کیا ہم جاہل ہیں؟

جمعرات 18 جون 2020

Chaudhry Shehryar Gujjar

چوہدری شہریار گجر

 خالق کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا اور تمام مخلوقات  پر فضیلت عطا کی یہ انسان کے لیے خدا تعالی کا ایک بہت بڑا انعام ہے لیکن خدا باری تعالی نے شعور اور جہالت کا چناؤ انسان کی زات پر  چھوڑ دیا کے انسان اپنی مرضی سے دونوں میں سے جس کو چاہے اپنا لے۔ اس بات میں بھی کوئ شک نہی کے غالبِ اسلام سے پہلے انسان جتنا جاہل تھا شاید ہی کوئ اور مخلوق تھی۔

وقت کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر شعور اور بیداری پروان چڑھتی رہی،  آج کے اس جدید اور علمی دور میں انسان بہت زیادہ ترقی کر چُکا ہے اور اس کرہ ارض پر بے شمار اقوام اور ریاست کی شکل اختیار کیے ہوۓ ہے۔  اگر جہالت کی بات کی جاۓ تو جہالت آج بھی ہر قوم کے اندر موجود ہے وہ ایک الگ بات ہے کے کسی قوم کے اندر جہالت کم اور کسی  میں زیادہ پائ جاتی ہے۔

(جاری ہے)

ہم بات کرے اگر اپنی پاکستانی قوم کی تو اس میں کوئ شک نہی کے اس جیسی بہادر، غیور اور غیرت مند قوم کوئ اور نہی ہے، علم و ادب کے حصول میں بھی پاکستانی قوم کسی سے کم نہی ۔ آج کل کرہِ ارض پر کورونا جیسی مہلک وبا کا غلبہ چھا چکا ہے اور پوری دنیا اس کا مقابلا کرنے اور اس سے نجات پانے میں اپنے تمام تر وسائل کو بروۓ کار لا رہی ہے اور تمام اقوام اس سے بچاو کی کوشسش میں لگے ہیں اور عوام بھی اپنا کردار ادا کرنے کی کوشسش کر رہی ہے لیکن ترقی پزیر ممالک کی اقوام زرہ تعلیم کے فقدان کا شکار ہوتی ہیں اس لیے وہ اس طرح کے معاملات میں سنجیدہ نہی ہوتیں گزشتہ دنوں پنجاب کے شہر لاہور کی کورونا سے بگڑتی صورتِ حال پر صوبائ وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوۓ ہمیں ایک عجیب مخلوق اور جاہل کے القابات سے نوازہ جس پر عوام نے بہت زیادہ غم و غصے کا اظہار کیا اور محترمہ سے معافی کا مطالبہ کیا جس کےبعد ڈاکٹر صاحبہ نے معافی بھی مانگی اور اپنی غلطی کو تسلیم کیا، یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم جاہل ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ جی ہاں ہم  حقیقت میں جاہل ہیں کیونکہ ہم پچھلے ستر سال سے ان سیاستدانوں کی ڈُگ ڈُگی کے آگے ناچ جو رہے ہیں، ان کے دِکھاۓ ہوۓ سبز باغ دیکھ کر ہم ہر بار ان پھر بھروسہ جو کرتے ہیں، جی ہاں اگر ہم جاہل نہ ہوتے تو ہم پر آن پڑھ، جاہل اور جعلی ڈگریوں والے خکمرانی نہ کرتے! ہماری جہالت کا عالم تو یہ ہے کے ہم اُس شخص کو ووٹ بھی نہی دیتے جس کے قافلے میں دس لینڈ کروزر گاڑیاں اور مسلحہ افراد نہ ہو۔

اگر ہم جاہل نہ ہوتے تو ان سیاستدانوں کی گاڑیوں کے نیچے آ کر اپنی ٹانگے ٹوٹنے کے بعد بھی یہ نہ کہتے کے یہ ہمارے لیے سعادت ہے۔ یہ حقیقت ہے کے ہمارے حکمران ہمیں ایک جاہل قوم سمجھتے ہیں کیونکہ ہم اُن کو خود پہ مسلت جو کرتے ہیں۔ سویت یونین کے مشہور سیاست دان اور سکالر جوزف سٹالن نے کہا تھا کہ عوام اُس چوزے کی طرح ہے کہ جس کے سارے پَر نوچ لیے جاۓ تو وہ چینختا چِلاتا ہے اور جب پھر اُسے کے آگے تھوڑے سے دانے ڈالیں تو وہ آپ کے پیچھے پیچھے باگے گا اسی طرح عوام بھی غلام ہوتی خکمران اس کا سارا خون چوس لے اور جب وہ مرنے والی ہو تو اُس کو کھانے کو کچھ دے دو تو وہ پھر آپ کی غلامی کرے گی ۔

  کبھی غور کیجیے گا کہ ہم کس طرح ان کرپٹ سیاتدانوں کا استقبال کرتے ہیں اور جب عدالت ان کو گرفتار کرے تو ہم احتجاج کرتے ہیں، ہم روڈ بلاک کرتے ہیں ، ہم ان چوروں اور لٹیروں کو ہیرو بناتے ہیں تو پھر ہم جاہل نہی تو کیا ہیں۔ لیکن ہمیں خود اس جہالت سے نکلنا ہو گا، اپنی خاطر نہ سہی اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے ہمیں ان خکمرانوں سے نجات حاصل کرنا پڑے گی جو ہمارا خون چوس کر ہمارے ٹیکس کے پیسوں پر عیاشی کرتے ہیں اور ہمیں ہی جاہل کہتے ہیں کیونکہ قصور وار ہم خود ہیں!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :