
آخر کب تک؟
ہفتہ 24 جنوری 2015
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
یہ اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ بدترین تصور کیجاتی ہے صورت حال اتنی دگرگوں ہے کہ دنیا کے تمام ممالک نے اپنے شہریوں کو پاکستان جانے کو منع کررکھا ہے اور جو اس ملک میں ہیں انھیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا جارہا ہے جبکہ کاروباری سرگرمیاں معطل ہوتی جارہی ہیں، بیرونی سرمای کار یہاں آنے سے کترنے لگے ہیں سیاحت کا شعبہ ناکامی کا منہ بولتا ثبوت پیش کر رہا ہے، تعلیمی اداروں کو قید خانوں میں تبدیل کیا جا رہا ہے جبکہ ضرورت ہے بچوں کو خوف کی فضا سے نکالنے کے لئے ایسے اقدامات اٹھائے جاتے جن میں ان کی حوصلہ افزائی کے کام کئے جاتے ، تفریح سرگرمیوں کو فروغ دیا جاتا ، موٹی ویشنل لیکچرز کا اہتمام کیا جاتا ،دشمن کے بارے بتایا جاتا کہ اس سے کیسے لڑنا ہے ان کی جسمانی اور زہنی تربیت کی جاتی، اونچی دیواریں اور خوف کا ماحول بچوں میں کئی طرح کے نفسیاتی عوارض کا سبب بنے گا جس کا حکومتی کرتا دھرتاوں کو کوئی خیال ہی نہیں ۔
اس وقت تمام حکومتی اداروں کی کارکردگی صفر ہے عوام الناس کی شنوائی ہی کہیں نہیں ٹریفک کی صورت حال دیکھیں تو روزانہ پانچ سو کے قریب حادثات ہو رہے ہیں جن میں ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں اور زخمی بھی ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنے اور اس کے بہاو میں کوئی خلل نہ آئے اور حادثات مٰں کمی کے زمہ دار ٹریفک وارڈن نے سب سے آسان کام تلاش کر لیا ہے وہ صرف چالان کرنا یا خوش گپیوں می مصروف رہنا دھڑا دھڑ چلان کر کے ”قومی خزانے“ کو بھرنے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ عوام کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں اس کا کسی کو زرا خیال نہیں ہے اور سڑکوں کی ابتر حالت کی بنا پر لوگوں کی گاڑیاں موڑسائکلیں خراب ہو رہیں ہیں اور حادثات کا بھی سبب ہیں ان کی مرمت پر توجہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے بندہ یہاں کس کس بات کا رونا روئے جگر کو پیٹنے اور دل کو رونے کے لئے کوئی الگ سے بندہ رکھنا پڑئے گا۔
کسی بھی ملک کی ترقی کا معیار وہاں کا نظام حکومت اور عوام کو دی جانی والی سہولیات کی فراہمی سے لگایا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں ابھی تک تعلیم اور صحت کی سہولیات ہی شہریوں کو میسر نہیں سرکاری ہسپتالوں کی حالت اور عوام کی مشکلات کے حوالے سے ہر روز ٹی وی چینلز سیاپا کرتے پائے جاتے ہیں جبکہ تعلیم کے معیار اور سہولتوں کی کمی کی بنا پر اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں،ہم ابھی تک ایسا قومی نصاب بھی ترتیب نہیں دے سکے جو قومی وحدت کا شاہکار ہوتا اور قوم ایک اکائی بن سکتی بچوں کی زہن سازی کئے بنا ہم کس طرح اس ملک سے انتہا پسندی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ قومی قیادت سے دست بدستہ گزارش ہے کہ وہ ہجوم کو قوم بنانے کے لئے اور عوام کے بنیادی مسائل کے پائدار حل کے لئے کسی ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کی طرف جائیں کیونکہ عوام کی خوشحالی ہی مظبوط ملک کی بنیاد بن سکتی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.