کینسر کا عالمی دن

منگل 9 فروری 2021

Dr Raja Mohammad Adeeb Khan

ڈاکٹر راجا محمد ادیب خان

ہر سال 4فروری کو کینسر کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کا آغاز 4فروری 2000ء میں یونین فار انٹرنیشنل کینسر کنٹرول نے کیا۔ اس دن کے منانے کا مقصد عوام الناس میں کینسر سے بچاؤں کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا نیز کینسر کی تشخیص اور علاج معالجے کے بارے میں معلومات عام کرنا ہے۔ اس کے علاوہ تمام ارباب اختیارکو باور کرانا ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں بنائیں جس سے کینسر کی روک تھام ممکن ہو اور اس مرض میں مبتلا لوگوں کو علاج معالجے میں آسانی ہو۔


قارئین انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر (IARC) کی 14دسمبر2020ء کی رپورٹ کے مطابق 2020ء میں پوری دنیا سے 19.3ملین نئے کیسز رپورٹ ہوئے اور موضی مرض سے 10ملین لوگ لقمہ اجل بنے۔ شماریات یہ بتاتی ہیں کہ ہر دن دنیا سے تقریباً 27ہزار لوگ کینسر سے مرتے ہیں۔

(جاری ہے)

مردوں میں ہر پانچواں مرد (1 in 5) اور عورتوں میں ہر گیارویں عورت (1 in 11) کینسر سے مرتی ہے۔

یہ شرح دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً 50ملین لوگ کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں۔ قارئین آج کے اس مضموں میں راقم کینسر کی مختلف وجوہات ، کینسر سے بچاؤ اور اس ضمن میں حکومتوں کے کردار پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرے گا۔
قارئین ہمارا جسم کھربوں خلیات کا بنا ہوا ہے بالکل ایسے جیسے دیوار اینٹوں سے بنتی ہے۔ جسم میں موجود ہر خلیہ اپنا مخصوص کام کرتا ہے اور ایک خاص مدت کے بعد اس کی وفات ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ قریب موجود کوئی دوسرا خلیہ تقسیم ہو کر فل کر دیتا ہے۔

خلیات کی تقسیم (نئے خلیات کا بننا) جسم کی ضرورت کے مطابق انتہائی منظم طریقے سے ہوتی ہے۔ اگر جسم کے کسی حصے کے خلیات کی تقسیم جسم کی ضرورت کو مدِ نظر رکھے بغیرغیر منظم انداز میں شروع ہو جائے تو جلد ہی جسم کے اس حصے میں ایک رسولی / پھوڑا بن جاتا ہے جسے ٹیومر کہتے ہیں ۔ کچھ عرصہ بعد اس ٹیومر سے خلیات نکل کر خون کے ذریعے جسم کے مختلف حصوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ ان خلیات کی تقسیم بار بار ہو رہی ہوتی ہے اس لیے جلد ہی جسم میں جہاں جہاں یہ خلیات پہنچتے ہیں وہاں بھی ٹیومر بن جاتے ہیں۔

یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ آپ کے جسم میں کینسر پھیل چکا ہے۔ یہ کینسر کی تیسری یا چوتھی سٹیج ہوتی ہے۔ اس سٹیج پر ریڈیو یا کیمو تھراپی بھی فائدہ مند نہیں ہوتی اور جلد ہی مریض کی ہلاکت ہو جاتی ہے۔
یاد رہے کہ جب آغاز میں جسم کے کسی حصے میں ٹیومر بنتا ہے اور اس کے خلیات ابھی اسی ایک جگہ ہوتے ہیں یا اس کے قریب تھوڑی سی جگہ پر پھیلے ہوتے ہیں تو یہ سٹیج ون یا سٹیج ٹو کہلاتا ہے۔

اس مرحلے پر اگر کینسر کی تشخیص ہوجائے تو اس کا علاج ممکن ہے۔
قارئین کینسر کی مختلف اقسام ہیں۔ کینسر جسم کے کن خلیات کی وجہ سے بنا اور کس حصے میں موجود ہے اس بنیاد پر ہر قسم کو نام دیا جاتا ہے۔ جیسے معدے کا کینسر، چھاتی کا کینسر وغیر ہ وغیرہ۔
کینسر کی مختلف اقسام کے بننے کی وجوہات بھی مختلف ہوتی ہیں تاہم چند وجوہات تمام کینسرز میں کردار ادا کرتی ہیں۔

ذیل میں راقم چند بڑی وجوہات کا ذکر کرے گا۔
کینسر کی مختلف وجوہات کو ہم دو گروپ میں تقسیم کرتے ہیں
1۔ایسی وجوہات جنہیں ہم روک سکتے ہیں۔
2۔ایسی وجوہات جن کا تدارک ہمارے اختیار میں نہیں۔
#الکوحل :
ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ لمبے عرصے تک الکوحل کی زیادہ مقدار نوش کرنا مختلف کینسرجن میں کولوریکٹل، ایسوفیگس، جگر، معدہ ، مثانے اور چھاتی کے کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔


#موٹاپا:
ریسرچ کے مطابق موٹا پا انسانی جسم میں 12قسم کے کینسر کا باعث بن سکتا ہے، جس میں کولوریکٹل اور لبلبے کا کینسر سر فہرست ہیں۔
# خوراک:
سائنسدانوں نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ کچھ ایسی غذائیں ہیں جو کینسر کا باعث بن سکتی ہیں ان غذاؤں میں سرخ گوشت کا زیادہ استعمال ، محفوظ کیا ہو گوشت زیادہ نمکیات ملی خوراک شامل ہیں۔

نیز سبزیوں اور پھلوں کا کم استعمال بھی بہت سے کینسر کے بننے اور بڑھنے کا سبب بنتا ہے۔
#ورزش / جسم کو متحرک رکھنا:
جیسا کہ تحقیق سے ثابت ہے کہ ورزش موٹاپے کو کم کرتی ہے جسم کے تمام خلیات تک آکسیجن اور خوراک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ روزانہ ورزش کرتے ہیں یا اپنے جسم کو حرکت میں رکھتے ہیں ان میں دوسرے لوگ جو اپنے جسم کو زیادہ تر ساکت رکھتے ہیں ان کی نسبت کینسر کی شرح بہت حد تک کم ہے۔


#تمباکو کا استعمال:
قارئین تحقیق سے ثابت ہے کہ تمباکو کے اندر 80سے زائد ایسے کیمیکل موجود ہیں جو جسم میں داخل ہو کر خلیات کی تقسیم کو بے قابو کر دیتے ہیں جس سے مختلف قسم کے کینسر بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ تمباکو چاہے سگریٹ یا نسوار یا گٹکا کسی بھی قسم میں استعمال کیا جائے اس میں موجود مضر کیمیکل خون میں شامل ہو جاتے ہیں اور مختلف قسم کے کینسر جن میں پھیپھڑوں اور منہ کا کینسر سر فہرست ہیں کا باعث بنتا ہے۔

کینسر شماریات کے مطابق کینسر کی وجہ سے وفات کا 22%وفات تمباکو کے استعمال سے ہوتی ہیں۔
# مضر شعاعیں:
قارئین تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ مختلف شعاعیں جن میں ریڈان ، ایکس رے اور گیماریز وغیرہ شامل ہیں جسم میں داخل ہو کر خلیات کی تقسیم کو کنٹرول کر نے والے جینز کو تبدیل کر دیتی ہیں جس سے ان خلیات کی تقسیم بے قابو ہو جاتی ہے اور اس حصے میں کینسر بننا شروع ہو جاتا ہے۔


# کام کی جگہ پر موجود خطرات:
بعض لوگ ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں سے ان کے جسم میں کینسر کا باعث بننے والے کیمیکل داخل ہوتے رہتے ہیں جیسے رنگ بنانے والے کارخانے میں کام کرنے والے لوگ، ایسے لوگوں میں مختلف کینسر جن میں مثانے کا کینسر شامل ہے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔
# جراثومے:
بہت سے بیکٹیریا وائرس اور دوسرے چھوٹے جاندار ایسے ہیں جو جسم میں داخل ہو کر خلیات کی تقسیم کو کنٹرول کرنے والے جینز کو تبدیل کر دیتے ہیں جو کینسر کے باعث بنتے ہیں۔

ان وائرسز میں ہیومن پیپلی ہو ما وائرس اور بیکٹیریا میں ایچ پائلوری شامل ہیں جو با الترتیب سروائیکل اور معدے کے کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ مشہور ہپاٹائٹس Bاور سی وائرس جگر کے کینسر کا باعث بنتے ہیں۔
ایسی وجوہات جن کا تدارک ہمارے اختیار میں نہیں
# عمر:
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بہت سے کینسر کی اقسام جسم میں نمودار ہونا شروع ہو جاتی ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ماحول سے مختلف کینسر کی وجہ بننے والے کیمیکل جسم میں داخل ہو کر اند ر ہی جمع ہو تے رہتے ہیں جتنی عمر زیادہ ہوتی ہے اتنی ان کیمیکل کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے اور یہی زیادہ مقدار نارمل خلیات کو کینسر کے خلیات میں تبدیل کر دیتی ہے۔


عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ ماحول میں مضر شاعیں بھی جسم پر پڑتی رہتی ہیں ۔ ان شعاعوں کا جتنا زیادہ سامنا ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ چانسز ہوتے ہیں کہ یہ جسم میں خلیات کے جینیاتی نظام کو تبدیل کر کے کینسر والے خلیات میں بدل دیں۔
# کینسر کا باعث بننے والے کیمیکل ( Carcinogens):
بہت سے ایسے مرکبات خوراک یا سانس کے ساتھ ہمارے جسم میں داخل ہوتے رہتے ہیں جو جسم میں موجود خلیات کے جینیاتی نظام کو اس طرح تبدیل کر دیتے ہیں کہ وہ خلیات جسم کی ضرورت کو مدِ نظر رکھے بغیر تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں اور جسم کی اس جگہ ٹیومر نمودار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔


# تبدیل شدہ جینیاتی نظام:
کچھ لوگوں کو والدین سے تبدیل شدہ جینز ملتے ہیں مگر ایسا نہیں کہ وہ جینز 100فیصد کینسر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلکہ ان جینز کو بھی جسم کے اندر یا باہر سے کچھ اور کیمیکل یا شعاعوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب مطلوبہ معاون اشیاء ملتی ہیں تو یہ جینز ٹیومر بنانا شروع کرتے ہیں ۔ عورتوں میں چھاتی کا کینسر تقریباً تین سے پانچ فیصد ایسے جینز کی وجہ سے ہوتی ہے ۔

تاہم کینسر 97%ماحول کی وجہ سے جبکہ 3%وراثتی وجوہات سے بنتا ہے۔
# مدافعتی نظام کا کمزور ہونا:
ہر انسان کے جسم میں ایک مدافعتی نظام ہوتا ہے جو جسم میں داخل ہونے والے تمام جراثوموں کو اور ان خلیات کو جن میں ایسی تبدیلیاں ہو جاتی ہیں کہ وہ کینسر خلیات میں تبدیل ہو سکتے ہیں کو پہچان کر تباہ کر دیتا ہے۔اس طرح جسم میں کینسر اور دوسری بیماریاں لگنے کے چانسز بہت کم ہو جاتے ہیں لیکن اگر کسی شخص کا مدافعتی نظام کمزور ہو جائے جیسے ایڈز کے مریضوں کا مدافعتی نظام تباہ ہو جاتا ہے تو ان لوگوں میں کینسر بننے کے چانسز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔


کینسر کی علامات
مختلف اقسام کے کینسر کی مختلف علامات ہوتی ہیں اور کینسر کی علامات کا تعلق اس چیز سے ہے کہ کینسر جسم کے کس حصے میں بن رہا ہے تاہم چند علامات جو زیادہ تر کینسر میں پائی جاتی ہیں درج ذیل ہیں۔
1۔ جسم میں سوزش یا رسولی کا ظاہر ہونا:
جسم کے کسی حصے میں سورش یا رسولی کا ظاہر ہونا جو عموماً درد نہیں کرتی اور آہستہ آہستہ اس کی نمو ہو رہی ہو تو ممکن ہے کہ وہ ٹیومر ہو۔


2۔ مکمل کھانسی ، سانس پھولنا اور نگلنے میں دشواری:یہ گلے اور پھیپھڑوں کے کینسر کی علامات ہو سکتی ہیں۔
3۔ پاخانے میں تبدیلی:مسلسل قبض، پیچش یا پاخانے میں خون آنا، آنتوں ، مقعد اور معدے کے کینسر کی علامات ہو سکتی ہیں۔
4۔ غیر متوقع جسم سے خون نکلنا:کھانسی کے ساتھ، پاخانے میں ، پیشاب میں یا جسم کے کسی اور حصے سے خون کا بہنا کینسر کی علامت ہو سکتا ہے۔


5۔ تھکاوٹ: جسم میں ہر وقت تھکاؤٹ کا احساس جوکہ بہت سی دوسری بیماریوں میں بھی ہوتا ہے ۔ کینسر کی علامات میں شامل ہے۔بغیر کسی وجہ کے وزن میں کمی: اگر بغیر کسی وجہ جسم میں چند مہینوں میں وزن بہت حدتک کم ہو جائے تو یہ کینسر کی علامت ہو سکتا ہے۔
6۔ جسم میں درد: اگر جسم میں کوئی بیماری ظاہر ہو اس کے باوجودجسم میں کسی جگہ پر مسلسل درد محسوس ہو یا کبھی درد ہو اور کبھی نہ ہو یہ بھی کینسر کی علامت ہو سکتا ہے۔


7۔ جسم میں موجود تِل کی ہیئت میں تبدیلی: جسم میں موجود تل کا اگر سائز بڑھنا شروع ہو جائے یا اس سے خون نکلنا شروع ہو جائے تووہ کینسر میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
8۔ پیشاب کرنے میں دشواری: جب پیشاب کے اخراج کی حاجت ہو مگر پیشاب خارج نہ ہو یا خارج ہوتے ہوئے تکلیف محسوس ہو یہ بھی کینسر کی علامت ہو سکتی ہے۔
9۔ چھاتی میں غیر متوقع تبدیلی:اگر عورت کی چھاتی کے سائز یا بناؤٹ میں کوئی غیر متوقع تبدیلی ہو رہی ہو یا درد محسوس ہوتا ہو تو یہ بھی چھاتی کے کینسر کی علامت ہو سکتی ہے۔


10۔ بھوک میں کمی: اگر لمبے عرصہ تک بھوک بہت کم محسوس ہو رہی ہو تو یہ بھی کینسر کی علامت ہو سکتی ہے۔
11۔ السر: جسم میں کوئی السر کافی عرصے سے چل رہا ہو اور ٹھیک نہ ہوتا ہو تو وہ کینسر کی علامات ہو سکتا ہے۔
12۔ سینے میں جلن اور خوراک کا ہضم نہ ہونا: مسلسل سینے میں جلن محسوس ہونا اور خوراک کا ہضم نہ ہونا بھی ایسوفیگس یا معدہ کے کینسر کی علامت ہو سکتا ہے۔


13۔ رات کو پسینے آنا: رات کو سوتے ہوئے بہت زیادہ پسینہ آنا بھی کینسر کی علامت ہو سکتا ہے۔
کینسرسے بچاؤ اور ابتدائی مرحلے میں تشخیص
تقریباً 1/3کینسر کیسز کو کینسر آگاہی مہم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں چند اہم اقدام درج ذیل ہیں۔
1۔ تمباکو نوشی کو ترک کرنا
2۔ روازنہ کی بنیاد پر ورزش کرنا / جسم کو حرکت دینا

موٹاپے کو کم کرنا اور جسم کا صحت مند وزن برقرار رکھنا
4۔ الکوحل کا استعمال ترک یا کم کرنا۔
5۔ انفکشن سے بچاؤ:
جیسا کہ ریسرچ سے ثابت ہے کہ ہومن پیپلی ہو ما وائرس سروائیکل کینسر کا باعث بنتا ہے اور ہپاٹائٹس Bاور Cجگر کے کینسر کا باعث بنتے ہیں۔ HPVاور HBVکے لیے ویکسین موجود ہے اگر یہ ویکسین لگوا لی جائے تو سروائیکل اور جگر کے کینسر سے کافی حد تک بچاؤ ممکن ہو سکتا ہے۔


6۔ مضر شعاعوں سے بچنا:جیسا کہ تحقیق سے ظاہر ہے کہ X-rays، گیماریز اور ریڈان کینسر کا باعث بنتی ہیں ۔ ایسی شعاعوں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہے۔
7۔ صحت مند خوراک کا استعمال:تحقیق سے ثابت ہے کہ سرخ گوشت کا بہت زیادہ استعمال محفوظ کی ہوئی خوراک کا استعمال اور بہت زیادہ نمکیات ملی خوراک کا استعمال کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔ جب کہ پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال کینسر کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔


8۔ رویوں کی تبدیلی:ہمارے کچھ رویے ہمیں کینسر اور اس جیسی بہت سی اور موضی امراض کی طرف دھکیل رہی ہیں جیسا کہ رات دیر تک جاگنا اور صبح دیر تک سونا۔کاہلی اور سستی، بہت زیادہ ٹینشن لینا ، اپنے آپ کو حد سے زیادہ کسی چیز میں مبتلا کر لینااور جسم کی تھکاوٹ اور آرام کا خیال نہ رکھنا، متوازن غذا کا استعمال نہ کرنا۔ اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرنے کے لیے تمباکو نوشی کرنا۔

مریض کا ایکسرے کراتے ہوئے ساتھ کھڑا رہنے پر ضد کرنا، کسی گردو غبار والی جگہ پر کام کرتے ہوئے ناک اور منہ کو نہ ڈھانپنا، وغیرہ وغیرہ
کینسر کی ابتدائی مرحلے میں تشخیص
اگر کینسر کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کر دی جائے تو ممکن ہے کہ بہت سے لوگ اپنے جسم میں تبدیلیوں کو محسوس کر لیں گے اور تشخیص کے لیے ڈاکٹرز سے رجوع کر یں گے ۔

یاد رہے کہ اگر کینسر کی تشخیص ابتدائی مرحلے میں ہو جائے تو اسے بخوبی نکال دیا جاتا ہے یا ختم کر دیا جاتا ہے اور ٹھیک ہو نے کے چانسز 100فیصد ہوتے ہیں۔لیکن افسوس ہمارے ہاں آگاہی میں کمی کی وجہ سے کینسر کی ابتدائی مرحلے پر نہیں بلکہ اکثر تیسری یا چوتھی سٹیج پر تشخیص ہوتی ہے جب مریض کے ٹھیک ہونے کے چانسز انتہائی کم ہوتے ہیں۔
صاحب اختیار اور صاحب استطاعت سے اپیل

تمباکو نوشی جو کہ کینسر کی سب سے بڑی وجہ ہے پر فل فور پابندی لگائی جائے ۔ سگریٹ کا دھواں دوسرے افراد تک پہنچا کر انہیں نقصان پہنچانے والے افراد کے لیے سخت قانون سازی کی جائے۔
2۔ ایسے تمام اشتہارات ٹی وی شوز اور ڈرامہ سیریل کو ریلز ہونے کی اجازت نہ دی جائے جن میں تمباکو نوشی کو پرموٹ کیا جاتا ہے یا تمباکو نوشی والے کو اچھا، معتبر اور بہادر دکھایا جاتا ہے۔


3۔ ایسے افراد جو گرد و غبار میں کام کرتے ہیں جیسا کہ کان کنی، ماربل یا ٹائل فیکٹری میں ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی جائے اور انہیں SOPsپر مکمل عمل درآمد پر آمادہ کیا جائے۔
4۔ تمام ایکسریز سینٹرز پر حفاظتی لباس کو یقینی بنائے جانے کے لیے ضروری اقدام کیئے جائیں۔
5۔ آزاد کشمیر کی آبادی کے تناسب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مختلف کینسر کی تشخیص اور علاج معالجے کے سنیٹرز قائم کیئے جائیں۔


6۔ آزاد کشمیر میں مختلف انواع و اقسام کے پودے اور جانور موجود ہیں جو یقینا ایسے مرکبات رکھتے ہوں گے جو کینسر کی ٹریٹمنٹ میں استعمال ہو سکتے ہیں اور مارکیٹ میں موجود ادویات سے کم قیمت ادویات تیار کی جا سکتی ہیں اس ضمن میں ضروری ہے کہ آزاد کشمیر کی مختلف جامعات میں یا ان کے علاوہ کینسر ریسرچ سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے ۔

کینسر آگاہی سینٹرز کا قیام: آزاد کشمیر کے مختلف ہسپتالوں اور ان کے علاوہ مقامات پر کینسر آگاہی سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ کینسر سے بچاؤ اور ابتدائی مرحلے پر تشخیص عمل میں لائی جاسکے۔
8۔ کینسر فنڈ کا قیام: گورنمنٹ کو چاہیے کہ گورنمنٹل فنڈز میں سے ایک خاص مقدار کینسر کے مریضوں کے لیے مخصوص کرے۔ تاکہ وہ فنڈز ان کی تشخیص ، علاج اور فیملی کی سپورٹ کے لیے استعمال کیئے جائیں۔


9۔ کینسر رجسٹری کا قیام: آزاد کشمیر کے اندر ایک مرکزی کینسر رجسٹری کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ سالانہ کتنے لوگ اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں ؟ کتنے لوگ وفات پا رہے ہیں؟ اور کتنے کینسر کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں؟ جب یہ معلومات اکٹھی ہو جائیں گی تو گورنمنٹ کو اس مرض کے تدارک ، تشخیص اور علاج معالجے کے لیے پالیسیز بنانے میں آسانی ہو گی۔


10۔ گورنمنٹ کو ایسی تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کرنے چاہیے جس سے یہ معلوم کیا جا سکے کہ آزاد کشمیر کے اندر کون سے کینسر کا باعث بننے والے فیکٹرز زیادہ ہیں اور ان کا تدارک کیسے ممکن ہے۔
گرین ھلز سائنس کالج آزاد کشمیر کے دارالخلافہ مظفرآبادمیں واقع ہے ۔ کالج کا قیام 2014ء میں عمل میں لایا گیا۔ کالج کے قیام کا مقصد طلبہ و طالبات کو دینی اور جدید سائنسی تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ رکھنا ہے۔

مختلف بیماریوں خصوصاً کینسر سے آگاہی کے لیے کالج کے اندر اساتذہ اور طلبہ پر مشتمل ایک کینسر آگاہی تنظیم بنائی گئی۔یہ تنظیم 2014ء سے آج تک ہر سال کینسر آگاہی سیمینار منعقد کراتی ہے۔ الحمدُ اللہ اب یہ تنظیم الگ سے ایک ادارہ بن چکی ہے جس کا نام تبدیل کر کے گرین ھلز کینسر ایسوسی ایشن رکھ دیا گیا ہے اور اس کی آزاد کشمیر میں رجسٹریشن کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ امید واثق ہے کہ وہ تمام لوگ جو اس دنیا سے کینسر کا بوجھ کم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اس تنظیم کا حصّہ بنیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :