اخبار فروش سے سینئر صحافی بننے تک کی سچی کہانی

ہفتہ 13 نومبر 2021

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

شیکسپیئر کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ اپنی جدوجہد اور کارناموں کی بدولت عظمت حاصل کرلیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں خوبیاں ایک ایسے بچے کو عطا فرمادیں جو بڑا ہوکر ملک کی ایک نامور شخصیت بن گیا۔اس بچے کو پڑھائی کا شوق بچپن سے ہی تھا۔بدقسمتی سے اس کے والد کا انتقال ہوگیا اور گھریلو حالات اس قدر خراب ہوگئے کہ تعلیمی اخراجات پورے کرنا ناممکن ہوگیا۔

ننھے طالب علم نے ہمت نہ ہاری اور ہاکر(اخبار فروش) کے طور پر کام کرنا شروع کردیا۔اب ننھا طالب علم سحری کے وقت اُٹھتا،نماز پڑھتااور سیدھا اخبار مارکیٹ سے اخبارلے کرلوگوں کے گھروں میں اخبار پھینکتا اور پھر سکول روانہ ہو جاتا۔اخبار مارکیٹ سے جس دن اخبار لیٹ ملتے تو ننھا طالب علم بھی سکول سے لیٹ ہوجاتا جس پر اُسے ماسٹر صاحب سے ہاتھوں پر ڈنڈے کھانے پڑجاتے لیکن ننھے طالب علم نے کبھی بھی ماسٹر صاحب کو سکول لیٹ آنے کی اصل وجہ نہیں بتائی کیونکہ اُسے ڈر تھا کہ کہیں اس بات پر اسے سکول سے نکال نہ دیا جائے۔

(جاری ہے)


اب اسےقدرت کہیں یا اتفاق،ننھے طالب علم کو اسی ماسٹر صاحب کے گھر بھی اخبار دینا ہوتا تھالیکن ماسٹر صاحب کو معلوم نہ تھا کہ ہاکر ان کے سکول کا طالب علم ہے کیونکہ ننھا طالب علم اپنے منہ پرمفلر یا کوئی کپڑا لپیٹ کر ماسٹر صاحب کے گھر اخبار پھینک کرجلدی سے چلا جاتا تھا۔ایک دن اخبارمارکیٹ سے اخبارپھر لیٹ ملا،ننھا طالب علم جب ماسٹر صاحب کے گھر اخبار پھینکنے گیاتو وہ غصہ سے باہرکی طرف آئے تاکہ ہاکر کو اخبار دیر سے لانے پر ڈانٹ ڈپٹ کرسکیں۔

ادھرماسٹر صاحب کو غصہ میں اپنی طرف آتا دیکھ کر ننھا طالب علم گھبرا گیا اوربوکھلاہٹ میں اپنی سائیکل کو واپس موڑنے لگا تواس کے منہ پر لپٹا ہوامفلرکھل گیا۔ماسٹر صاحب نے دور سے ہی ہاکر کا چہرہ دیکھ کر اسے پہچان لیاتھا کہ یہ ان کا سٹوڈنٹ ہے۔جب تک ماسٹر صاحب اس کے پاس پہنچتے، ہاکر ڈر کر سائیکل پر بیٹھااوروہاں سے چلا گیا۔اخبار گھروں میں پھینکنے کے بعدننھا طالب علم جب سکول پہنچا تواسے دیر ہوچکی تھی۔

جماعت کے اندر داخل ہونے کے لئے اس نے ماسٹر صاحب سے اجازت مانگی”سر، کیا میں اندر آسکتا ہوں“ماسٹر صاحب اسے اجازت دینے کی بجائے اٹھے اور چھڑی لے کر اس کی جانب بڑھے۔اس سے پہلے کہ ماسٹر صاحب قریب آکر کچھ بولتے،ننھے طالب علم نے چھڑی کھانے کے لئے اپنے ہاتھ آگے کردیئے۔یہ دیکھ کرماسٹر صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے،انھوں نے ننھے طالب علم کے ہاتھوں کو چوم لیا اوربولے”جو بچہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اتنی سخت محنت کرے وہ پٹائی کا نہیں بلکہ پیار کا حقدار ہے، اسی طرح محنت کرتے رہو ایک دن اللہ تعالیٰ تمھیں ضرور بڑا آدمی بنادے گا۔

“اُس دن کے بعد سے ماسٹر صاحب نے کبھی بھی ننھے طالب علم کو نہ مارا بلکہ دیر سے آنے پراسے پچھلا سبق بھی یاد کروا دیتے۔ماسٹر صاحب نے اپنے ہونہار طالب علم کوبڑا آدمی بننے کی جو دعا دی تھی وہ ایک دن پوری ہوگئی۔ننھا طالب علم بڑا ہوکر اخبار فروش سے ایک سینئر صحافی،شاعر و ادیب بن گیا۔وہ ننھا طالب علم غلام محی الدین نظرؔمرحوم تھے جنھوں نے کم عمری سے ہی تعلیم کے ساتھ ساتھ محنت مشقت کو جاری رکھا۔


کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک کم عمر بچہ جوگھر گھر اخبار پھینکتا ہے ایک دن اسی اخبار میں ایک بڑا افسر لگ جائے گا۔غلام محی الدین نظرؔ صاحب نے سکول کے تعلیمی میگزین میں نثر اور شاعری لکھناشروع کردی، سکول کے پرنسپل نےا نھیں میگزین کا انچارج مقرر کردیا۔تعلیم کے ساتھ ساتھ نظرؔ صاحب روزنامہ امروز اور دیگرقومی روزناموں میں کام کرنے کے بعد روزنامہ مشرق لاہور میں بطور سینئر ایڈیٹرکام کرنے لگے۔

نظرؔ صاحب نے پہلی مرتبہ کسی روزنامہ میں بچوں کے لئے خصوصی ہفتہ وارایڈیشن ”بچوں کامشرق“متعارف کرایاجس میں ایسی دلچسپ اور سبق آموز تحریریں شائع ہوتی تھیں کہ اسے نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی شوق سے پڑھتے تھے۔ وہ ”بچوں کے بھائی جان“ کے نام مشہور تھے۔شاعری میں ان کا تخلص”نظر ؔ“تھا۔معاشرے کی اصلاح کا پہلو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کے لئےلاتعدادیادگارسکرپٹ لکھے۔


غلام محی الدین نظر صاحب کا شمار لاہور پریس کلب کے ان بانیوں میں سے ہوتا ہے جنھوں نے صحافیوں کی تنظیم کو منظم کرنے کا خواب دیکھا۔صحافتی و ادبی خدمات پر انھیں بے شمار ایوارڈز اور تعریفی اسناد سے بھی نوازا گیا۔اکیڈمی ادبیات پاکستان سمیت متعدد ادبی و صحافتی تنطیموں سے وابستہ رہے اوراپنی تحریروں کے ذریعے ہمیشہ ملک وقوم کے لئے صحافتی و ادبی خدمات انجام دیتے رہے۔

شاعری اور نثر کی بے شمار کتابوں کے مصنف تھے۔ہمیشہ صاف ستھرالباس زیب تن کئےرکھتے تھے،ایسے اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے کہ جو بھی انھیں ایک مرتبہ مل لیتا پھر ان کا گرویدہ ہوجاتا ۔ نظر صاحب کودانت کا انفیکشن ہوا جو کینسر بن کرجان لیوا ثابت ہوا۔11نومبر1992میں اُن کا انتقال لاہورمیں ہوا، انھیں قبرستان میانی صاحب میں حضرت طاہر بندگیؒ کے مزار کے احاطہ میں سپرد خاک کیا گیا۔

انمول ہسپتال میں وفات سے کچھ لمحے قبل انھوں نے  اشارہ کرکے قلم مانگا   اوربیڈ کے پاس ٹیبل پرپڑے کاغذ کے ایک ٹکڑے پربڑی مشکل سے آخری جملہ لکھا”رہبر کا مرید“یعنی اپنے رب کا بندہ۔بچپن سے لے کر وفات تک قلم ان کے ہاتھ میں تھا۔غلام محی الدین نظرؔ صاحب آج اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں اورجب تک یہ تحریریں زندہ رہیں گی، کوئی بھی غلام محی الدین نظر ؔصاحب کو بھلا نہ سکے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :