خدارا کراچی کی عوام پر رحم کرو

پیر 13 نومبر 2017

Ayyan Sandhu

اعیان سندھو

2 دن قبل پرانے دوستوں نے ایک ساتھ بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور گلے شکوے دور کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا ،،، یہ وہی پرانے دوست ہیں جنہوں نے ایک ہی نرسری میں پرورش پائی اور اعلیٰ سیاسی تعلیمات کیلئے برطانیہ کے چکر لگاتے رہے
جی ہاں میں کسی اور کی نہیں بلکہ بات کر رہا ہوں سربراہ ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار اور پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفیٰ کمال کی ،،، 2 دن قبل ہونے والی پریس کانفرنس کافی معنی خیز رہی جس میں چند برجستہ جملے عوام کو سننے کو ملے ،،، جیسے فاروق ستار سے پریس کانفرنس سے قبل سوال ہوا کہ کیا آج "قاضی" بھی آئے گا تو انہوں نے جواب دیا کہ پہلے لڑکی والے تو آجائیں
مصطفیٰ کمال نے نے بتایا کہ ایم کیو ایم پاکستان سے پچھلے دروازے سے مذاکرات گزشتہ 6 ماہ سے جاری تھے ،،،پھر دونوں رہنماؤں میں "بھائی" کہنے کی بات ہوئی تو فاروق ستار کا جملہ "ہم اسی بھائی کی عزت بحال کروائیں گے" کافی معنی خیز محسوس ہوا
حیران کن بات یہ تھی کہ گفتار کے غازی فاروق ستار کی جانب سے محض چند جملوں میں ہی بات کو مکمل کر دیا گیا اور مصطفیٰ بھائی کا فن تقریر امڈ امڈ کر سامنے آتا رہا
دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی نے ایک نشان اور نئے نام کے ساتھ نیا سیاسی سفر شروع کرنے اور کارکنان میں شادی کی "بد" تقسمیم کرنے کے بعد اگلے ہی روز طلاق دینے کا اعلان کر دیا
فاروق ستار کی جانب سے وزیر اعظم اور آرمی چیف کے نام تفصیلی خط لکھا گیا جس میں غالباً 22 اگست کے بعد سے اب تک کی تمام صورتحال سے آگاہ اور مصائب و مشکلات بیان کی گئیں ہیں لیکن بحث یہ ہے کہ تقریباً 3 کروڑ آبادی (جس میں شکوک و شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں) والے شہر کو حقیقی قیادت کب نصیب ہوگی
22 اگست کے بعد پاکستان کا کلمہ پڑھنے والوں نے کبھی 12 مئی 2007 اور سانحہ بلدیہ کے حوالے سے لب کشائی کیوں نہیں کی ،، دونوں سربراہان ایم کیو ایم لندن کے خلاف زہر تو اگل رہے ہیں لیکن کسی فورم پر بھی ان کی جانب سے "لندن" کے کسی گناہ میں خود کو شریک جرم کرتے ہوئے کسی ذی روح نے نہیں سنا
کل رات ہونے والی پیش رفت کو مخصوص کر دیا جائے تو پہلے اعلان کے بعد واضح طور 2 ممکنہ صورتحال سامنے آئیں ،، پہلی یہ کہ ایک شخص جو "ڈیکٹیشن" سے اتنا تنگ آ گیا ہے کہ اب وہ سر پٹخ کے سب کچھ بھاڑ میں بھیج کر اب اپنا مستقبل پاکستان کی بجائے دبئی یا ساؤتھ افریقہ کی کسی فرم میں دیکھ رہا ہے جہاں وہ اپنی فیملی کے ساتھ بچی ماندہ زندگی ہنسی خوشی گزارنے کے خواہاں ہیں
جبکہ دوسری جانب ایک صورتحال یہ تھی کہ کراچی کی قیادت کا قبلہ "لندن" سے تبدیل کر کے پاکستان میں ہی فراہم کر دیا جائے جو پارٹی کے رہنماؤں کے لیے اس سبکی کا باعث نہ بنے جو پاکستان کے جلسوں میں لندن کے ترانوں اور نعروں کی صورت میں پیش آتی ہے
ہوا وہی جو خیال بعد میں آیا،،، کارکنان کی جانب سے نہ بھائی نہ کے "ترلے" شروع کیے گئے اور سیاسی فیصلہ "امی" کے حکم پر تبدیل ہوگیا،،، یعنی متبادل کا انتظام ہوگیا
اتنی طویل بحث کے بعد عام آدمی کی طرح میں بھی سوچنے پر مجبور ہوں کہ اس سیاسی صورتحال میں "عوام"کہاں کھڑی ہے،،،کیا کراچی کا کچرا صاف ہو جائے گا؟ کیا کراچی میں ہونے والی لوڈ شیڈنگ اور کے الیکٹرک کے عذاب سے جان چھوٹ پائے گی؟ کیا سیاسی پروٹیکشن کے نام پر نائن زیرو کے دروازے پر اب کوئی علی شاہ کا قتل نہیں ہوگا؟ کیا اب "بھائی" کے حکم پر لاشیں نہیں گریں گی؟ کیا اب لیاری کے بچے اسلحہ،گٹکا،پان سگریٹ،چرس،گانجا،اور پڑی کو چھوڑ کر مہذب زندگی کی طرف واپس آجائیں گے؟ کیا کٹی پہاڑی پر پٹھان اور مہاجر کا جھگڑا ختم ہو جائے گا؟ یا پھر نئی پیکنگ میں پرانی شراب ہی بکتی رہے گی؟
مہاجر کارڈ کی اہمیت ایک بار پھر محض الیکشن جیت کر اپنا ریٹ لگوانے تک ہی محدود ہے
یا یوں کہہ لیں کہ کراچی والوں کو "لولی پاپ" دے کر چہرہ تبدیل کر دیا گیا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :