
کیا یہ پہلا سیلاب ہے؟
جمعہ 12 ستمبر 2014
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
یہ صرف ایک شہر کا حال نہیں پورے ملک میں سرکاری ملازمین کی کارکردگی ایسی ہی ہے، بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے اب تک کم از کم 256 افراد ہلاک اور دس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس ضمن میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا میڈیا کو کہنا ہے کہ سیلاب سے صوبے پنجاب میں کم از کم 1,091,807 افراد متاثر ہوئے ہیں، اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد 31,800 ہے۔حکام کے مطابق متاثرہ لوگوں میں اپنے گھروں یا اپنے علاقوں میں پھنسے ہوئے افراد اور وہ لوگ جو سیلابی ریلے کے بعد اپنے گھر بار چھوڑ گئے ہیں شامل ہیں۔حکام نے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔اتھارٹی کی ویب سائٹ پر کشمیر سے شروع ہونے والے اور اب پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد کے بارے میں تصدیق کی گئی ہے۔بتایا جارہا ہے کہ سیلابی ریلے میں سینکڑوں مکانات منہدم ہو گئے اور سڑکیں تباہ ہو گئی ہیں، اور کئی ایکڑ رقبے پر مشتمل کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی موجودہ سیلاب نے دو ہزار دس کے سیلاب کی یاد تازہ کر دی جو ملک کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جس میں 1,700 سے زائد افراد ہلاک اور 18 ملین متاثر ہوئے تھے۔
پاکستان کی68 سالہ تاریخ میں 1956، 1976، 1986 اور 1992 اور 2010 میں بڑے سیلاب آئے تھے جنہوں نے تباہی مچائی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں حالیہ سیلاب کو بھی انتہائی غیر معمولی سیلاب قرار دیا جا رہا ہے ،پاکستان میں ریاستی تاریخ کے ان انتہائی غیر معمولی سیلابوں کے نتیجے میں غیر معمولی تباہ کاریاں دیکھنے میں آ تی رہی ہیں۔ حالیہ سیلاب سے کتنا نقصاں ہوا کتنی جانیں ضائع ہوئیں اور زخمیوں کی تعداد کتنی تھی اس کا اندازہ تو پانی کے اپنے محور پر جانے کے بعد ہو گا لیکن یہاں سوال پھر وہی ہے کہ حکومتیں کیا کر رہی ہیں کیا انہوں نے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے قدرتی آفتوں سے بچنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات اٹھائے نئے ڈیم تعمیر کئے دریاں اور نہروں کی صفائی کی یا نئی نہریں کھودی گئیں ، شہروں میں پانی کے زخیرئے بنائے، جس طرح ماضی میں پبلک پارک کو بارشوں کی پانی کے زخیرے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا؟ ،یعنی پبلک پارک اتنے گہرے بنائے جاتے تھے کہ جب بارشیں ہوں تو پانی ان پاروکوں کے اندر چلا جاتا جس سے ایک طرف زیر زمین پانی کا لیول اونچا ہو جاتا تھا تھا تو دوسری جانب شہروں میں نقصان کم سے کم ہوتا تھا۔حکومت کو شہروں کے پبلک پارکوں کا سروئے کروانا چاہیے کہ لاہور جیسے شہر میں کتنے پارک اور کس حالت میں ، پارکوں میں تعمیرات ، ڈسپنسریاں، دفاتر ،مسجدیں، اور دیگر تعمیرات کس نے کس کی اجازت سے کیں وغیرہ۔کہا تو یہ ہی جاتا ہے کہ تاریخ سے سبق کوئی نہیں سیکھتا مگر بار بار تاریخ کو دہرائے بھی نہیں جانا چاہیے۔ اس لئے ماضی کے سیلابوں کی تاریخ کے نقصانات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو ان سے بچاو کے لئے موثر اقدمات اٹھانے کی طرف توجہ دینی چاہیے تا کہ پاکستان کے شہری بھی سکھ کا سانس لے سکیں اور آبرو مندانہ زندگی گزار سکیں یہ حکومتوں کا ہی کام ہے کہ وہ بہتر پلاننگ کی زریعے موسمی آفتوں سے شہریوں کو محفوظ رکھ سکتی ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.