اپنا خوبصورت آبائی گاوٴں بھائی خان تالپور چھوڑ دیا۔ ان کے چہروں پر آنسووٴں نے دھاوا بول دیا جب انہوں نے تعلیم کی خاطر، اپنوں ہی کی مخالفت کے سبب، اپنا خوبرو گاوٴں چھوڑ کر ساتھ والے قصبے میں پڑاوٴ ڈال دیا۔

کہ اس کا والد تعلیم اور اپنی آزادی سے بہت محبت کرتا تھا۔ وہ دوسروں کیلئے بے ضرر رہنا پسند کرتا تھا۔ خدا اور زندگی نے اس پر ہمیشہ رحم کھایا کہ وہ ان ساعتوں کی نگرانی کرتا جن میں اسے کبھی کوئی خوشی ملی۔
ازاں بعد انہوں نے ہونٹوں پر کبھی شکایت نہ آنے دی اور چہرے مسکراہٹ سے مزین رہے۔ لوگوں کی بوچھاڑ، زیادتی اور ناسمجھی کو وہ اسی مسکراہٹ پر روکتے رہے۔

اس ہونہار نے بھی اپنے والد کے سر کو خمیدہ نہ ہونے دیا۔ سر پھینک کر پڑھتی رہی اور دیکھتے ہی دیکھتے مختلف منازل طے کرتے ہوئے پوری سولہ جماعتیں پڑھ ڈالیں۔ پھر سی۔ ایس۔ ایس کر کے اس نے اپنے والد کی روح کے شگاف بھر دیئے۔ ان کا سر فخر سے بلند اور مخالفین کے منہ بند کر دیئے۔
آنکھ نیلم کی، بدن کانچ کا، دل پتھر کا
اپنے شاہکار کو کون اتنی صفائی دے گا
ضلع ٹنڈو محمد خان کے گاوٴں بھائی خان تالپور کی یہ گم نام پری پیکر چند دن پہلے چینی قونصل خانے پر ہونے والے حملے میں ایک رومانوی کردار بن کر سامنے آئی ہے۔

اب یہ فیصلہ کرنا ذرہ مشکل ہے کہ یہ اس باکمال خاتون کی ہنر مندی ہے، ہمارے باکمال ذرائع ابلاغ کی متخیلہ کی کرشمہ سازی ہے یا پھر خاتون افسر کے جوہر شناس افسران بالا کے ذہن رسا کی کاریگری ہے۔ ہمیشہ کی طرح ہر قسم کی تعریفیں اس بہادر غازی خاتون افسر پر ڈھیر کر دی گئی ہیں۔ جبکہ دو شہید سپاہیوں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ وہ کون تھا جو خاک میں روپوش ہو گیا۔

تاج دیتا ہے وہ شاہوں کے سروں کو طاہر
پا برہنہ کو تو وہ آبلہ پائی دے گا
اس میں کسی حد تک تذکیروتانیث کا رنگ بھرنے کی بھی سعی کی گئی ہے۔ جیسا کہ ایک تقابلی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے کہ خواتین بھی اتنی ہی بہادر ہیں جتنے کہ ارکان جنس مخالف۔ بلکہ سر توڑ کوشش ہو رہی ہے کہ زیادہ خوش آئند ہو گا اگر خواتین کو کچھ برتری عطا ہو جائے۔

حالانکہ افسران بالا میں سرے سے ایسا کوئی معاملہ ہے ہی نہیں۔ وہ تو بلا لحاظ تذکیروتانیث ایک خاندان کی طرح ہیں۔ یہ جہالت تو صرف نچلے طبقے میں پائی جاتی ہے۔
بہادر تو، بلا لحاظ جنس، ہمارے تمام افسران بالا ہیں۔ چاہے وہ کسی بھی شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہوں۔ چاہے وہ مرد ہیں یا خواتین، چاہے وہ وردی میں ملبوس ہیں یا دوسرے خوبصورت رنگا رنگ ملبوسات میں۔

یہ ایک خاندان ہے جو ایک دوسرے کو پروموٹ کرنے کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ اس رنگا رنگ خاندان کے ارکان آج بھی توقع رکھتے ہیں کہ پہنچنے پر کوئی ان کی گاڑی کا دروازہ کھولنے کیلئے مستعد کھڑا ہو اور کوئی دوسرا ان کا بریف کیس اٹھا کر ان کے خوبصورت دفتر تک ان کے پیچھے چلے۔ پھر بڑھ کر دفتر کا دروازہ کھولے کہ صاحب اندر قدم رنجہ فرمائیں۔
پھر دفتر کے اندر کے کچھ اور چونچلے۔

جیسے اے۔سی تشریف آوری سے بہت پہلے چلایا جا چکا ہو، ٹھنڈے لیمن جوس یا تازہ پھلوں کے رس کا جگ کرسی کے دائیں جانب سجایا جا چکا ہو۔ دہکتی چائے کا کپ یا بھاپ چھوڑتی کافی کا مگ میز پر رکھ دیا گیا ہو۔ اس کے علاوہ حسب خواہش و ضرورت کچھ اور پیش کرنے کیلئے ایک خادم عاجزانہ خود سپردگی کے ساتھ ہمہ وقت مستعد رہے۔ عام طور پر یہ مستعد ملازمین صاحب کے گھرانے کیلئے اور ان کے بچوں کیلئے دعا کرنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

اور خداوندکریم سے اصرار کرتے رہتے ہیں کہ وہ ان کی دعائیں ہر صورت قبول کرے اور ان اصحاب باصفا کے گھرانوں کو اپنا لطف بیپایاں اور خیر کثیر عطا کرے۔ ہاں کبھی کبھار ان مانے جی سے ان کی چھوٹی بڑی کمینگیوں کے تفصیلی تذکر کرتے بھی پائے جاتے ہیں۔
نابینا قانون وطن میں جاری ہے
آنکھیں رکھنا جرم قبیح ہے
جو افسر نہیں ہیں ان کا یہ فرض ہے کہ اپنے افسران بالا کی شان اور بہادری کے شاندار قصیدوں کی خاطر جان دینے سے بھی گریز نہ کریں ورنہ ان کا شمار بزدلوں اور غداروں میں ہو گا۔

ان کا فرض ہے کہ صاحب کو خوش کرنے کیلئے تالی بجائیں اور انہیں محبت عطا کرنے کیلئے جپھی بھی ڈالیں۔ ذرائع ابلاغ نے ہمیشہ کی طرح اب کی بار بھی معاملے کا ایک آنکھ سے جائزہ لے کر اس کا ایک پہلو دکھانے کا اپنا فرض خوب نبھایا ہے۔ اس سخن فہم حرافہ نے اپنی متخیلہ کی کرشمہ سازی کا شاندار استعمال کرتے ہوئے شان افسر بالا میں خوب خوش رنگ قصیدے لکھے اور پڑھے۔

کبھی بھونڈی شکل میں، تو کبھی بڑے شائستہ انداز میں۔ جب ان کی مامتا کا جوار بھاٹا چڑھتا ہے تو معقول اور نامعقول دونوں کو بہا لے جاتا ہے۔ صر صر کو صبا، ظلمت کو ضیا اور بندے کو خدا لکھنا کوئی ان سے سیکھے۔
رت بدلتی ہی نہیں موسم کے بدل جانے کے بعد
رات ڈھلتی ہی نہیں دن نکل آنے کے بعد
جب ہم نے یہ خوبصورت ملک ایسے بدصورت لوگوں کے حوالے کر رکھا ہے تو پھر ہمیں یہ شکوہ کرنے کا کوئی حق نہیں کہ اس گھر کی حفاظت نہیں ہو پارہی اور آئے دن کوئی نہ کوئی چیز ٹوٹ جاتی ہے۔

بقول جون ایلیا۔۔۔
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
چیزوں کے ٹوٹنے کا یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ہر روز ہی کچھ نہ کچھ ٹوٹ جاتا ہے۔ اب ضرورت حسن انتظام سے مالا مال کچھ ایسے بہادر اور خوبصورت لوگوں کی ہے، جو بہادر اور خوبصورت تو ہوں لیکن آگاہ نہ ہوں کہ بہادر اور خوبصورت ہو کر انسان کیسا محسوس کرتا ہے۔

جو خواہشوں کی رسہ کشی کا شکار نہ ہوں کہ خواہش کا اتباع دنیا میں کرپشن کے دروازے کھولتا ہے، جو حب جاہ سے بے نیاز، گھر سے چائے پانی، ناشتہ کرکے، چھڑی کے سرے پر دوپہر کی روٹی کی پوٹلی باندھے دفتر تشریف لائیں۔ اپنی خوبصورت گاڑی کا دروازہ اپنے دست مبارک سے کھولیں، ہمت کرکے اپنا بریف کیس کا بوجھ بھی خود ہی اٹھائیں۔
ہٹو بچو کی دل کش کن موسیقی سے بے نیاز، دفتر کا دروازہ بھی خود ہی کھولتے ہوئے اندر تشریف لے جائیں۔

سلام پیش نہ کیے جانے پر رنجیدہ خاطر نہ ہوں اور بسا اوقات گالی دیے جانے پر بھی خلعت بخش دینے پر قادر ہوں۔ ان کی اڑان آزاد پرندوں کی سی ہو۔ وہ اس گھر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھائیں اور اس آئے دن کی ٹوٹ پھوٹ کے سامنے بند باندھ کر اس گھر کو محفوظ بنائیں اور اس کے حسن فطرت کو اپنے حسن انتظام سے مزید دلکش بنا دیں
کر لیں گے شام غم کی سحر آپ جائیے
جو کام بھی سامنے آئے توجہ، خوش دلی اور محبت سے کریں۔

کام سے لاتعلقی اور مدح سے دور رہیں۔ ذرائع ابلاغ کو چاہئے کہ ان سے اتنی والہانہ محبت سے اجتناب کرے کہ والہانہ محبت بزدلی کا باعث بنتی ہے۔ سچ بولیں کہ سچ دلوں کو کشادہ کرتا ہے۔
بہت سے رنگ، بادل، اور پرندے لوٹ جاتے ہیں
کئی موسم بہت تاخیر کر دیتے ہیں آنے میں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :