زہر کیا ہے؟

جمعرات 23 اپریل 2020

Basit Hassan Khan

باسط حسن خان

ایک دفعہ ایک شخص مولانا جلال الدین رومی کے خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ سوالات پوچھے مولاناروم نے جو جوابات دئیے وہ بہت غور طلب ہیں. پہلے سوال اور اس کے جواب کا ذکر میں اس نشت میں کروں گا اور باقی سوالات پر آئندہ نشستوں میں بحث کروں گااس شخص کا مولانا رُوم سے پہلا سوال یہ تھا.۔ زہر کِسے کہتے ہیں؟؟؟؟؟جواب۔ ہر وہ چیز جو ہماری ضرورت سے زیادہ ہو ”زہر“ بن جاتی ہے خواہ وہ قوت یا اقتدار ہو۔ انانیت ہو۔ دولت ہو۔ بھوک ہو۔ لالچ ہو۔سُستی یا کاہلی ہو۔ عزم و ہِمت ہو۔ نفرت ہو یا کچھ بھی ہو؟
مولانا روم نے بہت فلسفیانہ جواب دیا.

مولانا روم کے مطابق ہر چیز میں زیادتی زہر ہے۔ضرورت سے زیادہ ہر چیز وبال جان اور زحمت بن جاتی ہے۔اگر طاقت میں زیادتی ہو جائے تو چھ فٹ کا انسان خدائی دعویٰ کرنے لگ جاتا ہے وہ خود کو مطلق العنان اور مختار کُل سمجھنے لگتا ہے کبھی دوسرے انسانوں کو گندگی کا ادنی سا کیڑا سمجھ کر اس کی تقدیر کا فیصلہ بھی یہی انسان خود کو خدا سمجھ کے کرتاہےاسی طاقت کا حد سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیں تاریخ میں یزید؛ حجاج بن یوسف، ہلاکو خان، چنگیز خان، ہٹلر، مسولینی اور ماوزے تنگ جیسے ظالم لوگوں کے نام ملتے ہیں..

کبھی طاقت اور اقتدار کے نشے میں دھت انسان خداکے بنائے ہوئے قوانین کو روندتا ہے اور کبھی اپنے جیسے انسانوں پر زمین تنگ کرتاہے
انانیت بھی جب ضرورت سے زیادہ ہونے لگے تو زہر بن جاتا ہے.. انا کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کے حقوق تلف کرتا ہے تو کبھی انا کی وجہ سے ہی لوگوں کے عصمتیں نیلام کر تا ہے اناکی وجہ سے ایک انسان دوسرے کو انسان نہیں سمجھتا ذات پات کا تصور ابھرا.

کچھ اچھوت ٹھہرے تو کچھ برہما کی اولاد حقیر اور افضل کا تصور آیا.. تو انسانوں میں اونچ نیچ، اعلیٰ گٹھیا، بد بہتر انسان پیدا ہونے لگے
دولت میں زیادتی حد سے بڑھ جائے تو یہ بھی زہر ہے دولت کی زیادتی سے انسانی تاریخ بہت متاثر ہوئی ہے دولت ایک بت کی طرح پوجا جانے لگا دولت کے بت تلے سارے اقدار کچلے جانے لگے دولت کی زیادتی کی وجہ سے بھائی بھائی کا دشمن ہو گیا۔

(جاری ہے)

رشتوں اور اخوت کی قدر ختم ہو گئی انسان حیوانیت کی لکیر سے بھی نیچے چلا گیا انسانی گلے کٹے دولت کی زیادتی کی وجہ سے انسان انسان کے در پے ہو گیا دولت کی ریل پیل انسان کو میہبوت اور بے حس کر چکی ہے دولت کی چمک سے انسان کی آنکھیں آندھی ہو گئیں ہیں دولت عزیز اور رشتے بوجھ بننے لگے مشینی دور آگیا.

انسانیت کوڑی کی ہو کہ رہ گئی..
مولانا روم کے بقول بھوک میں زیادتی بھی زہر ہے بھوک تہذیب کے آداب مٹا دیتی ہے بھوک کے آگے تمام مذاہب، تہاذیب و تمدن، نظریات، علماء اور دانشور بے بس ہیں. بھوک کے آگے روٹی کے سوا کسی کی نہیں چلتی. بھوکا انسان روٹی کوخدا سمجھتا ہے بھوک کی وجہ سے معاشرتی طبقات بنے بھوکاانسان دوسروں کو اپنے حقوق کا عاصب اور نوالہ چھینے کا زمہ دار سمجھتا ہے بھوک سب بڑا مذہب اوربھوکے کو نوالہ دینے والا سب سے بڑا مہاتما ہے
لالچ بھی حد سے بڑھ جائے تو زہر ہے..

دراصل طاقت، دولت اور انانیت کی فروانی کے پیچھے لالچ جیسے تباہ کن جذبہ کارفرما ہوتا ہے لالچ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا…سستی اور کاہلی بھی حد سے بڑھ جائے تو زہر بن جاتی ہے.. سست انسان بے ضمیر ہوتا ہے.. وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کیلئے دوسروں کا مختاج ہوتا ہے. تاریخ میں سست لوگوں کا کو ئی خاطر خواہ ذکر نہیں ملتا. ملکی اور افراد کی ترقی میں سست انسان کا کوئی عمل دخل نہیں. وہ فقط ملک اور گھرانے پر بوجھ ہوتا ہے..

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :