تبدیلی کب آئے گی

جمعہ 1 مئی 2020

Chaudhry Shehryar Gujjar

چوہدری شہریار گجر

تبدیلی  جس کہ منتظر ہم قیامِ پاکستان سے ہی ہیں، جس کی اُمید ہر برسرِ اقتدار آنے والی جماعت سے لگائ گی جو بعد میں ایک سیاسی جماعت کا نعرہ  بن گیا۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے تبدیلی کو اپنا نعرہ بنایا اور ۲۰۱۳ کہ عام اتخابات کہ بعد ہونے والے دھرنے میں اس نعرے کو بہت عروج حاصل ہوا ، تبدیلی کی گونج ہر کان میں گونج اُٹھی۔

عمران خان کو تبدیلی کی آخری اُمید سمجھا گیا مگر آج وہی نعرہ خان پر تنقید در تنقید کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ ملک کہ ہر گوشے سے آواز اُٹھ رہی ہے کہ کیا تبدیلی صرف ایک سیاسی نعرہ تھا؟ یہاں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ تبدیلی کب آۓ گی اور کیا صرف خکمران ہی تبدیلی کہ ذمہ دار ہیں؟ کیا ہم تبدیلی کہ لائق ہیں؟ ہمارا معاشرہ کس جگہ کھڑا ھے؟ زرا غور کیجیے اپنے آپ پر کیا میں اور آپ خود تبدیل ہو چُکے ہیں یا  ہونا چاہتے ہیں؟ جی نہی ہم تبدیل خود ہی نہی ہونا چاہتے اس میں حکمرانوں کا قصور نہی بلکے اس کہ زمہ دار ہم عوام خود ہیں۔

(جاری ہے)

تاریخ گواہ ہے کہ جس ملک نے ترقی کی عوام کی وجہ سے کی کیونکہ حکمران صرف خود کو اور نظام کو تبدیل کرتا ہے ترقی اور خوشخالی کی ذمہ دار عوام ہوتی ہے۔ جن بدعنوانیوں اور بےایمانیوں کا زمہ دار ہم حکومت کو ٹھہراتے ہیں اُن بُرائیوں کی اصل جڑ تو ہم خود ہیں تو پھر حکمرانوں پر الزام لگانے  کی وجہ! اگر غور کریں تو ہم ایسی قوم ہیں جس کا دُکاندار سُرخ مِرچوں میں اِینٹوں کا چُورا اور ہلدی میں زردہ رنگ ڈال کر بیچتا ہے ، جہاں قصاب گدھےاور کُتے کا گوشت بیچتا ہے، جس قوم کا گوالا دودھ میں پانی کہ علاوہ  زہریلی کھاد اور واشنگ  سوڈھا ڈالتا ہے۔

جی ہاں ہم ہی اُس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں والدین اپنے معذور،نابینا اور لنگڑے بچوں کو درس میں مولوی بننے کہ لیے اور تندرسُت و توانا اولاد کو آفیسر بننے کہ لیے اعلی تعلیمی ادروں میں پڑھاتے ہیں، وہ کسی اور کا نہی ہمارا مرد ہی ہے جو عورت کہ جہیز میں آۓ بیڈ پر بیٹھ کر عورت پہ ہاتھ اُٹھا کر اپنی مردانگی کا ثبوت دیتا ہے۔ ہم وہ قوم ہیں جس کہ دوہرے میعار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں ہر ماں کی خواہش ہے کہ اُس کی بیٹی سُسرال میں ملکہ بن کہ راج کرے اور بہو گھر کی نوکرانی اور پاؤں کی جوتی بن کہ رہے۔

جس قوم کے مُلاں مذہب کہ نام پر فرقہ ورایت کو ہوا دیں اور ایک دوسرے پر کافر کہ فتوے لگائے، جہاں کمسن بچے اور بچیاں جنسی زیادتی کا شکار ہوں، جہاں مزاروں اور درگاہوں پر نشئ ڈھیرے ڈال لیں۔ جس ملک کی عوام سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر رفع حاجت کرتی ہو وہاں حکمران قصوروار نہی رہتا، جس مُلک کی عوام  امام مسجد سے زیادہ پیسے ناچنے والے کنجروں کو دے، جہاں اتفاق اور بھائ چارے کی بجاے خسد، بغض اور کینا کو فروغ دیا جاے، جہاں عوام ہیلمنٹ اور سگنل کی پابندی صرف جرمانے سے بچنے کے لیے کرے اپنی جان بچانے کی خاطر نہی ۔

جو عوام بجلی چوری کرتی ہو وہاں تبدیلی کیسے آے گی؟ ہمارے مُلک کا سب سے مظلوم تبقہ غریب جو بھیک مانگ کر نشہ کرتا ہے زرا سوچیے وہ غریب ہے؟ ریشتے داروں اور بہن بیٹیوں کا حق کھانے والا کوئ اور نہی ہم خود ہیں، اداروں کو فیس کہ نام پہ رشوت دینے والے ہم ہیں۔ وہ ایک پنجابی کی مثال ہے کہ “ پیتی اُس ہی نئ جنوں لبھی نی ” ہم نے بھی صرف وہ غلط کام نہی کیا جو کر نہی سکتے تھےہم۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم خود ہی تخزیب کار بھی ہیں اور تخریب کار بھی ! تو ان سب چیزوں کہ بعد حکمرانوں پر تنقید کا کوئ جواز نہی بچتا چاہے وہ عمران ہو یا نواز شریف !  زرا اپنے گھیریبان میں جھانک کر خود سے سوال کریں کیا میں اور آپ اس ملک کی تباہی کہ زمہ دار نہی ہیں؟ کیا ہم دوسروں پر تنقید کا خق رکھتے ہیں؟
عمر بھر ہم یوں ہی غلطی کرتے رہے غالب !
دُھول چہرے پر تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :