طلبہ کا مُستقبل حکومت کے ہاتھ

جمعرات 14 مئی 2020

Chaudhry Shehryar Gujjar

چوہدری شہریار گجر

موجودہ حالات میں بہتری اور معمولاتِ زندگی کی بحالی کے لیے حکومتِ وقت نے کچھ اہم اقدامات اُٹھائے اور لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کیا تاکہ ملکی معیشت کو بدخالی سے بچایا جائے۔ جہاں پر حکومت کو دوسرے مسائل کا سامنا تھا وہاں ایک اہم اور سنگین مسئلہ طُلبہ اور تعلیمی اداروں کا تھا کہ تعلیمی اداروں کو کھولا جائے یا بند رکھا جائے، اگر بند رکھا جاے گا تو امتخانات کا کیا کیا جاے گا؟ چونکہ ابھی حالات اس قدر بہتر نہیں تھے کہ تعلیمی اداروں کو کھولا جاتا اس لیے تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور پاکستان کی تمام تعلیمی بورڈز کے امتخانات منسوح کر کے طلبہ کو گزشتہ برس کے نتائج پر پرموٹ کرنے کا فیصلہ ہوا مگر اس پر بھی طلبہ کے تخفظات ہیں۔


 وہ طلبہ جو گزشتہ برس اچھے نمبر حاصل نہیں کر سکے اور اس دفعہ وہ زیادہ محنت کر کے اچھے نمبر حاصل کرنا چاہتے تھے اُن کا کیا ہو گا؟ وہ طلبہ جو پرائیویٹ امتحان دینا چاہتے تھا یا جن طلبہ کی گزشتہ سال سپلیز آئی ہیں اُن کا کیا ہو گا؟ اور دوسری جانب ویسے بھی یہ سہولت صرف کالج کے طلبہ کے لیے رکھی گی اور یونیورسٹیز کے طلبہ کا فیصلہ HEC پر چھوڑ دیا گیا جس نے طلبہ کے مستقبل کہ ساتھ ایک دفعہ پھر کِھلواڑ کرتے ہوئے یونیورسٹیز کو آن لائن امتخانات لینے کی ہدایت جاری کی۔

(جاری ہے)

 یہاں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ طلبہ کسی بھی ملک کا مستقبل اور قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اور ان کے مستقبل کا فیصلہ ان ہی کی نمائندگی اور مشاورت کے بغیر کیسے کیا جا سکتا ہے؟ طلبہ کے مستقبل کا فیصلہ حکومت کیسے کر سکتی ہے؟ پہلے بھی طلبہ کے مسائل اور مشکلات کو بغیر دیکھے ان پر آن لائن کلاسز کا بوجھ ڈالا گیا جو شدید مشکلات کا سبب بنا اور اب آن لائن امتخانات! ان تمام فیصلوں میں طلبہ کی نمائندگی ہی نہ لی گی اور نہ ہی طلبہ کے تخفظات کو سُنا گیا مگر یہ تو ممکن بھی نہیں تھا اسی نمائندگی اور آواز کو بند کرنے کہ لیے ہی تو آج سے 36 برس پہلے جنرل ضیاالحق جیسے آمر نے 1984 میں طلبہ یونین پر پابندی عائد کر کے طلبہ نمائندگی کا قتل کیا اور آج تک طلبہ اپنے اس حق کو حاصل کرنے کے کیے لڑ رہے ہیں مگر اس بنیادی حق سے ابھی تک محروم ہیں۔

 طلبہ تو وہ ہیں جنہوں نے اس ملک پر آنے والی ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنی جانیں تک قربان کر دیں اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سقوطِ ڈھاکہ کے وقت جانیں قربان کرنے والوں میں طلبہ بھی تھے، تو پھر بھی طلبہ کو ان کے بنادی حقوق نہ دیے جائیں! جب اس ملک کے اند رکشہ ڈرائیور کی رکشہ یونین موجود ہے، خواجہ سراؤں کی نمائندگی موجود ہے، تاجر برادری کے مسائل کا حل تاجر یونینز سے مشاورت کے بعد کیا جاتا ہے تو پھر طلبہ کہ مستقبل کا فیصلہ طلبہ کی نمائندگی کی بغیر کیسے ممکن ہے، کیوں طلبہ کا استخصال کیا جا رہا ہے؟ کیا طلبہ کو لا وارث سمجھا جاتا ہے؟ جناب وزیر اعظم صاحب تو ہر وقت یوتھ کی بات کرتے ہیں اور اقتدار میں آنے سے پہلے ہی طلبہ کے مسائل کو حل کرنے کی باتیں کرتے تھے مگر کیا وہ باتیں محض سیاسی باتیں تھیں؟ کیا طلبہ کو ہمیشہ ان کے حقوق سے محروم رکھا جائے گا؟ مگر ایک بات حکومتِ وقت کو اور اداروں کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر ڈاکٹر، وکیل اور رکشہ ڈرائیور اپنے حق کے لیے لڑ سکتے ہیں تو طلبہ کیوں نہیں؟ طلبہ اُن سے زیادہ جزبہ اور جنون رکھتے ہیں اور اگر طلبہ بغاوت پر اُتر آئے تو بھی اچھا نہیں ہوگا کیونکہ اپنے حق کے لیے لڑنا بھی طلبہ بہتر جانتے ہیں۔

ابھی بھی وقت ہے حکومت اپنی پالیسیز پر نظرثانی کرے اور طلبہ کہ مسائل کو سمجھے کہیں طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کِھلواڑ تو نہیں ہو رہا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :