
انسداد تشدد بل ، جواب دہی کی طرف احسن قدم
جمعہ 6 مارچ 2015
ڈاکٹر اویس فاروقی
(جاری ہے)
جواب دہی کا تصور کسی بھی معاشرے کی بقا کی ضمانت ہوتا ہے سینٹ سے پاس ہونے والا یہ بل جواب دہی کے تصور کو اجاگر کرتا نظرآرہا ہے حاصل معلومات کے مطابق سینیٹ نے متفقہ طور پرجن چار اہم بلوں کی منظوری دے دی ہے( تعزیرات پاکستان 1860ء اور مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898ء اور قانون شہادت آرڈر 1984ء میں مزید ترمیم کے لئے انسداد جنسی زیادتی قوانین (فوجداری قوانین ترمیمی بل 2014ء ) جس کی تفصیل کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل راضی نامہ جرم بنانے کا بل اور تیز ترین انصاف فراہم کرنا بھی شامل ہے۔پارلیمنٹ کے ایوان بالا نے دوران حراست تشدد اور موت کے ذمہ دار عناصر کو سزائیں دینے کے حوالے سے بھی بل کی منظوری دی ہے ۔سینیٹ نے پرائیویٹائزیشن کمیشن آرڈنینس میں ترامیم کا بل بھی منظور کیا ہے تاکہ اس عمل کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکے۔
یہ تمام بل حزب اختلاف کی مرکزی جماعت پیپلزپارٹی کی خاتون رکن سیدہ صغری امام نے پیش کیے اور ایک بل فرحت اللہ بابر نے پیش کیا یہ دونوں مبارک باد کے مستحق ہیں کے انہوں نے ایک طویل جدو جہد کے بعد یہ بل سینٹ سے پاس کروا لیے ہیں۔ صغری امام کی بہترین کار کردگی کو دیکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں دوبارہ سینٹر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ بل صدارتی اور قومی اسمبلی کی منظوری کے بعد قانون کی شکل اختیار کر لیں گے۔ بل کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل راضی نامہ جرم بنانے کے لیے بل میں کوڈ آف کرمنل پروسیجر (سی آر پی سی) 1898 میں ترامیم کی گئی ہیں۔ بل میں بتایا گیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل پاکستان بھر میں عام ہیں اور ہر سال اس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد مارے جاتے ہیں“۔بل میں کہا گیا ہے کہ خواتیں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے عورت فاونڈیشن سے حاصل کردہ اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ 2012 میں غیرت کے نام پر 432 خواتین قتل ہوئیں، 2011 میں 705 ، 2010 میں 557، 2009 میں 604 اور 2008 میں 475 قتل ہوئے۔ان اعدادوشمار میں وہ واقعات شامل نہیں جو رپورٹ نہیں ہوئے یا وہ مرد جو خواتین کے ساتھ غیرت کے نام پر قتل ہوئے، موجودہ قوانین میں موجود جھول اور رخنوں کی روک تھام اس طرح کے جرائم کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔
انسداد تشدد بل ،تشدد، حراست میں ہلاک اور زیرحراست زیادتی بل 2014 میں حراست میں تشدد اور زیادتی و ہلاکتوں کے ذمہ داران کو قید اور جرمانے کی سزاوں کی تجویز دی گئی ہے اور اس بل کو پی پی پی کے فرحت اللہ بابر نے ایوان میں پیش کیا۔اس بل میں تشدد کے ذریعے لیے گئے بیانات کو ناقابل قبول جبکہ زیرحراست موت یا زیادتی کے ملزمان کو عمر قید اور تیس لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں، اسی طرح تشدد پر کم از کم پانچ سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزاوں کی تجویز دی گئی ہے۔ تشدد کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دوران حراست کسی شخص کو جسمانی یا ذہنی تکلیف پہنچانا ہے تاکہ کوئی معلومات یا اعتراف حاصل کیا جاسکے یا ایک خاتون کو اس مقصد کے لیے ہراساں اور زیادتی کا ہدف بنایا جائے۔بل میں مزید کہا گیا ہے کہ کوئی سرکاری ملازم یا کوئی اور شخص دانستہ یا غیردانستہ طور پر زیرحراست موت یا زیرحراست زیادتی کے جرم کی روک تھام میں ناکام ہو اسے بھی کم از کم سات سال قید جسے دس سال تک بڑھایا جاسکتا ہو اور جرمانے جو دس لاکھ روپے تک ہوسکتا ہے، کی سزائیں دی جائیں۔کسی اور کے جرم میں کوئی نہیں پکڑا جائے گا اس حوالے سے بھی بل میں قدغن لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کسی جرم کے ملزم کی معلومات کے حصول کے لئے اس کے گھر کی خاتوں یا کسی اور فرد کو حراست میں نہیں لیا جائے گا۔ کسی خاتون/لڑکی کو کوئی مرد حراست میں نہیں لے سکتا یا رکھ سکتا اور صرف خواتین سرکاری ملازمین ہی ملزمہ خاتون کو حراست میں لے سکتی ہیں۔بل کے تحت تشدد کے خلاف شکایات وفاقی تحقیقاتی ادارے یا سیشن جج کے روبرو سرکاری ملازمین سمیت کسی بھی فرد کے خلاف دائر کی جاسکتی ہیں۔بل میں تجویز دی گئی ہے کہ کسی کو نقصان پہنچانے کی غرض سے دائر کی گئی شکایات قابل سزا ہوں گی اور اس کے مرتکب افراد کو ایک سال قید یا ایک لاکھ روپے جرمانے تک کی سزا سنائی جاسکے گی۔ جنسی زیادتی کے متاثرین کی شناخت کو ظاہر نہ اورعدالتی کارروائی کی اشاعت پر متعلقہ عدالت کی منظوری کے بغیر پابندی لگائی گئی ہے اور اس شق کی خلاف ورزی پر دو سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔اس بل کے مطابق ایسے پولیس اہلکاروں یا دیگر سرکاری ملازمین کے خلاف سزائے موت کی تجویز دی گئی ہے جو دوران حراست خواتین سے زیادتی میں ملوث پائے جائیں۔ جبکہ مناسب طریقے سے تحقیقات کرنے یا کسی عدالت میں مقدمے کی درست طریقے سے پیروی اور اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرنے والے سرکاری ملازمین کو تین سال قید کی مزید تجویز دی گئی ہے ۔بادی النظر میں یہ ان بلوں کے بعد جواب دہی کا تصور اجاگر ہوتا نظر آئے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت قانون کی حکمرانی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے انتظامی مشینری کو بھی اس بات کا پابند کرے کہ شہریوں کی عزت سب سے پہلا اصول ہونا چاہیے اور ظلم و جبر کرنے والا کوئی بھی فرد قانون سے بچنے نہ پائے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر اویس فاروقی کے کالمز
-
ستر برسوں کاتماشہ آخر کب تک؟
ہفتہ 22 جولائی 2017
-
نوٹس پر نوٹس مگر ایکشن کہاں ہے؟
ہفتہ 23 اپریل 2016
-
سانحہ گلشن پارک انسانیت کے خلاف جرم
بدھ 6 اپریل 2016
-
مردم شماری ایک بار پھر موخر
بدھ 23 مارچ 2016
-
تعلیم، سکول اور حکومت
اتوار 13 مارچ 2016
-
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
ہفتہ 5 مارچ 2016
-
مفت تعلیم سب کے لئے کیسے؟
اتوار 28 فروری 2016
-
مدت ملازمت میں توسیع کی بحث کیوں؟
منگل 16 فروری 2016
ڈاکٹر اویس فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.